زراب پاکستان کے لیئے ایک ڈراؤنا خواب
تحریر:نودان بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
گوریلا جنگیں ہمیشہ طاقتور اور مظلوم طبقہ کے درمیان لڑی جاتی ہیں جس میں طاقتور اپنی تمام تر قوتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے مظلوم حق پرستوں کو کچلنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہےتو دوسری جانب مظلوم حق کے علمبردار کسمپرسی کی حالت میں جوش و جذبہ اور امید سے لیس ہوکر اپنی قوتِ بازو سے ڈٹ کر باطل کامقابلہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے تاکہ باطل کا نام و نشان مٹاکر آ زادی کی فضا قائم کرسکے۔
بلوچستان میں قابض پاکستانی فوج کی قبضے کو تقریباً 77سال گزر چکے ہیں اس غلامی کا بیخ کنی کرنے کے لیئے بلوچ قوم شروع سے ہی بر سرِ پیکار ہے،ہزاروں بلوچ نوجوانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر اس جہدِ مسلسل کی آ بیاری کی ہے اور اسے تھمنے نہیں دیا ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ دشمن کی مکاری و ظلم و بر بریت میں انتہائی درجے تک اضافہ دیکھنے کو ملی ہے تو دوسری جانب بلوچ مسلح جنگ میں کئ نشیب و فراز آئے ہیں اور تغیر و تبدل بھی وقوع پذیر ہوا ہے،بلوچ جہد کاروں نے ہمہ وقت دشمن کو کاری ضرب لگانے کے لیئے منظم منصوبے بناتے ہوئے جنگ میں جدت و شدت کے عنصر کو نمایاں کیا ہے۔
ایک دور تھا کہ جب بلوچ سرمچار پہاڑوں میں روپوش ہوکر یہ انتظار کرتے کہ جب دشمن پہاڑوں کا رخ کرے تو اس سے نبرد آزما ہوسکے اور یہ سلسلہ کئ عرصے تک جاری رہا،جب بلوچ گوریلا جنگ منظم ہوا تو سرمچاروں نے شہروں کا رخ کیا اور مربوط شہری سیل قائم کیئے اور شہری گوریلا جنگ کی ابتدا ہوئی،اب بلوچ سرمچار وں نے دشمن کو ایسے ضرب لگائے کہ دشمن کے اوسان خطا ہوگئے،شہروں میں ٹارگٹ کلنگ اور دھماکے روز کا معمول بن گئے۔
بلوچ لبریشن آرمی پاکستان کی نیندیں اڑانے میں کامیابی سے ہمکنار ہوا کیونکہ بی ایل اے کی لیڈر شپ متوسط گھرانوں سے تعلق رکھنے والے مخلص ،قابل اور باشعور افراد کے ہاتھوں میں آ یا،تعلیم یافتہ نوجوان جوق در جوق تنظیم کے صفوں میں شامل ہوتے گئے،وہ نوجوان تحریک کا حصہ بنے جو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق علم و دانش اور ٹیکنالوجی سے خوب واقف ہوکر آ زادی کے متوالوں کے ساتھ ہوئے،دشمن کے حساس اداروں میں کام کرنے والے افراد غلامی کے ناسور سے آشنا س ہوئے اور آ زادی کی جنگ میں شامل ہوتے گئے،بلوچ طلبہ سیاسی افکار اور قربانی کے عظیم جزبے کے ساتھ میدان میں آ ئے۔
اس مثبت تبدیلی کو بلوچ لبریشن آ رمی نے ایک انتہائی خوبصورت اور کار آ مد طریقے سے استعمال کیا اور ان اہداف کو حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کی جن کا حصول بلوچ مسلح جنگ کی اہمیت و ضرورت تھی مثلاً تنظیم کو منظم کرکے دشمن کو وہاں ضرب لگانا جس کی وہ سوچ بھی نہ سکے،ہمہ وقت چاک وچوبند رہ کر مختلف طریقوں سے دشمن کو نفسیاتی دباؤ،معاشیاتی خسارے اور سیاسی عدم استحکام کی دہلیز پر لاکھڑا کرنا شامل تھے،ان مقاصد کی تکمیل انتہائی زبردست طریقے سے رواں دواں ہے اور اس میں بی ایل اے نے بہت بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔
بی ایل اے نے مختلف ایلیٹ یونٹس بنائے ہیں جن میں مجید برگیڈ،فتح اسکواڈ ایس ٹی او ایس اور انٹیلیجنس ونگ شامل ہیں جو تنظیم کی قوت،نظم و ضبط، کامیابی اور مقبولیت کا واضع ثبوت ہے، ان ایلیٹ یونٹس نے انگنت معرکوں میں دشمن کے پر خچے اڑا کر شکستِ فاش سے دو چار کیا ہے۔
اکیسویں صدی میں ایک ایٹمی طاقت دشمن سے محض جزبہ و حوصلہ سے نہیں لڑی جاسکتی بلکہ اس کے لیئے آ رٹیفیشل انٹیلیجنس،آ ئ ٹی اور جدید مہا رتوں سے لیس ہوکر جنگ میں کامیابی سمیٹی جا سکتی ہے،اس حوالے سے بی ایل اے نے تنظیم کے لیئے باقاعدہ طور پر انٹیلیجنس ونگ قائم کی جس میں اعلیٰ تعلیم یافتہ،پاکستان کے مختلف حساس اداروں سے منسلک،جغرا فیائ معلومات رکھنے والے، ڈیٹا اینلسٹس اور شاطر ذہنیت کے افراد شامل کی تاکہ راز داری سے دشمن کو تگنی کا ناچ نچا کر اپنی سرزمین سے نکالا جاسکے۔
انٹیلیجنس ونگ نے فتح اسکواڈ،مجید برگیڈ اور ایس ٹی او ایس کے ساتھ مل کر انتہائی اساس جگہوں پر انگنت کامیاب آ پریشن کیئے ہیں،دشمن کے ایسے راز اور معلومات حاصل کی ہے جن کے ذریعے سے ایسے کامیاب کارروائیاں سر انجام دیںئےگئے ہیں جن کی تکمیل کو جوئے شیر لانے کے مترادف سمجھا جاتا تھا۔
بی ایل اے نے انٹیلیجنس ونگ کی مدد سے فدائین حملوں کی شدت میں اضافے کے ساتھ ساتھ جدت کو بھی نمایاں کی ہے،چینی انجینئروں پر کراچی ائیر پورٹ کے باہر فداہی حملہ ایک انتہائی منظم منصوبے کے تحت کی گئی جس نے چین اور پاکستان کی،بلوچستان میں استحصالی ارادوں پر پانی پھیر دی،اس کامیاب حملے کے بعد بی ایل اے نے ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اپنی انٹیلیجنس کو زِراب کا نام دیتے ہوئے کہاکہ یہ کامیاب کاروائی زِراب کی مدد سے کی گئی ہے۔کراچی چینی انجینئرز پر حملہ اور بی ایل اے کی طرف سے زِراب کا باقاعدہ اعلان نے پاکستان کے لیئے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے کیونکہ جس تنظیم کو پاکستانی فوج،سیاست دان اور میڈیا محض کچھ بھٹکے ہوئے نوجوانوں کا ایک چھوٹا سا ٹولا ثابت کرنے کی کوشش میں مگنتھے استنظیم کی طرف سے یکے بعد دیگرے اساس اور خطرناک حملوں کا ہوناان لوگوں کی منہ پر طمانچہ اور بلوچستان کی آ زادی کی نوید ہے۔
زِراب نے بلوچ قوم میں یہ امید جگا دی ہے کہ کسمپرسی اور بے سرو سامانی میں بھی اپنی قوتِ بازو،پختہ ارادوں اور قومی جزبے سے دشمن کو ریت کی دیوار ثابت کی جا سکتی ہے،اب چین اور پاکستان دفاعی پوزیشن میں نظر آ رہے ہیں یہ دونوں قوتیں بلوچستان میں مزید استحصال نہیں کرسکتے، اس حالت میں بلوچستان سے خالی ہاتھ جانے کے علاوہ چین کے پاس اور کوئ راستہ نہیں ہےاور اس طرح کرنے سے ریڈ ڈریگن کی عزت کا جنازہ نکل سکتا ہے،اربوں ڈالرز کا سر مایہ کاری کرنے کی وجہ سے چینی معیشت زوال پذیر ہو سکتی ہے،سی پیک جس کی کامیابی سے چین گلوبل مارکیٹ کا بادشاہ بن سکتا ہے مکمل زوال کا شکار ہو سکتاہے۔
حالیہ دنوں گوادر ائیر پورٹ کا افتتاح گوادر کے بجائے اسلام آباد میں ہوئ جس سے اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بلوچ آ زادی کی تحریک اور شہداء بلوچستان کی عظیم قربانیوں نے قابض قوتوں کو شکستِ فاش سے دو چار کردیا ہے،اب چین اور پاکستان حواس باختہ ہے اور کوئ بھی قدم اٹھانے سے کترا رہے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اب بازی پلٹ چکی ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ : اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی ماننے والوں کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹ ورک متفقہ یا ان کے خیالات کے بارے میں پالیسیوں کا اظہار کرتے ہیں