جنگ، طے شدہ عقائد اور تقاضہ وقت – برزکوہی

877

جنگ، طے شدہ عقائد اور تقاضہ وقت

تحریر: برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

جنگ دنیا کی اُن المناک، لیکن فیصلہ کُن سچائیوں میں سے ایک ہے جو خیالات و تصورات کے آئینوں میں تغیر پذیر اور کینوسِ عمل میں قوی الاثر ہونے کی صلاحیت کی بدولت عضرِ حاضر میں متداول مباحث کو اپنے اندر سموئے ہوئے وجود رکھتی ہے۔ اس کوہِ گراں کو سر کرنے اور اس کے چیدہ چیدہ خصائص و کثیر الاجزاء کو سمجھنے کیلئے جامد نظریات، طے شدہ اور متعین کردہ عقائد کے گرد و غبار سے بھری دیدہ و دل کے بجائے عہدِ حاضر میں در خور اعتناء حقائق اور متقضیات کو دیدہ دلیری سے پرکھنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس موضوعِ سخن کو ایک منطقی انجام تک پہنچانا تاثراتی و داخلیت پسندی، فرسودگی و کہنگی کا دامن تھامنے سے نہیں بلکہ اس میں رہ کر، اسے جھیلنے اور اس کے مراحل سے گُزرنے کی بدولت ہی ممکن ہوتا ہے۔ اس سچائی سے جُڑے بے باک و جانباز جنگجو اپنے چشمِ دل میں موجود منزلِ مقصود کیلئے آغوشِ مرگ میں بھی سونے سے گُریز نہیں کرتے۔ اسی لئے، اس ناقابلِ تردید اور در خور اعتناء حقیقت کو اپنے قومی مقصدِ آزادی کی خاطر سمجھنے کیلئے عقائد اور حقائق کا متقضیات کے فریم ورک میں از سرِ نو جائزہ لینا ضروری ہے۔

بلوچ قومی تحریکِ آزادی جنگ کی نتیجہ خیز سچائی کو قبول کرتے ہوئے مختلف نشیب و فراز کے باوجود ایک حتمی و فیصلہ کن منزل کی جانب رختِ سفر باندھ چکی ہے۔ اس جنگ سے جُڑے اجزاء ترکیبی میں تغیر و تبدیلی اور جُزوِ اعظم کا ایک نئی مظہر(phenomena) میں بدلنے کو سمجھنے کیلئے ہمیں فرسودہ و کہنہ عقائد اور تاثرات کو پَرے رکھ کر حکمت و دانائی کے ساتھ علم و عمل کا دامن تھامنا ہے۔ بہ حیثیتِ ایک در خور اعتناء حقیقت، جنگ میں شعوری فیصلوں میں ایک نئی مظہر، خصوصاً فدائی حملوں اور قربانیوں کو تاثراتی و محدود ذہنی ترازو میں تولنے کے بجائے داخلی طور پر اُن کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ کیونکہ حقیقت اور متغیر مظہر کی نئی شکل ہمارے زاویۂ نظر سے پَرے وجود رکھتی ہے۔ علمِ فلسفہ کے حساب سے اسی نقطے کے متعلق خورشید جاوید اپنی کتاب، انقلابی سیاسی نظریات(جلد دوئم) میں اسٹالن کی مظہر کی تصور و تشریح کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ “ فطرت میں کوئی شئے سکون کی حالت میں نہیں بلکہ مسلسل حرکت میں ہے۔ اسی لئے کسی شئے میں تبدیلی اس کی موت نہیں بلکہ ایک نئی شکل میں ڈھلنے کا نام ہے۔ تضادات کے درمیان کشمکش، ترقی و تبدیلی کے اندرونی عمل کا نام ہے۔” اگر ہم جنگ میں تبدیلی اور ایک نئی شکل میں ڈھل جانے کے عمل کو اسی نقطے کے تناظر میں دیکھیں تو ہمیں غیر متغیر خیالات سے نکلنے میں دشواری کا سامنا کرنا نہیں پڑیگا۔ اسی طرح ہمیں اپنے ذہن میں موجود خیالات اور داخلی طور پر موجود حقیقت کے درمیان ربط کو بھی سمجھنا چاہیے کیونکہ بقولِ خورشید جاوید، “خیال انسانی ذہن کی پیداوار ہے اور انسانی دماغ مادے سے بنا ہے۔ اس لیے شعور ایک ثانوی استخراج(Derivative) ہے کیونکہ یہ مادے کا ہی عکس ہے۔ اس لئے حقیقت انسانی ذہن سے باہر خود اپنا وجود رکھتی ہے۔”

ہم قربان ہونے، جنگ کی المناکیوں اور حقائق کو مکمل طور پر قبول کرنے اور دشمن سے نئے طرزِ عمل کے ساتھ نبردآزما ہونے کے پیچھے شعوری بنیادوں کو ڈھونڈنے کی کوشش میں اکثر فرسودگی و اپنے اندرونی ذہنیت کی ناتوانی اور طے شدہ اقدار و معیار کو مدنظر رکھتے ہیں، جس سے نئے حقائق و متقضیات کو سمجھنا مشکل امر بن جاتا ہے۔ شعور، انفرادی شعور اور اجتماعی شعور کے متعلق مختلف مفکرین، سوشل سائیکولوجسٹ اور فلاسفروں نے اپنے نظریات اور تصورات پیش کیے ہیں جن کا باریک بینی سے مطالعہ کرنے سے ہمیں قومی تحریکوں میں جنگ کے نئے اشکال اور نقطۂ نظر کے نئے زاویوں کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔ مثلاً، ہنگری کے مشہور مارکسی فلاسفر György Lukács شعور و تبدیلی کو مارکسی فریم ورک میں بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ “شعور کسی چیز کا الگ سے علم نہیں، بلکہ شعور معروض کے اندر ہوتا ہے جو اس کو تبدیل کرتا ہے۔ مثلاً جب ایک مزدور طبقہ بطور طبقہ ہونے کا اپنا شعور حاصل کرتا ہے تو وہ تبدیل ہو جاتا ہے۔” اگر اس نقطے کو قومی فریم ورک میں دیکھیں تو اجتماعی و قومی شعور کی موجودگی ایک شخص کو کچھ بھی کرنے کی طاقت سے مستفید کرتا ہے۔ بنیادی نقطۂ آغاز فرد کی شعوری طور پر آمادگی سے ہوتا ہے جو بالآخر ایک اجتماعی مظہر بن جاتا ہے۔ بقولِ György Lukács, “ اگر اخلاقیات کے نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو کوئی بھی شخص اس بہانے کے ساتھ ذمہ داریوں سے راہِ فرار اختیار نہیں کر سکتا کہ وہ ایک فرد ہے، اور دنیا کی قسمت اُس پر انحصار نہیں کرتی۔ کیونکہ اخلاقیات کی Essence، ضمیر اور احساسِ ذمہ داری اس سوچ کیلئے ناممکن ہے۔ ممکنہ طور پر یہ عمل فرد پر ہی منحصر ہے۔” فرد میں موجود عدم اطمینان اور Confidence کسی بھی اجتماعی فیصلے کو عملی جامہ پہنانے میں خلل ڈالتی ہے۔ افراد کا حتمی فیصلہ ایک نئے رجحان اور نئی حکمت عملی کو بنیادی طور پر شکل دے کر اجتماع کے دہانے تک پہنچاتا ہے۔ اسی لیے گوئٹے کہتے ہیں کہ:

“It is here that lack of confidence has to be deal with and cowardice be buried.”

مزید برآں، بلوچ قومی تحریک میں اس موثر و فیصلہ کن تبدیلی کو سمجھنے کیلئے گوریلا جنگ کے سابقہ تھیوریٹیکل فریم ورک میں جھانکنے کے بجائے، لمحہ موجود میں فلسفیانیہ اپروچ سے استفادہ کرنا چاہیے۔ کیونکہ جنگ از خود ایک علم و فن ہے، جس کے متعلق آگاہ ہونے کیلئے ہمیں جنگ میں تغیر و تبدیلیوں اور نئے ضوابط کو فلسفے کے ترازو میں تولنا چاہیے۔ علمِ فلسفہ میں Epistemological موضوعات کو جاننے اور اُن کے متعلق باریک بینی سے آگاہ ہونے کیلئے مختلف Approaches کا انتخاب کیا جاتا ہے، جن میں سے ایک اپروچ Empiricism ہے۔ اس اپروچ کے مطابق، کسی بھی شئے کے متعلق علم و آگاہی سے مستفید ہونے کیلئے تھیوری کے بجائے تجربات و مشاہدات کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ اس اپروچ میں سینسز کا عمل دخل موجود ہوتا ہے، جس کی بدولت علم و آگاہی حاصل کیلئے عملی جائزات و تحقیق سے استفادہ کیا جاتا ہے۔ اگر ہم جنگ کو سمجھنے اور اس میں کسی بھی تبدیلی کو پرکھنے کیلئے لمحہ موجود میں تھیوریز کو ایک طرف رکھ کر ایمپیریکل اپروچ اور عملی مشاہدات سے رجوع کریں تو حقائق روزِ روشن کی طرح عیاں ہو سکتے ہیں۔ اگر قوم کے اندر اس حکمت عملی کے بعد ہونے والی تبدیلیوں کا مشاہدہ کیا جائے تو سمجھ میں آ جائے گا کہ قوم جنگ کو کس تناظر میں دیکھتی ہے اور اُس کیلئے کتنی حد تک جا سکتی ہے۔ کیونکہ یہ قوم ہی ہے جو کسی بھی جدوجہد کو ایک نئی سمت دینے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔

ہماری سوچ و اپروچ کا دار و مدار ہمارے چشمِ دل، فسوں نگاہی اور ندرت تخیل پہ منحصر ہوتا ہے۔ اندرونی طور پر ہم جتنا بونے قد کا مالک ہوتے ہیں، داخلی طور پر ہم تبدیلیوں اور نئے رجحانات و حقائق کو اسی دیدہِ دل سے دیکھتے ہیں۔ عقیدت کے تراشے ہوئے بُتوں کے سائے تَلے ہم متقضیات کے نئے طرزِ اعمال کو اپنے فرسودگی و کہنگی کیلئے خطرہ محسوس کرتے ہیں۔ ہم ماضی کی پروانیوں اور بے سود و غیر موثر حکمت عملیوں سے اس لیے نکلنے کیلئے خوف و ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں، کیونکہ اس سے نہ عقیدتوں کے بُت رہیں گے نا منظورِ نظروں کی پرستش۔ اسی سوچ و اپروچ کو فرنسیسی مصنف، مارکسی تنقید نگار و تھیورسٹ ریگس ڈیبرے نے اپنے کتاب Revolution in the Revolution میں افسانوی انداز میں کچھ یوں بیان کیا ہے کہ “ہم کبھی بھی اپنے عصرِ حاضر کے ساتھ مکمل طور پر ہم عصر نہیں ہوتے۔ تاریخ بھیس بدل کر آگے بڑھتی ہے اور اسٹیج پر پچھلے منظر کا ماسک پہن کر نمودار ہوتی ہے، اور ہم ڈرامے کے معنی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ہر بار جب پردہ اُٹھتا ہے، تسلسل کو دوبارہ قائم رکھنا پڑتا ہے۔ یقیناً الزام تاریخ پر نہیں بلکہ ہمارے وژن میں مضمر ہے جو ماضی میں سیکھی گئی یادداشتوں اور تصویروں سے بھری ہوئی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ماضی حال پر مسلط ہے، یہاں تک کہ جب حال ایک انقلاب ہو۔”

جنگ میں کوئی بھی حکمت عملی نہ حتمی ہوتی ہے، نہ ہی عالمگیر و آفاقی ہوتی ہے۔ وقت و حالات میں متقضیات چیزوں کو از سرِ نو تشکیل دینے اور دائرہ کاروں میں وسعت و طوالت کیلئے جہدکاروں کو شعور کی گہرائیوں سے منور کرتے ہیں۔ اس بنیادی نقطے کو سمجھنا اشد لازمی ہے کہ جنگ میں فیصلہ کن گھڑی تب آن پہنچتی ہے، جب ذہن میں عقیدت کے بُتوں اور مادی ضروریات کے بجائے مقصدیت کیلئے لچکداری و حتمی منزل کیلئے در خور اعتناء حکمت پہ توجہ مرکوز کی گئی ہو۔ جنگی حکمت عملیوں میں عالمگیریت، فطرت و واضح ہونے کا نقطہ نہ کبھی ایک مخصوص دائرے کے گرد گھومتا ہے، نہ ہی نسخۂ الہٰی بن جاتا ہے، بلکہ منزلِ مقصود تک اس میں ترتیب و ترمیم کا ایک غیر متزلزل سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ اسی نقطے کو ریگس ڈیبرے نے اپنی کتاب Revolution in the Revolution میں خوبصورتی سے بیان کیا ہے، کہ “ ہر براعظم و ملک میں انقلابی مسلح جدوجہد کو مخصوص حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ حالات نہ فطری ہیں، نہ ہی واضح۔ اسی لیے یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی بھی معاملے کے متعلق آگاہی دریافت و حاصل کرنے کیلئے برسوں کی قربانی لازمی ہوتی ہے۔”

دنیا میں مہلک ترین سوچ و اپروچ یہ کہنے اور ماننے میں ہے کہ ہم حکمت و دانش کے مالک ہیں۔ کیونکہ یہیں سے عمل کے وہ دروازے کُھلتے ہیں جو اجتماعی و قومی مفادات کیلئے نہ کارگر ثابت ہوتے ہیں، نہ ہی منزلِ مقصود کیلئے مشعلِ راہ بنتے ہیں۔ بلکہ ان سے تحریک فرسودہ و غیر موثر رجحانات و اپروچز کی آماجگاہ بن جاتی ہے۔ ہمارے اعمال ہماری سوچ و فکر کے آئینے ہیں، جب ہم Pride and prejudice کا شکار ہو کر کچھ بننے کے بجائے، کچھ کرنے کا تعین کرتے ہیں تو نتیجہ جز وقتی طور پر شاید تسکین کا ساماں مہیا کر پائے لیکن مستقل طور پر ہیچ ہوتا ہے۔ اسی دانشورانہ اپروچ کو ریگس ڈیبرے اپنی کتاب Revolution in the Revolution میں کچھ یوں واضح کرتے ہیں، “فیڈل(کاسترو) نے گوریلوں کی بعض ناکامیوں کا الزام خالصتاً دانشورانہ رویے پر لگایا۔ اس کی وجہ قابلِ فہم ہے کیونکہ دانشور ،اپنی جسمانی کمزوری اور دیہی زندگی کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ کی کمی کو چھوڑ کر پہلے سے تصور شدہ نظریاتی تعمیرات کے ذریعے جینے کی کوشش کرے گا۔ یوں سوچ کر کہ وہ پہلے سے علم رکھتا ہے، وہ آہستگی کے ساتھ سیکھے گا اور کم لچکداری کا مظاہرہ کرے گا۔”

اسی طرح، ایک وحشی و انسانیت سے عاری دشمن کا سامنا کرنے والے شعور سے لیس جنگجو اور جدوجہد میں سخت و پُرکھٹن مصائب سے گزرنے والے سپوت اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ جنگ میں منزل کے علاوہ کچھ بھی حتمی نہیں ہوتا، اور حکمت عملیوں میں تبدیلی اور حالات کے مطابق جدت و شدت کتنی اہمیت رکھتی ہیں۔ اُنہیں اس امر کا بخوبی اندازہ ہے کہ گوریلا جنگ سے وابسطہ تھیوریز کی اہمیت اپنی جگہ حق بجانب ہے لیکن وہ عقیدت مندی اور دانشمندی کے درمیان فرق کو سمجھنے سے قاصر نہیں ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ جنگ “ان سے زیادہ دشمن کے ہاتھوں میں ہے۔ وہ اس نقطے سے بخوبی آشنا ہیں جس کی تشریح ریگس ڈیبرے کچھ یوں کرتے ہیں کہ تاوقتیکہ حتمی نتیجے پر توجہ مرکوز ہو، یہ مسئلہ معنی نہیں رکھتی کہ تحریک وقتی طور پر کس سمت میں جا رہی ہے۔

پس، جنگ کو سمجھنے کیلئے ماضی کے فرسودہ روایات، تراشے ہوئے بتوں کے عقائد، جامد نظریات اور عمل سے عاری دانشورانہ نقطۂ نظر بجائے زاویہِ نظر کو ایمپریکل بنیادوں پر مرکوز کرکے سمجھنا چاہیے۔ ماضی کو حال پر تسلط جمانے سے روکنے کیلئے تحقیق و تخلیق کا راستہ اپنانے کے ساتھ ساتھ عمل کو گہرائیوں سے قبول کرنا چاہیے۔ آج لمحۂ موجود میں متقضیات کے فریم ورک میں کچھ کرنے اور بننے کے درمیان فرق و اہمیت کو سمجھنا لازم و ملزوم امر بن چکا ہے۔ لیکن تاوقتیکہ ہم اپنا نقطہ نظر تبدیل نہیں کرتے، اُس وقت تک ہم حقیقت کو Genuine بنیادوں پر سمجھنے سے قاصر رہ کر تحریک کو کسی چوراہے پر بھٹکنے کیلئے چھوڑ دینگے۔ کیونکہ بقولِ یونانی مصنف، شاعر و فلسفی Nikos Kazantzakis:

“We cannot change reality, let us change the eyes which see reality


دی بلوچستان پوسٹ : اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی ماننے والوں کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹ ورک متفقہ یا ان کے خیالات کے بارے میں پالیسیوں کا اظہار کرتے ہیں