خاموشی کو توڑنا – ٹی بی پی اداریہ

119

خاموشی کو توڑنا

ٹی بی پی اداریہ

جبری گمشدگیوں کے خاتمے کے لیے دس دنوں سے بلوچستان بھر کے مختلف چھوٹے بڑے شہروں میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے احتجاجی سلسلے “خاموشی کو توڑنا: جبری گمشدگیوں کیخلاف کھڑے ہونا” کے عنوان سے لوگ سراپا احتجاج ہیں۔ اس مہینے کثیر تعداد میں بلوچستان اور کراچی سے خصوصاً بلوچ طلباء کو فرنٹیر کور اور پولیس کے کاونٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ نے جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا ہے۔

دو ہزار چوبیس میں سب سے زیادہ لوگ اسی مہینے ( اکتوبر ) جبری گمشدہ کیئے گئے ہیں، جن کی تعداد چوراسی ہے۔ کراچی کے علاقے بشیر ولیج سے کراچی یونیورسٹی کے آٹھ طلباء اور ڈیرہ بگٹی و نوشکی کے اضلاع سے تیس سے زائد لوگ جبری گمشدہ کیئے گئے ہیں۔

بلوچستان میں جبری گمشدگیوں اور ریاستی جبر کے خلاف سرگرم سیاسی کارکنوں کو جدوجہد سے دستبردار کروانے کے لئے پاکستان حکومت کے ادارے نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی نے انسداد دہشتگردی ایکٹ کے تحت سینکڑوں بلوچ سیاسی کارکنان کے نام فورتھ شیڈول میں شامل کردیئے ہیں۔

پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کی جبری گمشدگیوں اور ریاستی جبر کے خلاف سرگرم بلوچ یکجہتی کمیٹی کے قائدین ماہ رنگ بلوچ اور صبغت اللہ شاہ جی کو انسداد دہشت گردی واچ لسٹ فورتھ شیڈول میں شامل کرنا حکومت کی غیر سنجیدگی کا اظہار ہے۔

بلوچستان میں پیپلز پارٹی کے متنازعہ حکومت کی پالیسیاں بلوچستان کے دگرگوں حالات کے مزید ابتری کا سبب بن رہے ہیں۔ متنازعہ حکومت کے غیر سنجیدہ اقدامات سے بلوچستان میں جبر کے خلاف سیاسی تحریک کو روکنا ممکن نہیں ہے اور خاموشی کو توڑنا: جبری گمشدگیوں کیخلاف کھڑے ہونا” کے عنوان سے ہزاروں کے تعداد میں لوگوں کے احتجاج سے واضح ہوتا ہے کہ مستقبل میں جبر کے خلاف تحریک اسی شدت سے جاری رہے گی۔