سنوار کے جانشین کون ہوں گے: آیا ممکنہ متبادل قطر میں مقیم ہیں؟

153

فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس ممکنہ طور پر یحییٰ سنوار کی ہلاکت کے بعد کوئی ایسا رہنما لائے گا جو غزہ سے باہر مقیم ہو جبکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ سابق رہنما کے بھائی محمد سنوار اسرائیل کے خلاف جنگ جاری رکھنے میں متوقع طور پر زیادہ بڑا کردار ادا کریں گے۔

نئے رہنما کی تلاش میں حماس نہ صرف اپنی پشت پناہی کرنے والے ایران کی ترجیحات کو مقدم رکھے گا بلکہ قطر کے مفادات بھی پیش منظر ہونگے۔

خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق حماس کی قیادت کے تمام ممکنہ امیدوار اس وقت قطر میں مقیم ہیں۔

سنوار جو غزہ جنگ کا باعث بننے والے سات اکتوبر 2023 کے اسرائیل پر حملے کے ماسٹر مائنڈز میں شامل تھے، اسرائیلی فورسز کے ساتھ بدھ کو ایک فائرنگ کے تبادلے میں مارے گئے تھے۔ تین مہینوں میں ایسا دوسری بار ہوا ہے کہ حماس کے رہنما کو ہلاک کر دیا گیا۔

حماس کے سابق چیف اسماعیل ہنیہ کو ایران میں جولائی میں ہلاک کردیا گیا تھا۔ ان کے قتل کا الزام اسرائیل پر لگایا گیا تھا۔

جب سنوار کو ہنیہ کی جگہ قائد بنایا گیا تو انہوں نے حماس کی سیاسی اور عسکری قیادت کو غزہ میں یکجا کر دیا۔

تاہم، رائٹرز کے مطابق اس بار ایسا دکھائی نہیں دیتا کہ نیا سربراہ بھی ایسا کرے گا۔

اسرائیل کی جانب سے تباہ کن حملوں کے ایک سال کے دوران، جس میں اسرائیلی فوج نے حماس کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا، اس کے ہزاروں جنگجوؤں کو ہلاک کیا، غزہ اور اس سے باہر گروپ کے کئی رہنماؤں کو ماردیا، اس وقت یہ واضح نہیں ہے کہ گروپ اس بحران سے کیسے نکلے گا۔

سنوار کے نائب، خلیل الحیا کو ایک ممکنہ جانشیں سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے جمعے کو اس مسئلے پر ایک جارہانہ انداز اپنایا اور کہا کہ جب تک اسرائیلی فوج کا غزہ سے انخلا نہیں ہوتا اور جنگ ختم نہیں ہوتی یرغمالوں کو واپس اسرائیل نہیں بھیجا جائے گا۔

حماس کی تاریخ بتاتی ہے کہ وہ جلد ہی اپنے ہلاک ہونے والے رہنماؤں کا متبادل مقرر کر دیتی ہے۔ نئے رہنما کا نام شوریٰ کونسل کی طرف سے آتا ہے جوکہ تنظیم کا فیصلہ ساز ادارہ ہے۔

شوریٰ کونسل غزہ کی پٹی، مغربی کنارے، اسرائیلی جیلوں میں بند اور اسرائیلی نژاد تارکین وطن میں موجود تمام حماس ارکان کی نمائندگی کرتی ہے۔

رائٹرز کے مطابق اس سے مراد یہ ہے کہ غزہ میں موجود نہ ہوتے ہوئے بھی حماس کا رہنما جنگ بندی کے مذاکرات میں حصہ لے سکتا ہے۔ حماس کے مسلح ارکان ابھی بھی اسرائیل سے اغوا کیے گیے یرغمالوں کو اپنے قبضے میں لیے ہوئے ہیں۔

حماس کے ذرائع اور تجزیہ کاروں کے مطابق حیا کے علاوہ ، جوکہ حماس کے چیف مذاکرات کار ہیں، گروپ کی قیادت کے ممکنہ امیدواروں میں ہنیہ کے پیش رو خالد مشال اور شوریٰ کونسل کے چیئرمین محمد درویش شامل ہیں۔

نئے رہنما کی تقرری سے پہلے حماس کو کلیدی مذاکرات کار قطر، اور خطے کے اہم ملکوں کو اپنے فیصلے سے مطلع کرنا ہوگا۔

فلسطینی امورکے ماہر اشرف ابولہول سمجھتے ہیں کہ حماس کی نئی قیادت میں سنوار کی سیاسی اور عسکری ذمہ داریاں بانٹی جائیں گی۔

ابولہول، جو مصر کے اخبار ال احرام کے مدیر ہیں، کہتے ہیں کہ ایران حماس کا سب سے بڑا اتحادی ہے، جو گروپ کی مالی اور ہتھیاروں کی فراہمی سے اس کی معاونت کرتا ہے لہذا ایران کی آشرباد اس بارے میں اہم ہوگی کہ گروپ کا نیا رہنما کسے مقرر کیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حماس جنگ بندی، اسرائیلی فوج کی غزہ سے واپسی اور جنگ کے خاتمے کے مطالبات پر قائم رہے گی۔

تاہم تنظیم اسرائیل کی قید میں موجود فلسطینیوں کی رہائی کے بدلے یرغمالوں کی رہائی کے معاملے پر لچک دکھا سکتی ہے۔

اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو نے سنوار کی ہلاکت کو ایک سنگ میل قرار دیا ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ یرغمالوں کی رہائی تک جنگ جاری رہے گی۔

سال 1987 میں قائم ہونے والی تنظیم حماس کے فیصلے عام طور پر اتفاق رائے سے کیے جاتے ہیں۔

سنوار کی ہلاکت کے بعد اس تنظیم کی رہنمائی قطر میں مقیم ان کے نائب حیا کو عارضی طور پر سونپ دی گئی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ جاری جنگ اور کمیونیکیشن کی مشکلات نے حماس کے جنگجوؤں سے ان کے روزانہ کے رابطوں کو محدود کر دیا ہے۔

اس صورت حال میں ماہرین کے مطابق مسلح گروپ قاسم بریگیڈ نے چارج سنبھال لیا ہے۔

ایک فلسطینی سیاسی کے تجزیہ کار اکرم عطا اللہ کا کہنا ہے کہ ان کو توقع ہے کہ مسلح گروپ دور ہوتے ہوئے بھی حیا کی حاکمیت کو تسلیم کرے گا۔

وہ توقع کرتے ہیں کہ محمد سنوار حماس تنظیم میں عمومی طور پر اور مسلح گروپ میں بھی ایک اہم رہنما کے طور پر ابھریں گے۔

محمد سنوار جو قاسم بریگیڈ کے تجربہ کار کمانڈر رہ چکے ہیں، شاز و نادر ہی منظر عام پر دکھائی دیتے ہیں۔ وہ اسرائیل کی انتہائی مطلوبہ افراد کی فہرست میں شامل ہیں اور حماس کے ذرائع کے مطابق کئی بار حملوں میں بچ چکے ہیں۔