حمیدہ کے ساتھ کچھ یادیں ۔ بختاوربلوچ

275

حمیدہ کے ساتھ کچھ یادیں

 نبشتہ کار: بختاوربلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

میں کمرے سے باہر نکلی اور چھت پر چلی گئی۔ سوچنے لگی کہ نہ جانے حمیدہ کتنی بار اس چھت پر آئی ہوگی، کتنے مسائل کا حل یہاں بیٹھ کر سوچا ہوگا۔ ہوسٹل کی چھت تو وہی تھی، مگر اب بس حمیدہ کے خیالات اور اس کی کمی تھی۔ میں نے حمیدہ کو کبھی اس یونیورسٹی یا ہوسٹل میں نہیں دیکھا تھا، لیکن اس کی موجودگی مجھے ہر جگہ محسوس ہو رہی تھی۔ کبھی ایسا لگتا جیسے وہ ایڈمن کے پاس کسی طلباء کے مسئلہ ڈسکس کر رہی ہو، یا پھر مون کینٹین میں چائے کا لطف لے رہی ہو اور دوستوں کے ساتھ کسی نہ کسی قومی مسلہ پر ڈسکس کر رہی ہو ۔ اس کی موجودگی کا احساس چھت پر میرے ساتھ تھا۔

اچانک سے 27 جنوری کا وہ لمحہ میرے ذہن میں آیا جب جب ہم شال میں مقررہ مقام پر پہنچے تو سنگت حمیدہ ہمارے استقبال کے لیے وہیں موجود تھی، اس نے ہنستے ہوئے کہا تھا، “آپ کراچی والے ہر چیز میں دیر کرتے ہیں، کل کیوں نہیں آئے؟” میں نے جواب دیا تھا، “کل نہیں آ سکی، بس چلو دیر ہو رہی ہے۔” ہمیں اسٹڈیم جانا تھا، جو دور تھا اور اجلاس شروع ہونے والا تھا۔ رکشے میں شال کی سردی اور جام روڈ کے بارے میں باتیں کرتے ہوئے وقت گزر گیا۔ اجلاس کے بعد مجھے کراچی جانا تھا، مگر انہوں نے جانے کی اجازت نہیں دی۔ اس رات ہم نے بلوچ سیاست کے موضوع پر گھنٹوں بات کی، اور “میرا باغبان” کتاب پر بھی گفتگو کی۔ وہاں اور بھی دوست تھے، مگر سب کو حمیدہ کی گفتگو زیادہ پسند آئی۔

کامریڈ فاطمہ بھی وہاں موجود تھیں۔ انہوں نے حمیدہ سے سوال کیا کہ “سیاست میں سب سے اہم کیا ہے؟” حمیدہ نے جواب دیا کہ سیاست میں سب سے اہم یہ ہے کہ اپنی ذاتی زندگی چھوڑ کر اپنی قوم اور وطن کے لیے کام کیا جائے۔ وہ رات ہمیشہ میری یادوں میں زندہ رہے گی، ایک خوبصورت رات جس میں ہم نے آواران سے لے کر مشکے اور جُوہ تک کا سفر باتوں میں کیا۔ بلوچ سیاست اور ثقافت کے بارے میں حمیدہ نے ہمیں بہت کچھ بتایا۔

حمیدہ ایسی لڑکی تھی جو ہر وقت اور ہر حالت میں اپنی قوم کے ساتھ کھڑی رہتی تھی۔ اس نے اپنی قوم کی خدمت کے لیے بہت قربانیاں دیں۔ میں اس کی تصویر کو دیکھ رہی تھی، جس کے نیچے لکھا تھا

: “إنا لله وإنا إليه راجعون”۔

اس افسوسناک خبر کو دیکھنے کے بعد میں ایک لمحے کے لیے اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھی لیکن جلد ہی احساس ہوا کہ یہ قسمت میں ہے۔اللہ تمہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا کرے۔ آمین۔


دی بلوچستان پوسٹ : اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی ماننے والوں کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹ ورک متفقہ یا ان کے خیالات کے بارے میں پالیسیوں کا اظہار کرتے ہیں