بی این پی کے منحرف سینیٹرز ۔ سُہیل احمد

29

بی این پی کے منحرف سینیٹرز

تحریر: سُہیل احمد
دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان نیشنل پارٹی کے منحرف یا مستعفی یا معزول یا مفرور سینٹر قاسم رونجھو نے آج اسلام آباد میں ایک دو گھنٹوں کے وقفے سے دو پریس کانفرنسز کیے، پہلے پریس کانفرنس جس میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل ان کے سیدھے ہاتھ پر کھڑے جب کہ پارٹی کے نائب صدر ساجد ترین ایڈووکیٹ ان کے پشت پر کھڑے ہیں اور خود رونجھو اپنے قدموں پر ایستادہ کہہ رہے ہیں کہ زورآور لوگوں نے مجھے چھ سات دن مہمان بنایا، گردوں کا مریض ہوں ڈاہلیسز پر ہوں مچھروں کے کاٹنے سے ملیریا بھی ہو گیا.

دوسرے پریس کانفرنس میں یا چھوٹی سی ویڈیو کلپ میں وہ کہہ رہے ہیں سردار اختر جان مینگل نے مجھے زبردستی پریس کانفرنس کروایا اور جو میں نے کہا کہ مجھے مہمان بنایا گیا اور بیماری کی حالت میں مچھروں کے لیے چھوڑ دیا گیا وہ سب اختر مینگل اور ان کے ایم پی ایز نے زبردستی کہلوایا میں اپنے گھر پر ہی تھا.

رونجھو کو دوسری دفعہ پریس کانفرنس کروانے والے شاید جان بوجھ کر لوگوں سے زبردستی بیانات دلواتے وقت ان میں جھول رکھتے ہیں تاکہ سننے والے ان کی طاقت کا اندازہ کر سکیں اور صاف صاف سمجھ سکیں کہ ہاں یہ زبردستی کی پریس کانفرنس ہے جو ہم نے کروائی جو اکھاڑنا ہے اکھاڑ لو. بقول معروف وکیل عاصمہ جہانگیر یہ ڈفرز ہیں یا تو طاقت نمایاں کرنے کے لیے ایسے حرکتیں کرتے ہیں یا حقیقتاً ڈفرز ہیں. ووٹ ان کو مل چکی ترامیم والا کام بھی جیسے تیسے اغواء دھونس دھمکیوں کے ذریعے ہوچکا جمہوریت کی پہلے لچکتی کمر کی ایک جھلک ہی ننگی نظر آتی تھی لیکن اب تو سرتاپا ننگی ہے بلکہ جی ایچ کیو کے سُروں پہ ناچتی تھرکتی نظر آتی ہے پردہ رکھنے کا تردد کوئی کیوں کرے.

رونجھو کو اگر بلوچستان میں بی این پی پریس کانفرنس کرواتی تو سمجھ آ جاتا کہ زبردستی ہو رہی ہے لیکن سینٹ میں پریس کانفرنس ہورہی ہے اور یہ تھوڑی ہی بُرمہ ہوٹل ہے کہ احمد نواز اور باسط نے ڈرایا دھمکایا اور تم ڈر بھی گئے صاف ظاہر ہے ڈرانے دھمکانے والے پریس کانفرنس میں اپنے پاؤں پر کھڑے ہو اور اپنی مرضی والے پریس کانفرنس میں کرسی پر بیٹھے ہوئے فرق تو ہے مرضی اور زبردستی کے قبولیت کے ہاں میں . اگر تمھیں چھ دن مہمان رکھنے والے اب تمھیں سیکورٹی بھی نہیں دے سکتے تو لعنت ہے ایسے میزبان پر، ووٹ کے بدلے کچھ تو وعدے وعید بھی ہوں گے حفاظت کے تحفوں کے مراعات کچھ تو جھولی میں گرا ہوگا کہ ووٹ بکسے میں جا گرا.

زورآوروں کا نام لینے والے پریس کانفرنس کرنے کے بعد تبصرے ہورہے تھے کہ ووٹ بھی ڈھل چکا ترامیم بھی ہوچکیں اب پریس کانفرنس کا کیا فائدہ، بعض نے تو یہاں تک کہا کہ اختر مینگل اس سارے کھیل کا حصہ ہیں اور انھی کے کہنے پر یہ سب کیا جارہا ہے لیکن دوسرا پریس کانفرنس کر کے قاسم رونجھو نے اختر مینگل کو کم از کم اس ترمیم والے معاملے سے بری کردیا. اس میں ان کا ہاتھ نہیں. ایک ذریعے کے مطابق جب سینٹ اجلاس میں نسیمہ احسان نے گلوگیر انداز میں کہا کہ پارٹی سربراہ سے بات کریں اور بیٹھ گئیں اس کا مطلب پارٹی سربراہ کو یہ بات پہنچانا تھا کہ آپ تو باہر بیٹھے ہیں اور سارے دباؤ کا سامنا ہمیں کرنا پڑ رہا ہے بلکہ دروغ بر گردن راوی اسی طرح یہ الفاظ ان دو سینیٹرز کی جانب سے اختر مینگل تک پہنچائے گئے اور وہ دبئی سے اسلام آباد پہنچے۔ پارٹی کے دیگر عہدیداروں کو پہنچنے کی ہدایت کردی، سینٹ کے اجلاس کے دوران خود گیلری میں جابیٹھے لیکن اسطرح سینٹرز کو پارٹی ڈسپلن کا پابند بنایا جانا ممکن نہیں رہ جاتا. بات طوالت پکڑے گی اگر بی این پی کو یاد دلایا جاہے کہ اگر سینٹ میں بھیجتے وقت ان سینٹرز کو جانچتے ہوتے تو اسطرح کی صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑتا جب کوئی کاروباری شخص کسی بھی طرح کے عہدے پر بیٹھے گا تو ہر ایک اپنے عمل کو ترازو میں تولنے کی عادت برقرار رکھے گا اور نفع بخش حصے کی طرف جھکنے کی فطری علت کو اپنانے میں نہیں ہچکچائے گا.

بی این پی نے اپنے گورنر ملک ولی کاکڑ کو بھی تاکید کی تھی کہ وہ اسلام آباد جاکر مسنگ پرسنز کیمپ میں بیٹھے اور وہیں سے اپنا استعفیٰ دیدے لیکن کاکڑ کو بھی نہ ایسی سیاسی عزت راس آنی تھی اور نہ بی این پی کو یہ فاہدہ پہنچنا تھا حالانکہ سیاست کے ادنیٰ سے طالب علم کو پتہ تھا کہ یہ گورنری مزید ویسے بھی نہیں چلنے والی ،مرکز میں حکومت کرنے والے لوگ اپنے کسی بندے کو ہی اس نشست پر براجمان ہوتا دیکھنا چاہیں گے. ملک ولی کی گورنری نہیں رہی لیکن اگر اس وقت پارٹی کے کہنے پر استعفیٰ دیدیتے تو ملک ولی کے مرحوم والد عبدالعلی کاکڑ کے روح کو سکون مل جاتا.

کہنے کا مقصد یہ کہ پارٹی ڈسپلن قاہم رکھنے کے لیے اگر کاکڑ کی حکم عدولی پر ایکشن لیا جاتا تو آج سینٹرز بھی شاید، شاید حکم مان لیتے. حالانکہ پارٹی والے قاسم رونجھو کو فیس سیونگ دینا چاہ رہے تھے لیکن رونجھو نے اپنے بیماری و ڈاہیلسز والے آخری ایام ساکران والے فارم ہاؤس میں گزارنے کے بجاہے اسلام آباد کے پمز ہاسپٹل میں گزارنا بہتر سمجھا.


دی بلوچستان پوسٹ : اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی ماننے والوں کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹ ورک متفقہ یا ان کے خیالات کے بارے میں پالیسیوں کا اظہار کرتے ہیں