شبیر بلوچ کے جبری گمشدگی کے 8 سال، بازیابی کا مطالبہ

142

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے رہنما شبیر بلوچ کے جبری گمشدگی کو آٹھ سال مکمل، کمپئین کا انعقاد، بازیابی کا مطالبہ

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے شبیر بلوچ کی جبری گمشدگی کے آٹھ سال مکمل ہونے پر کہا ہے کہ جبری گمشدگیاں بلوچستان پر لعنت ہے۔ یہ صرف متاثرین ہی نہیں بلکہ ہزاروں خاندان جن کی زندگیاں تباہ ہو چکی ہیں۔

انہوں نے کہا ہے کہ شبیر بلوچ، ایک طالب علم رہنما، آٹھ سال قبل جبری طور پر لاپتہ کیئے گئے اور ان کا ٹھکانہ ابھی تک نامعلوم ہے۔ اس کی بہن، سیما، ان کی محفوظ رہائی کے لیے انتھک جدوجہد کر رہی ہے، اپنے دو بچوں، میراس اور شری کو سڑکوں پر پال رہی ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ شبیر کی بیوی زرینہ بے یقینی کے عذاب میں جی رہی ہے، نہ بیوہ اور نہ ہی بیوی۔ اس سے زیادہ دل دہلا دینے والی بات یہ ہے کہ اس نے اس کے اغوا کا مشاہدہ کیا اور اس کی ذہنی صحت شدید متاثر ہوئی ہے۔ ایک بار، اس نے مجھ سے کہا، “میں ہمیشہ اس لمحے پر لعنت بھیجتی ہوں جب وہ شبیر کو میرے سامنے لے گئے۔ کاش وہ مجھے بھی لے جاتے تو مجھے یہ لامتناہی انتظار نہ سہنا پڑتا۔ یہ حالت زار ہزاروں بلوچ خاندانوں کی خاموش اذیت ہے۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے جنرل سیکرٹری سمی دین بلوچ نے کہا کہ شبیر بلوچ کی جبری گمشدگی کو آٹھ سال گزر گئے آٹھ سالوں میں شبیر بلوچ کی بہن سیما شریک حیات زرینہ اور والدہ اسلام آباد کراچی کوئٹہ میں ہونے والے ہر احتجاجی مظاہرے میں شبیر بلوچ کی بازیابی کا مطالبہ کرتے رہے ہیں مگر بجائے انکے دکھوں کا ازالہ کیا جاتا پرامن مظاہروں پر بدترین تشدد لاٹھی جارچ اور گرفتاریاں کی گئی ۔

‎انہوں نے کہاکہ آٹھ سالوں کا کرب لئے شبیر بلوچ کے اہلخانہ کے چہرے مرجھائے ہوئے نظر اتے ہیں یہ کرب دیمک بن کر اندر ہی اندر جبری گمشدگیوں کے شکار افراد کے لواحقین کو روزانہ کھا رہی ہے مگر تب بھی اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے وہ پرامن راستے کا انتخاب کرکے اس ریاست سے انکے ہر بدلتے حکمرانوں سے اپنے پیاروں کی بازیابی کا مطالبہ کرتے آرہے ہیں

شبیر بلوچ کی بہن سیما بلوچ نے کہاکہ بھائی شبیر کو 4 اکتوبر 2016 کو میری بھابھی زرینہ کے سامنے اغوا نما گرفتاری کا شکار کیا تھا۔ آج آٹھ سالوں بعد بھی ہم میں سے کوئی خاموش بیٹھنے کو ترجیح نہیں دیتا۔ میں لڑوں گی، اپنی آخری سانس تک لڑوں گی، شبیر کے لوٹنے تک لڑوں گی۔