بلوچ یکجہتی کمیٹی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ بلوچ نوجوانوں کی جبری گمشدگیاں زور پکڑ رہی ہیں۔ گزشتہ چند دنوں میں نصف درجن سے زائد بلوچ نوجوانوں کو فورسز، ایف سی اور سی ٹی ڈی نے جبری طور پر لاپتہ کیا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ شبیر احمد ولد امیر احمد، آفتاب احمد ولد نذیر احمد، راشد علی، جبکہ 29 ستمبر کو ساکران روڈ حب چوکی سے تین افراد جن میں جنید حمید ولد عبدالحمید سکنہ بھوانی ، یاسر حمید ولد عبدالحمید جنید اور یاسر دونوں بھائیوں کو جبری لاپتہ کیا گیا ہے ۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ جنید کو 8 اکتوبر کو حب سے اور یاسر کو 11 اکتوبر کو قلات سے اغوا کیا گیا تھا۔
یاد رہے کہ اس قبل یاسر کو 2022 میں جبری لاپتہ کیا گیا تھا۔
عمران ولد محمد اقبال ساکن امیر آباد حب کو حب چوکی، بھوانی شاہ پمپ سے 9 اکتوبر کو بلال امام ولد امام بخش، ساکن للین کیچ۔ 8 اکتوبر کو میزان بینک سے گرفتاری کے بعد لاپتہ کیا گیا۔ جو بینک میں بزنس ڈیولپمنٹ آفیسر ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ریاست اپنی سیکورٹی کی ناکامیوں کے بعد بلوچ نوجوانوں کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بناتی ہے۔ لاپتہ افراد کے اہل خانہ مسلسل اذیت میں ہیں اور خوف ہے کہ ان کے بیٹوں کو جعلی مقابلوں میں نشانہ بنایا جائے۔ بلوچ قوم کو ریاست کی ایسی انتقامی کارروائیوں کے خلاف ڈٹ جانا چاہیے اور جبری گمشدگیوں کی لعنت کے خاتمے کے لیے مزاحمت کرنی چاہیے۔