بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کی میڈیا ونگ ہکل نے کراچی حملے کے فدائین کی ویڈیو پیغامات جاری کردیئے۔
ویڈیو کے پہلے حصے میں بی ایل اے مجید برگیڈ کے فدائین کو فوجی مشقیں کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے، مجید برگیڈ کی یونیفارم میں ملبوس جدید اسلحہ سے ‘فدائین’ مختلف مشقوں کیساتھ آر پی جی و دیگر اسلحہ کی ٹریننگ کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے جبکہ گوادر، کراچی و دیگر مقامات پر کاروائیاں سرانجام دینے والے مجید برگیڈ کے ارکان کو بھی دکھایا گیا ہے۔
ویڈیو میں تین فدائی حملہ آوروں کو براہوئی، بلوچی اور انگلش زبانوں میں آخری ویڈیو پیغامات دیتے ہوئے سنا جاسکتا ہے۔
ویڈیو میں پیغام دیتے ہوئے براہوی زبان میں فدائی شاہ فہد، بلوچ قوم کے نام کے نام پیغام دیتے ہوئے کہتا ہے اس خاک کی محبت، مادر وطن کی پکار، بلوچ قومی بقاء کی جنگ، بلوچ قومی شعور نے مجھے آج اس مقام پر پہنچایا ہے کہ پاکستان و چین سے نجات کیلئے فدائی حملے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں بچا ہے۔ میرا ضمیر، میری فکر، میری سوچ، میری غیرت مجھے بار بار جاگنے کیلئے پکار رہے ہیں، مجھے ہکّل دے رہے ہیں کہ دشمن اپنی پوری طاقت کیساتھ حملہ آور ہے تو دشمن کو پوری طاقت سے جواب دیا جائے۔ میرے قوم کے نوجوانوں، آج ہمارے نوجوان، ہماری بہنیں اس راہ میں قربان ہورہے ہیں تو پھر ہم کسے دیکھ رہے ہیں، کس کا انتظار کررہے ہیں کب تک ہم اس ظلم و جبر، ان ماں بہنوں کی چیخوں کو سنیں گے اور اپنی آنکھیں نیچے رکھیں گے بزدلی کی زندگی میں بھی تو موت آنی ہے تو پھر کیوں نہ ہم بہادری، شعور، فکر کیساتھ اپنے دشمن کو ایسی کاری ضرب لگائیں کہ کوئی آئندہ بلوچ اور بلوچستان پر قبضہ کرنا دور کی بات ہے، اس بارے سوچے بھی نہیں۔ یہ جنگ ہمارے مستقبل کی جنگ ہے، ہم سے پہلے، دوسرے فدائی ساتھی مسکراتے ہوئے قربان ہوئے ہیں وہ بھی اسی امید کیساتھ گئے کہ آنے والے نوجوان انکے بندوقوں کو گرنے نہیں دیں گے۔
شاہ فہد کہتا ہے کہ اسی امید کیساتھ میں نے یہ فیصلہ لیا ہے کہ کل میں اپنے وطن کیلئے، مستقبل کیلئے قربان ہوجاؤنگا تو بلوچ نوجوان اس بندوق کو گرنے نہیں دیں گے، وہ اس کو اٹھائیں گے یہ جنگ ہمارے آزاد مستقبل، ہماری بقاء کی جنگ ہے، یہ دنیا میں ہماری پہچان کی جنگ ہے۔ آج اگر ہم اس جنگ کا حصہ نہیں بنیں گے، اس جنگ سے خود کو پیچھے روکے رکھا، تو کل دنیا کے نقشے پر ہمارا نام و نشان نہیں ہوگا۔ اس جنگ کا مقصد یہی ہے کہ ہماری پہچان زندہ رہے میں خود قربان ہوجاؤنگا لیکن میری قربانی کا یہ مطلب نہیں میرے اکیلے کی قربانی سے آزادی ملے گی لیکن میری قربانی سے ہمارا دشمن کمزور ہوگا، ہماری مزاحمت مضبوط ہوگی۔
شاہ فہد کہتا ہے کہ اس فدائی حملے کا مقصد یہی ہے کہ ہم اپنی لڑائی میں مضبوطی لائیں اور اس میں دشمن کمزور ہوجائےہمیں دشمن کو کمزور کرنا ہے،نفسیاتی کرنا ہے، ہمیں دشمن کو پاگل کردینا ہے یہ ایک طویل جنگ ہے، اس میں ہزاروں جانیں جائیں گی، ہزاروں فدائین ہوں گے پھر ہمیں آزادی مل سکے گی اس جنگ میں مستقل مزاجی کی ضرورت ہے، سب سے زیادہ ہمیں مستقل مزاجی کی ضرورت ہے جو اس جنگ کو آگے بڑھائے گی آج میں ہوں کل میری جگہ کوئی اور ہوگا تو یہ جنگ اپنے اصل مقصد کو پہنچ پائے گا اور جو جنگ جاری ہے؛ اس میں ہمیں سوچنا ہے، اپنی قوم کو دیکھنا ہے، ہمارے لوگوں کی دربدری، ہماری بہنیں جو سڑکوں پر دربدر ہیں، جو تین تین مہینے اپنے جبری لاپتہ بھائیوں کیلئے دھرنا دیتے ہیں؛ کسی کا والد، کسی کا بھائی اور کسی کا بیٹا لاپتہ ہے۔ تو اگر ہم یہاں اپنی ذات تک محدود رہیں گے تو ایک بہت بڑی ناانصافی ہوگی، یہ ناانصافی ہمیں نہیں کرنا ہے۔ ہمیں اپنی ذات سے نکال کر سوچنا ہے کہ کیا ہورہا ہے، اس ریاست کے سامنے ہماری کیا حیثیت ہے، ہمیں اپنے دشمن کو سمجھنا ہے۔ جب ہم اپنے ذات سے نکلتے ہیں، ذاتی زندگی کی جو پٹی ہماری آنکھوں پر بندھی ہے جب ہم اس کو نکالیں گے تو سب چیزیں ہمارے سامنے ظاہر ہوں گےکہ کیا ہورہا ہے اور ہم کیا کررہے ہیں ہمیں قربان ہونا ہے۔
شاہ فہد کہتا ہے کہ میرا یہی پیغام ہے بلوچ قوم کیلئے، نوجوانوں کیلئے، بہنوں کیلئے کہ وہ آکر اس جنگ میں اپنا حصہ ڈالیں اس جنگ میں تیزی لائیں، شدت لائیں جتنے زیادہ ساتھی اس میں شامل ہوں تو یہ جنگ اتنی ہی تیز ہوگی، اتنی ہی ہم اپنے دشمن کو پاگل کردیں گے، اس کو ہم نفسیاتی مریض بنا پائیں گےجتنی بڑی تعداد میں ہم حصہ لیں گے، اتنی ہی ہم اپنے مقصد کے قریب ہوں گے۔
ویڈیو میں ایک اور فدائی سہیل بلوچ کہتا ہےکہ گذشہ 75 سالوں سے ہم پاکستان کے غلامی کے سائے تلے زندہ ہیں، ان 75 سالوں میں بلوچ قوم پر وہ کونسا ظلم و تشدد ہے، جو پاکستان نے ہم پر نہیں آزمایا ہے انہی مظالم کے باعث ہم پہاڑوں کو اپنا مسکن بناکر اپنے بھائیوں کے ہمراہ بنے۔ ہم نہ دن دیکھتے ہیم نا رات، نہ مسافتیں، مشقت تکالیف، یہ سب ہم اپنی بلوچ قوم و سرزمین کیلئے سہتے ہیں۔ اسی سرزمین کی آزادی کیلئے جو قدم ہمیں اٹھانا تھا ہم نے اٹھایا اور اسی سرزمین کیلئے ہم سے پہلے ساتھیوں نے مجید برگیڈ میں شمولیت کی، انہوں نے قربانی دی، اپنا لہو سرزمین و بلوچ قوم کیلئے بہایا آج ان کے نقش قدم پر ہم نے ان کی بندوق کو تھاما ہے۔
سہیل بلوچ کہتا ہے کہ اسی طرح مجید برگیڈ کا کاروان محو سفر رہا، ہم بھی اس کا حصہ بن گئے، ہم اس مقام پر پہنچے ہیں اپنی سرزمین و بلوچ قوم کیلئےاسی سرزمین کیلئے استاد اسلم نے اپنا اولاد قربان کردیا۔ اولاد کی قربانی بہت سخت عمل ہے۔ ایک انسان اس پر سوچے تو انتہائی سخت عمل ہے لیکن استاد اسلم اس سرزمین کیلئے پیچھے نہیں ہٹے ریحان اسلم نے ایک باب کا آغاز کیا آج سب نے اس سرزمین و قوم کیلئے خود کو قربان کیا ہے ہم دیکھتے ہیں کہ جنہوں نے اپنی سرزمین حاصل کی ہے انہوں نے اپنا لہو بہاکر اپنی سرزمین لی ہے، اگر وہ اپنا لہو نہیں بہاتے تو وہ بھی اپنی سرزمین حاصل نہیں کرپاتے جنہوں نے بنگالیوں کو کمزور سمجھا کہ دس ہزار بنگالی (باغی) کو ایک رات میں ختم کردیں گے لیکن ناپاک فوج کو کیا نتائج حاصل ہوا؛ 90 ہزار فوجیوں کی پتلونیں بنگالیوں نے نکال لیں
میں اپنے تمام بلوچوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ اس جنگ کا حصہ بنیں، اپنے بھائیوں کے ہمراہ بنیں، مجید برگیڈ کا حصہ بنیں، اپنی سرزمین کو اس پنجابی ریاست سے واپس حاصل کریں ہم سب کا راہ یہی مجید برگیڈ ہے کوئی بلوچستان کی آزادی و خوشحالی چاہتا ہے تو وہ سب چیزیں مجید برگیڈ کیساتھ پیوست ہیں، اس کا حصہ بنیں آپ کی سیندک محفوظ رہے گا، آپ ک ریکوڈک بچے گا، آپ کا گوادر بچے گا بلوچ کی تمام چیزیں اسی سے منسلک ہیں۔
وہ کہتا ہے کہ بہتر یہی ہے کہ ہم آگے بڑھیں، مزاحمت کریں میں عوام کو یہی کہنا چاہتا ہوں کہ ذاتی خواہشات کو ختم کریں، جب سرزمین غلام ہے تو ہم خواہش کو کیا کریں گے، ہمیں خواہش نہیں بلکہ سرزمین چاہیے ہمارے بھی بال بچے ہیں، ہمارے بھی والدین ہیں لیکن ہمیں تمام خواہشات کو ختم کرنا ہے کہ سرزمین غلام ہے ہمیں اس غلامی، پنجابی ریاست سے نجات حاصل کرنا ہے مزاحمت اسی چیز کا نام ہے کہ اپنے گھروں سے نکلیں، اپنے بھائیوں کے ہمراہ بنیں یہ تکالیف اور بدحالی ہے لیکن آپ کی سرزمین محفوظ رہے گی اسی ثقافت و تہذیب، اسی زبان کو ختم کرنے کیلئے آج پنجابی کوشاں ہے اور اسی ثقافت و تہذیب اور زبان کی حفاظت کیلئے ہمیں ہرقدم اٹھانا ہوگا پنجابی ہماری شناخت کو ختم کرنے کیلئے کوشش کررہا ہے لیکن ہم اپنی شناخت کو ختم کرنے کیلئے پنجابی کو نہیں چھوڑیں گے پنجابی کو ہماری بالکل ضرورت نہیں ہے، آج ہماری ماں بہنیں، بھائی والد سڑکوں پر ہیں، وہ اسلام آباد تک گئے، پنجابی ریاست نے ثابت کیا کہ ہمیں بلوچ کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ بلوچ کے وسائل ضرورت ہیں ساحل و وسائل کی حفاظت کیلئے ہمیں ہر قدم، ہر فیصلہ اٹھانا پڑے گا، ہم اٹھا سکتے ہیں کیونکہ بلوچ سرزمین ہر صورت پنجابی سے بچانا ہے مجید برگیڈ میں جتنے بھی ساتھی شامل ہوئے ہیں، قربان ہوئے انہوں نے اپنا پیغام دیا ہے کہ اپنی آنکھیں کھولیں، دیکھیں کہ جو ظلم و زیادتی یہ پنجابی دہشت گرد ریاست ہم پر کررہی ہے، یہ سب کے سامنے ہیں انہوں بلوچ کیلئے کچھ نہیں چھوڑا ہے، اس نے نہ کمسن بچے چھوڑے، نہ ماں، نہ بہن، نہ بھائی چھوڑا ہے، ان سب کو آنکھوں کے سامنے گھسیٹ کر لے گیا ہے اپنے ٹارچر سیلوں میں تو میں اپنی ماں بہنوں، بھائیوں سب کو یہی پیغام دیتا ہوں کہ آکر اس جہد کا حصہ بنیں، اپنے بھائیوں کے بازو بنیں اور مجید برگیڈ کے کاروان کا حصہ بنیں۔
وہ مزید کہتا ہے کہ آج پاکستان اپنی ظلم و زیادتیوں میں ہماری ماں بہنوں کی دوپٹے نہیں چھوڑتا، اسی طرح اسلام آباد میں آپ نے دیکھا کہ کس طرح ہماری ماں بہنوں کا اس نے استقبال کیا، کس انداز میں ان کیساتھ پیش آیا، یہ سب کچھ پوری دنیا نے دیکھا، آج پنجاب جو ہم پر قابض ہے، جس نے ظلم و طاقت سے ہم پر قبضہ کیاہے، ہماری ماں بہنیں اسلام آباد گئے تو ان کے خود کے اپنے، پنجابی ریاست کو ملامت کرتے ہیں کہ بلوچوں کے اوپر ظلم و زیادتی ہورہا ہے۔ ہر روز کی ریلی و دھرنوں، عدالتوں کی بھاگ دوڑ سے ہم تھک چکے ہیں، سب بلوچ جانتے ہیں یہاں انصاف نہیں ہے ناپاک ریاست کی جوڈیشری دنیا میں 123 نمبر پر ہے تو میں اس سے کیا امید کرسکتا ہوں، ہمیں اس سے ایک فیصد امید نہیں ہے ہماری امید ہماری سرزمین ہے ہماری سرزمین کو خالی کرو، ہم الگ ریاست ہیں، بلوچ کی تاریخ ہے، بلوچ کی الگ ثقافت ہے، زبان ہےاس وقت پنجابی فوج تمہاری زبان کہاں تھی، ہم تو تاریخی قوم ہیں، تمہاری تو تاریخ ہی نہیں ہےمیں کیسے تمہارا حصہ رہوں، کسی بھی صورت حصہ نہیں بن سکتا تم الگ پاکستان، ہم الگ بلوچستان۔
سہیل بلوچ کہتا ہے میں پیغام دیتا ہوں کہ (پاکستان) ہماری سرزمین سے نکل جاؤ، تمہاری زمین الگ ہے ہماری الگ، بلوچ قوم کیلئے پیغام یہی ہے کہ تمہاری زبان کو ختم کرنے کی کوشش میں ہے ہر ساتھی جس نے خود کو قربان کیا ہے، اس نے یہی پیغام دیا ہے کہ ہماری سرزمین، زبان، شناخت ختم کی جارہی ہے، پنجابی اس کیلئے کوشش کررہی ہے لیکن ہمت کریں۔ موت ہر صورت ملنی ہے، چاہے آپ اپنے گھر بیٹھے رہیں اپنے علاقے میں آپ کسی قبرستان سے گذرتے ہیں تو آپ سوچیں کہ یہ کیوں مرے ہیں آیا یہ لڑے، مرے ہیں یا نہیں لڑے ہیں پھر بھی مرچکے ہیں۔ موت انسان پر برحق ہے بہتر یہی ہے کہ ہم گھروں سے نکلیں، آواز اٹھائیں، اس ظلم و زیادتی کے خلاف ہم آواز نہیں اٹھائیں، پھر ہماری ثقافت، زبان، ہمارا سیندک، ریکوڈک، گوادر چلا جائے گا، پھر ہمارے لیئے کچھ نہیں بچے گا
جب دنیا میں آپ کا وجود نہیں رہے گا، آپ کی زبان نہیں رہے گی، آپ قوم بھی نہیں کہلاؤ گے بہتر یہی ہے کہ ہم اپنی قوم کو بچائیں، ہم اپنی ذاتی خواہشات کو ترک کردیں، ہم آکر جہد کا حصہ بنیں اور سرزمین کی حفاظت کریں۔
ویڈیو میں ایک فدائی فرید بلوچ پیغام دیتے ہوئے کہتا ہے کہ اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے، ہم چین کو مسلسل تنبیہ کرچکے ہیں کہ ہماری اُس سے کوئی دشمنی نہیں ہے، اور وہ بلوچستان کے معاملات سے دستبردار ہو جائے۔ ہماری زمین پہ قبضے کے خلاف جاری جنگ میں اپنے سرمایہ کاری میں ناکامی اور بدلے میں اپنے لوگوں کے میت اُٹھانے کے پیچھے واضح مقصد کا ادراک رکھنے کے باوجود، چین اب بھی پیچھے ہٹنے میں ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ ہم چین سے پوچھتے ہیں کہ جب جاپان نے اُس پہ حملہ کیا اور اُسے زیرِ عتاب کیا، تو اُس نے جاپان کے خلاف مسلح جدوجہد کے مہم کا آغاز کیا۔ بلوچ نے بھی اسی طرزِ عمل کا راستہ چُنا ہے؛ ہم بھی پاکستان کی جبری قبضے کے خلاف شروعاتی ایّام سے مسلح جدوجہد کر رہے ہیں؛ اگر تمھاری جنگ واجب تھی، تو ہماری جدوجہد قابلِ اعتراض کیوں ہے؟ آج ہم ایک بار باخوشی اور شعوری طور پر اپنے آپ کو قربان کرتے ہوئے چین کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ وہ بلوچستان سے مکمل طور پر دستبردار ہو جائے، بصورتِ دیگر ہمارے حملے انتہائی شدت کے ساتھ جاری رہیں گے۔ ہم کبھی بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے اور اپنے مادرِ وطن کی دفاع اور آزادی کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے رہیں گے۔
فرید بلوچ کہتا ہے ہم دو دہائیوں سے نام نہاد کمیونسٹ ریاست، چین کو تنبیہ کرتے رہے ہیں کہ پاکستان نے ہماری مادرِ وطن بلوچستان کو بہ زور طاقت قبضہ کیا ہوا ہے۔ ہم حالاتِ حاضر میں ایک مقبوضہ و استعمار زدہ قوم ہیں۔ پاکستان اپنے قبضے کے شروعاتی دنوں سے ہماری قوم کی وحشیانہ نسل کشی میں ملوث ہے، جبکہ دوسری جانب ہمارے قومی وسائل کو تسلسل کے ساتھ لُوٹ رہی ہے؛ یہ نہ صرف ایک غیرانسانی و غیر قانونی عمل ہے، بلکہ واضح دہشتگردی ہے۔ عالمی قوانین اس حقیقت کی تصدیق کرتے ہیں کہ پاکستان مقبوضہ بلوچستان میں سنگین نوعیت کی جنگی جرائم میں ملوث ہے۔
فرید کہتا ہے کہ ایک تاریخی قوم کی حیثیت سے ہم بلوچ اس حقیقت سے شرمندگی و حقارت کا اظہار کرتے ہیں کہ خود کو عظیم رہنما ماؤ زے تنگ کی سب سے بڑی کمیونسٹ ملک کہنے والی چین اخلاقیت سے عاری ایک غیر فطری ریاست پاکستان اور غیرتہذیب یافتہ پنجابیوں کو ہماری قوم کی نسل کشی میں شدت لانے اور ہمارے ساحل و وسائل کااستحصال کرنے میں امداد مہیا کر رہی ہے۔
فرید بلوچ کہتا ہے کہ جیسا کہ میرے دیگر فدائی بھائیوں اور بہنوں نے چین سمیت بلوچستان اور بلوچ قوم کے استحصال میں راستے ہموار کرنے والی دیگر بیرونی استحصالی کمپنیوں کے سامنے یہ بات واضح کی ہے، اُسی طرح میں ایک بار پھر واضح طور پر کہنا چاہتا ہوں کہ وہ اپنے عزائم روک دیں، بصورتِ دیگر بلوچستان کی آزادی کی خاطر جاری جنگ میں سنگین نوعیت کے نتائج اور ہمارے فدائی حملوں کا سامنا کرتے رہیں گے۔