بے رحم تاریخ کا وار
تحریر: اختر ندیم
دی بلوچستان پوسٹ
سردار اختر مینگل سے بڑا احترام کا یکطرفہ رشتہ ہے۔ یکطرفہ اس لیے کہ جب میں2005 کو ڈاکٹر اللہ نذر اور ساتھیوں کے ساتھ کراچی سے گرفتار ہوا تو ایک دوست جو اب سابقہ ہوچکا ہے کا کہنا تھا کہ جب اختر جان پنجگور کے دورے پر تھے تو ہم نے استفسار کیا کہ ’’ باقی کا خیر ہے لیکن اختر ندیم کا تعلق آپ کی پارٹی سے رہا ہے ریاست نے اغوا کرکے غائب کردیا ہے لہذا اس کے لیے تو آپ آواز اٹھائیں۔‘‘
اس پر سرادار صاحب نے کہا کہ ’’ میں اس بندے سے آشنا نہیں ہوں مجھے پتا نہیں کون ہے۔ ‘‘ جب میں نے یہ سنا تو بس مسکرایا کیونکہ اس پر کوئی جواب بنتا ہی نہیں تھا۔ آج جب میں نے میڈیا کے ذریعے سردار صاحب کو پاکستان کے سینٹ کے لابیز اور لاجز میں لاچار اور بے بس دیکھا تو تکلیف بہت ہوئی اور 22سال پہلے کی دھندلی سی یادیں سرکنے لگیں۔
بی ایس او آزاد بن چکی تھی میں اور ڈاکٹر صاحب خضدار زون کے دورے پر تھے۔ 8 جون کو انجینئرنگ یونیورسٹی کے دوستو ں سے نشست کے بعد ڈاکٹر صاحب کو واپس کوئٹہ جانا تھا اور مجھے مشکے۔ ڈاکٹرصاحب کو منی بس میں بٹھا کر الوداع کیا اور خود سواری کی تلاش شروع کی جب مصیبت سے ایک سواری ملی تو میں نے چھوٹے ماموں کو فون کیا کہ مجھے سواری مل گئی ہے میں آرہا ہوں آپ مجھ سے پہلے گاؤں کے لیے نہیں نکلنا کیونکہ پھر میرے لیے سواری کا مسئلہ ہوگا۔مامو جان گبھرایا ہوا تھا اور کہا کہ ’’ آپ کو کچھ پتا ہے؟ میں نے کہا کہ ’’ کیا ؟ ‘‘ ، انھوں نے کہا کہ ’’ اسلم جان گچکی کو شہید کیا گیا ہے۔‘‘ میں نے پوچھا ’’ کیسے ؟ ‘‘ انھوں نے کہا ’’ پتا نہیں آج شیرگی کے مقام پر مسلح افراد نے حملہ کیا ہے۔‘‘
اس وقت تک بی این پی کے دوست بے خبر تھے قریب ہی دفتر میں سیشن کی تیاری چل رہی تھی۔سارا بازار بی این پی کے جھنڈون سے سجا یا گیا تھا۔ دفتر کے سامنے بڑے بڑے اسپیکروں نے پورے شہر کو سر پہ اٹھا رکھا تھا۔انقلابی گانے چل رہے تھے۔میں دفتر گیا اور واجہ عطا اللہ محمدزئی جو سینئر اور بزرگ شخصیت تھے کو باہر بلایا اور ان کو آگاہ کیا کہ اسلم جان گچکی ایک حملے میں شہید ہوچکے ہیں لہذا اب دوست گانا بجانا نہ کریں، خاموشی طاری ہوگئی اور مین سفر کے لیے نکلا۔ پوری رات ہم محو سفر تھے اور ہر سیکنڈ پہ اسلم جان گچکی کی پدرانہ شفقت اور سیاسی اسباق ذہن میں گردش کرتے رہے۔ صبح کو گجر شہر کو پہنچے ایک دوست ملا اس کے ساتھ سیدھا پروار چلا گیا،جہاں اسلم جان کا گھرتھا۔اسلم جان کا وہ بھیٹک جہاں ہر وقت لوگوں کا جمگھٹا رہتا تھا، سیاسی دوستو ں کے سرکل کے ساتھ ساتھ سماجی مسائل کے دربار لگتے تھے سوگوار تھا۔کمبر جان سے سلام دعا ہوئی اور عرض کیا کہ آخری دیدار کروا دیں ، کمبر جان ہمیں گھر لے گئے ہم نے دیدار کیا اور واپس بیھٹک آگئے۔آنسو ہی تھے کہ نہیں رک رہے تھے کیونکہ ایک سیاسی استاد ہمیں چھوڑ چکا تھے۔
بی این پی کا کونسل سیشن غیر معینہ مدت کے لیے معطل ہوچکا تھا۔مجھے محترم استاد پروفیسر صدیق صاحب کے ذریعے معلوم ہوا کہ اسلم جان گچکی نے میرا نام کونسل سیشن کے لیے تجویز کیا تھا اور دوستوں نے اعتماد کا اظہار کیا تھا ۔لہذا آپ پارٹی کے مرکزی کونسلر ہیں میں حیران ہوا کہ میں نے تو کچھ وقت پہلے اپنے فیصلے سے واجہ اسلم گچکی کو آگاہ کیا تھا کہ ہم اب پارلیمانی سیاست سے تنگ آچکے ہیں اور ڈاکٹر اللہ نذر کی قیادت میں غیرپارلیمانی سیاست کا حصہ ہیں۔ اس پر اسلم جان نے ہمارے فیصلے کو سراہا اور کہا کہ راستہ یہی ہے باقی سب وقت کا زیاں اور خود سے دھوکا کے علاوہ کچھ نہیں ہے لیکن حالات کا ادراک اور وقت کا صحیح تعین ضروری ہے۔
میں نے جب اس بات سے ڈاکٹر صاحب کو آگاہ کیا تو ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ شہید کا فیصلہ اور جذبات نیک تھے۔ بی این پی بلوچوں کی توانا پارٹی ہے آپ جائیں اور اپنا موقف رکھیں شاید کچھ لوگ ہمار ے نکتہ نظر کی تائید کریں ۔کونسل سیشن شروع ہوگیا۔ سیشن کے تمام دورانیہ میں ہمارا موقف چھا گیا کونسلرز کی اکثریت غیرپارلیمانی سیاست کے حق میں آچکی تھی۔ اللہ واجہ مولاداد کو غریق رحمت کرئے وہ ایک موقع پہ اختر جان سے مخاطب ہوئے اور کہا کہ جو بھی پارلیمنٹ گیا وہ پنجابی اور اس کا ———
اس دوران کچھ بلدیاتی اور صوبایی اسمبلیوں کے متوقع امیدواروں کی طرف سے ہمیں تضحیک کا بھی سامنا کرنا پڑا لیکن ان میں سے آفرین ہو واجہ جہانزیب کو جنھوں نے بعد میں معذرت کی ۔کونسل سیشن میں اگلے صفوں میں چند سرکاری صحافیوں کی موجودگی بھی حیران کن تھی ۔اگر مشرف اسٹیبلشمنٹ کو صاف امیج دکھانے کے لیے اس سیشن کا ویڈیو رکارڈز ایڈٹ نہیں کیے گئے ہیں اور اپنے حقیقی شکل میں موجود ہیں تو سب کچھ عیاں ہے کہ ہمارے موقف کو تضحیکی انداز میں کاونٹر کرنے والو ں کی آج کتنی عزت افزائی ہورہی ہے ۔اس کے علاوہ کچھ شریف لوگ جو شفیقی فرعونیت سے بچ گئے ہوں ( کیونکہ بی این ایم بی ایس او آزاد سے زیادہ جھالاوان میں میرے خیال میں بی این پی کو قیمتی دوستون کی قربانی دینی پڑی ) ضرور میری ان دھندلی سی یادوں کی تصدیق کرکے بہتر بیان کرسکتے ہیں۔
کونسل سیشن کا ایک واقعہ جو ہمیشہ میرےذہن میں پیوست ہے؛ سوال جواب کے سیشن میں جو بھی سوال پارٹی صدر سے کیے جاتے تو اختر جان کی بجائے میرے سابقہ لیڈر اور ریڈیو اسٹیشن پاکستان کے کولیگ ، میں اور وہ بالترتیب 135 اور75روپے روز کے حساب سے واجہ اسماعیل آذاد جو اس وقت پروڈیوسر تھے کے دیہاڈی دار تھے ۔بعد میں ایم این اے بنے، سنا ہے آج کل غریق زرو مال ہیں ، ادیب اور شاعر ہونے کی وجہ سے کونسلرز کے سوالات کو بڑی چرب زبانی سے جواب دیتے۔اس پر میں نے احتجاج کیا کہ ’’ سوال اختر جان سے ہورہے ہیں ہے تو جواب بھی اختر جان بہتر دے سکتے ہیں ۔‘‘ لہذا ہمارے احتجاج پر محترم بھڑک گئے اور مائیک اختر جان کو دیا ۔ہم نے مہدبانہ عرض کیا کہ ’’اختر جان آپ جمہوری سیاست کرتے ہیں اور جمہوری اقدار سے واقف ہیں۔سنا ہے آپ کی ایک میجر سے تھوڑی ان بن ہوئی اور آپ نےاسے تھپڑ دے مارا اور پہاڑوں پہ چلے گئے اور پھر واپس آگئے کسی کو کانوں کاں خبر نہیں ہوئی اور آج پھر آپ یہاں ہیں۔‘‘
میرے سوال کے جواب میں اختر جان حسب عادت حس مزاح پر اتر آئے اور کہا کہ ’’ پہاڑ ہمارے اجداد کے مسکن ہیں۔ جب میں گیا تو آپ ایک تھیلا آٹا نہیں لائے لیکن اگلی بار میں گیا تو ایک کلی(چھوٹی مشکیزہ) پانی ضرور لانا۔‘‘جس پر کونسل ہال تالیوں سے گونج اٹھا اور طنزیہ قہقہے بھی لگے __ جواب در جواب کی تفصیل کے لیے شفیقی فرعونیت سے بچے اس وقت کے دوستوں سے رجوع ہو۔
غیر پارلیمانی سیاست کے سوال پر اخترجان کا جواب یہی تھا کہ ’’ آپ سے زیادہ کم ازکم میں اور آغا موسی جان اور ہمارے والد گرامی اچھی طرح واقف ہیں لہذا ہمیں اس طرح کا پاٹ نہ پڑھائے جائیں ۔‘‘ اس پر احتجاج بہت ہو ا لیکن واجہ ایوب گچکی نے ساری کھایا پلٹ دی کہ ’’ اس طر ح آپ لوگ پارٹی کو پارلیمانی اور غیرپارلیمانی نظریہ کی بنیاد پر تقسیم کے دہانے پہ لے جا چکے ہیں لہذا اس مسئلہ کو آنے والی سنٹرل کمیٹی کو اختیار دیا جائے کیونکہ آنے والی سنٹرل کمیٹی انہی کونسلر دوستو ں کے اعتماد سے بنے گی اور اس پر دوستو ں کے جزبات اور خیالات کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کرئے گی۔ ‘‘‘خیر جمہوریت پھر گئی تیل لینے اور وہی ہوا جو بڑے چاھتے تھے ۔لیکن آج پاکستانی ریاست نے اختر مینگل اور ساتھیوں کے ساتھ جو رویہ رکھا ہے حسب توقع ہے جو لوگ پارلیمنٹ میں ان لوگوں کے بقول ان کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے گئے اپنے حقوق کھو بیٹھے۔
اختر جان سے کسی صحافی نے سوال کیا کہ آپ یہاں کیا کرہے ہیں تو کہا کہ ’’ مرے دو سینیٹر گم ہیں ان کو ڈھونڈ رہا ہوں۔‘‘
ہمارے یہاں ایک مولوی صاحب تھے اللہ اسے غریق رحمت کرئے ایک دفعہ ایک قصہ سنایا کہ ایک فقیر ایک بادشاہ کے دربار میں گیا اور طلب کیا کہ ’’ باد شاہ سلامت کچھ دیں ۔‘‘ باد شاہ نے طیش بھرے انداز مین فقیر کو کہا کہ ’’ ہٹو! میری نظروں سے کچھ نہیں ملے گا۔ ‘‘ ضدی فقیر نے کہا کہ ’’ میں آپ کے در سے خالی ہاتھ نہیں جاؤں گا۔کچھ تو ضرور آپ کو دینا پڑے گا۔‘‘ اس پر بادشاہ اور غصہ ہوا، حکم دیا کہ اس فقیر کی قمیض اتار کر اسے تپتی دھوپ میں کھڑا کیا جائے، ایسا ہی کیا گیا ۔کچھ دیر بعد فقیرنے کہا ’’ بادشاہ سلامت بادشاہ سلامت ‘‘ بادشاہ نے غصے بھری آواز میں خوفناک نظریں فقیر کی طرف پھیر دیں اور کہا ’’ کیوں اب کیا چاہتے ہو ؟ ، اب تنگ کیا تو تمہاری شلوار نکالوا دو ں گا۔‘‘ توفقیر نے کہا ’’ نہیں جناب والا قمیض واپس کردیجیے کچھ نہی چاہیے اب۔‘‘
دی بلوچستان پوسٹ : اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی ماننے والوں کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹ ورک متفقہ یا ان کے خیالات کے بارے میں پالیسیوں کا اظہار کرتے ہیں