ریاستی تشدد اور جبری گمشدگیاں بلوچ نوجوان نسل کو خاموش کرانے اور ڈرانے کی دانستہ کوشش ہیں۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے بلوچ طلباء کی جبری گمشدگیوں میں ایک بار پھر شدت کے حوالے سے بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایک طرف جہاں پاکستان ایک بین الاقوامی کانفرنس کی میزبانی کررہا ہے اسی دؤران بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا ارتکاب ہورہا ہے۔
ماہ رنگ بلوچ نے کہا حالیہ دنوں میں کراچی اور لاہور جیسے شہروں کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے مختلف علاقوں سے درجنوں بلوچ طلباء اور نوجوانوں کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا ہے اور بلوچ طلباء خاص طور پر نہتے ہیں، کیونکہ ریاستی سیکورٹی فورسز انہیں بغیر کسی وارنٹ، ایف آئی آر، یا ثبوت کے بغیر کسی بھی وقت اور کسی بھی مقام سے اندھا دھند اغوا کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ گذشتہ شب 16 اکتوبر کی شام کراچی کے علاقے گلشن اقبال کے علاقے بشیر ولیج میں ایک اپارٹمنٹ میں مقیم متعدد بلوچ طلباء کو پاکستانی فورسز اور خفیہ اداروں نے حراست میں لیکر جبری لاپتہ کردیا ہے، جبکہ اس دوران مختلف علاقوں سے مزید بلوچ طلباء جبری گمشدگی کا نشانہ بنے ہیں۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی رہنماء نے عالمی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے ان واقعات کی فوری نوٹس لینے کی اپیل کی ہے۔
ماہ رنگ نے اس حوالے مزید کہا بلوچ طلباء کو منظم طریقے سے ریاستی تشدد اور جبری گمشدگی نشانہ بنانا بلوچ نوجوان نسل کو خاموش کرنے اور ڈرانے کی دانستہ کوشش ہے، یہ جبری گمشدگیاں نہ صرف بنیادی انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کی خلاف ورزی کرتی ہیں بلکہ لاپتہ ہونے والوں کے خاندانوں کو ریاست سے مایوسی اور غیر یقینی کی کیفیت میں دکھیل دیتی ہے۔
انہوں نے آخر میں کہا دنیا بلوچستان میں جاری ان ناانصافیوں کو نظر انداز کرنے کی متحمل نہیں ہوسکتی، لاپتہ طلباء کی فوری بازیابی بہت اہم ہے، اور ان جبری گمشدگیوں کے ذمہ دار ریاستی فورسز اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو مکمل طور پر جوابدہ ہونا چاہیے، بلوچستان میں خوف اور تشدد کے چکر کو توڑنے کے لیے انصاف اور شفافیت کا غلبہ ہونا چاہیے۔