سیکورٹی کے مد میں ایف سی کو کروڑوں ادا کررہے ہیں۔ کان مالکان

311

بلوچستان کے ضلع دکی میں جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب مسلح حملہ آوروں نے کو ئلہ کان میں کام کرنے والے مزدوروں کو حملے کا نشانہ بنایا۔

سپری ڈنٹ پولیس دکی آصف شفیع نے واقعہ کے حوالے سے میڈیا کو تفصیلات فراہم کرتے ہوئے بتایا ہے کہ 30 سے 40مسلح حملہ آوروں نے دکی شہر سے تقریبا آٹھ سے دس کلومیٹر دور جنید کول کمپنی ایریا میں کوئلہ کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کے رہائشی کوارٹرز پر حملہ کیا۔

پولیس افسر کے مطابق حملے کے وقت زیادہ تر کانکن رات کو کان سے باہر نکل کر اپنے کچے کمروں میں سو رہے تھے، انہوں نے بتایا کہ حملہ آوروں نے ٹولیوں کی شکل میں مختلف رہائشی کوارٹرز جاکر مزدوروں کو اندھا دھند گولیوں کا نشانہ بنایا۔

انکے مطابق کوئلہ کانوں کی سکیورٹی پر مامور نجی محافظوں نے کچھ دیر مزاحمت کی لیکن حملہ آوروں کے پاس جدید اسلحہ، راکٹ اور دستی بم تھے جس کی وجہ سے وہ غالب آ گئے۔

ایس ایچ او دکی ہمایوں ناصر کے مطابق حملہ آوروں نے متعدد انجنوں سمیت کوئلہ نکالنے میں استعمال ہونےوالی مشینری کو بھی نذر آتش کیا۔

ایس پی کے مطابق مقتولین میں سے تین کا تعلق افغانستان جبکہ باقیوں کا تعلق بلوچستان کے پشتون اکثریتی اضلاع ژوب ، قلعہ سیف اللہ، لورالائی، قلعہ سیف اللہ، پشین، موسیٰ خیل اور کوئٹہ سے تھا۔

پولیس الزام عائد کیا ہے کہ بلوچ لبریشن آرمی کی جانب سے دکی میں کوئلہ لینے والے ٹرکوں کے خلاف سرگرمیاں دیکھی گئی ہیں اور ممکن ہے کہ اس حملے میں بھی یہی تنظیم ملوث ہو لیکن اب تک کسی نے ذمہ داری قبول نہیں کی۔

دوسری جانب ڈسٹرکٹ کونسل دکی کے چیئرمین حاجی خیر اللہ ناصر جو کوئلہ کان کے مالک بھی ہیں نے واقعہ کی تفصیلات بتا تے ہو ئے کہا کہ یہ حملہ رات ساڑھے گیارہ بجے شروع ہوا اور تقریبا دو بجے تک جاری رہا۔

ان کا کہنا تھا کہ حملہ آوروں کے پاس نہ صرف جدید ہتھیار، راکٹ لانچر بلکہ ڈرون بھی تھے جن کی مدد سے وہ جھاڑیوں اور درختوں کی آڑ میں چھپنے والے مزدوروں کو بھی تلاش کررہے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ حملے کے فوری بعد انہوں نے ضلع میں موجود اعلی سکیورٹی افسران اور آئی جی پولیس تک سے رابطہ کیا مگر علاقہ صرف ڈیڑھ کلومیٹر دور ہونے کے باوجود صبح روشنی ہونے تک پولیس اور سکیورٹی فورسز جائے وقوعہ تک نہیں پہنچیں۔

ان کا کہنا تھا کہ شہر رات بھر فائرنگ اور دھماکوں سے گونجتا رہا مگر کوئی مزدوروں کی مدد کو نہیں آیا۔

حاجی خیر اللہ کا کہنا تھا کہ مزدوروں کی لاشیں اور زخمیوں کو بھی انہوں نے خود جاکر ہسپتال پہنچای، سول ہسپتال دکی کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر جوہر خان شادوزئی نے بتایا کہ مزدوروں کو سر اور جسم کے مختلف حصوں میں نہ صرف گولیاں ماری گئی تھیں بلکہ ان کے جسم پر دستی بم کے ذرات سے لگنے و الے نشانات بھی تھے۔

انہوں نے بتایا کہ کئی مزدوروں کو ایک سے زائد گولیاں سروں میں ماری گئی تھیں جن کی وجہ سے ان کی موقع پر ہی موت ہوگئی تھی۔

ڈسٹرکٹ کونسل کے چیئرمین اور کوئلہ کان کے مالک حاجی خیراللہ ناصر نے دعویٰ کیا کہ کوئلہ کان مالکان اور مزدوروں کو لسانی بنیادوں پر سرگرم شدت پسند تنظیموں کی جانب سے کافی عرصہ سے دھمکیاں مل رہی ہیں، مسلح تنظیم نے اس سے پہلے بارہ کانکنوں کو اغوا کیا جن میں سے 9 رہا ہو گئے جبکہ 3 اب بھی ان کی قید میں ہیں۔

حاجی خیراللہ ناصر کا کہنا تھا کہ دکی میں ایک ہزار سے زائد چھوٹی بڑی کانیں ہیں یہاں سے روزانہ چھ ہزار ٹن کوئلہ نکالا جاتا ہے، روزانہ تقریبا 120 گاڑیاں کوئلہ لے کر پنجاب اور ملک کے دوسرے صوبوں کو جاتی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ کوئلہ کان مالکان سکیورٹی کے نام پر فی ٹن 220 روپے کے حساب سے ماہانہ تقریبا تین کروڑ روپے سکیورٹی فورسز کو ادا کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود ہمیں تحفظ حاصل نہیں، ہم سکیورٹی سے مطمئن نہیں۔

واضح رہے کہ اس سے قبل کان میں کام کرنے والے مزدوروں کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے چند سال قبل سات کے قریب ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے کان مزدوروں کو زبح کردیا گیا تھا جس کی ذمہ داری داعش نے قبول کرلی تھی۔