بلوچ قومی منشا اور چین
تحریر: زرین بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچ اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے قاصر نہیں کہ چین ایک سپر پاور ملک ہے، لیکن بلوچ نوجوانوں کا جذبہ، جرات، وطن دوستی، راج دوستی اور زمین سے محبت ہزار گنا زیادہ طاقتور ہے۔ شاید چینی یہ بھول چکے ہیں کہ جب ان کی زمین مقبوضہ تھی تو وہ مالی اور سیاسی لحاظ سے قابضین کے مقابلے میں کہیں کمزور تھے۔ ان کے دشمن تین سپر پاورز یعنی یورپ، امریکہ اور جاپان تھے، مگر چینی قوم کے حوصلے اور مضبوط ارادے ان سب سے زیادہ طاقتور ثابت ہوئے۔ان قابضین نے بھی کہا تھا کہ ہم چینی عوام کو روزگار فراہم کریں گے، فیکٹریاں بنائیں گے، لیکن یہ سب چینی عوام کی مرضی کے بغیر ہو رہا تھا۔ وہاں بھی اس وقت صرف کچھ جنگجو سردار اس بات سے خوش تھے کیونکہ انہیں قابضین کی طرف سے کچھ مراعات مل رہی تھیں، لیکن عام عوام کبھی اس بات کو تسلیم نہیں کرتی تھی کہ کوئی غیر قوم آ کر ان کے مذہب، ثقافت اور رسم و رواج کو کچل ڈالے اور انہیں اقلیت میں بدل دے۔
آج اسی طرح کے حالات کا سامنا بلوچ قوم کو بھی ہے۔ چین کو کم از کم اپنی تاریخ سے کچھ سبق سیکھنا چاہیے۔ پنجاب سے ہمیں کوئی امید نہیں کیونکہ انہیں انگریزوں نے ہندوستان سے وفاداری کے بدلے یہ زمین تحفے میں دی تھی، اور وہ ہمیشہ غلام رہے ہیں، اس لیے ان کے پاس کوئی اچھی حکومت چلانے کی پالیسی نہیں ہے اور نہ ہی انہیں قوموں اقدار اور قدر و قیمت کا اندازہ ہے۔
اب پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) مشکلات کا شکار ہو چکی ہے۔ منصوبہ اپنے دوسرے مرحلے میں داخل ہونے کے لیے فنڈز کی کمی کا سامنا کر رہا ہے۔ چین نے اب تک اس منصوبے کے پہلے مرحلے پر 26 ارب ڈالر خرچ کیے ہیں، جبکہ اس منصوبے کا کل تخمینہ 62 ارب ڈالر لگایا گیا تھا۔
اس منصوبے کا پہلا مرحلہ 2013 میں شروع ہوا جبکہ دوسرا مرحلہ 2023 میں شروع ہونا تھا۔ دوسرے مرحلے میں توانائی، موسمیاتی تبدیلی، بجلی کی ترسیل اور سیاحت جیسے شعبوں پر کام شروع ہونا تھا۔ گوادر کو کراچی کے بجلی گرڈ سے منسلک کرنے کا منصوبہ بھی شامل تھا، لیکن چین نے ان سب منصوبوں کو مسترد کر دیا اور مزید سرمایہ کاری سے انکار کر دیا۔ تاہم، چینی اور پاکستانی حکام نے اس کی نہ تصدیق کی اور نہ ہی تردید۔
اب چین کو یہ بات سمجھ میں آ گئی ہے کہ انہوں نے مالک سے نہیں، بلکہ کرایہ دار سے سودا کیا ہے۔ بلوچ قوم روزِ اول سے چین کو تنبیہ کر رہی ہے کہ گوادر بلوچوں کی سرزمین ہے۔ الیگزینڈر، پرتگالی، منگول، عرب اور دیگر حملہ آور آ چکے ہیں، لیکن بلوچوں نے اپنی تلواروں اور خون سے اس کی حفاظت کی ہے۔ اب آپ اور آپ کے رفقاء اس سرزمین کو آسانی سے نہیں لے جا سکتے۔
قابض پاکستان کے سابق صدر مشرف نے گوادر سی پورٹ کا افتتاح کیا تھا، اور تب سے بلوچ آزادی پسند تنظیموں کے حملے جاری ہیں اور ان میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ مئی 2004 میں گوادر شہر میں چینیوں کی گاڑی پر پہلا کنٹرولڈ دھماکہ ہوا، جس میں تین چینی ہلاک اور کئی کرایہ کے سپاہی زخمی اور ہلاک ہوئے۔
بعد میں، 2006 میں، گوادر سے کراچی جانے والے چینی قافلے پر لسبیلہ میں حملہ ہوا، جس میں چینی محفوظ رہے۔ جولائی 2018 میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے ایک چینی شہری زخمی ہوا۔ 11 اگست 2018 کو چاغی، دالبندین میں مجید بریگیڈ کے دوسرے فدائی ریحان اسلم نے چینیوں پر خودکش حملہ کیا، جس میں دو چینیوں سمیت پانچ افراد زخمی ہوئے۔ یہ بلوچستان میں چینیوں پر پہلا خودکش حملہ تھا۔
اسی سال 2018 میں کراچی میں چینی قونصلیٹ پر حملہ ہوا، مئی 2019 میں گوادر پرل کانٹینینٹل ہوٹل پر حملہ ہوا، اور جون 2020 کو کراچی اسٹاک ایکسچینج پر حملہ ہوا۔ اگست 2021 میں گوادر میں سربلند بلوچ نے چینیوں پر حملہ کیا، جس میں نو چینی ہلاک اور کئی زخمی ہوئے۔
26 اپریل 2022 کو کراچی میں پہلی بلوچ فدائی خاتون، شاری عرف برمش، نے ایک وین پر خودکش حملہ کیا، جس میں تین چینیوں سمیت چار افراد ہلاک ہوئے۔ 13 اگست 2023 کو گوادر ایئرپورٹ روڈ پر چینی انجینئروں پر ایک اور حملہ ہوا، جس میں چینی انجینئر اور سیکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے۔مارچ 2024 کے آخری ہفتے میں گوادر پورٹ اتھارٹی پر ایک خطرناک حملہ ہوا جس میں کئی گھنٹوں تک مختلف ہتھیاروں، راکٹوں اور لانچرز کی آوازیں سنائی دیتی رہیں۔
سات اکتوبر 2024 کی رات کراچی ہوائی اڈے پر چینی انجینئرز پر بلوچ لبریشن آرمی کے مجید بریگیڈ اور زراب (Zephyr Intelligence Research & Analysis Bureau) نے فدائی حملہ کیا۔ پاکستان میں چین کے سفارت خانے نے اپنی ویب سائٹ پر بن قاسم پورٹ سے وابستہ چینی انجینئرز، کی جون، وہ چون زن، اور لی ژاؤ کے دھماکے میں مارے جانے کی تصدیق کی۔ بی ایل اے کے مطابق چینی سرمایہ کاروں پر فدائی حملہ شاہ فہد عرف آفتاب نے کیا۔ انہی حملوں کے باعث چین اور پاکستان نے گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ کی افتتاحی تقریب سولہ اکتوبر 2024 کو گوادر کے بجائے اسلام آباد میں کی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بلوچوں کی مرضی و منشاء کے بغیر پاکستان ان کی سرزمین پر ایک دو گھنٹے کا پروگرام بھی بڑی افواج کے ساتھ منعقد نہیں ہو سکتا۔ پھر آپ اس پورٹ کو کیسے استعمال کر سکیں گے؟ فدائی فرید بلوچ اپنے ویڈیو پیغام میں چین کو صاف الفاظ میں تنبیہ کرتے ہوئے کہتا ہے:
“ہم اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے چین کو بار بار خبردار کر چکے ہیں کہ ہماری اُس سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں ہے، لیکن وہ بلوچستان کے معاملات سے دستبردار ہو جائے۔ ہماری زمین پر قبضے کے خلاف جاری جنگ میں چین کی سرمایہ کاری ناکام ہو چکی ہے اور وہ اپنے لوگوں کے جنازے اٹھا رہا ہے، پھر بھی ہٹ دھرمی سے باز نہیں آ رہا۔ ہم چین سے پوچھتے ہیں کہ جب جاپان نے تم پر حملہ کیا اور تمہیں زیر عتاب کیا، تو تم نے جاپان کے خلاف مسلح جدوجہد کیوں کی؟ ہم بلوچ بھی پاکستان کی جبری قبضے کے خلاف اسی جدوجہد کا راستہ اختیار کر چکے ہیں۔ اگر تمہاری جنگ جائز تھی، تو ہماری جدوجہد کیوں ناجائز ہے؟ آج ہم اپنی جانیں قربان کر کے چین کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ وہ بلوچستان سے دستبردار ہو جائے، ورنہ ہمارے حملے شدت کے ساتھ جاری رہیں گے۔ ہم کبھی پیچھے نہیں ہٹیں گے اور اپنے وطن کی آزادی کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ دیتے رہیں گے۔”
فرید بلوچ مزید کہتا ہے: “ہم دو دہائیوں سے نام نہاد کمیونسٹ ریاست چین کو خبردار کر رہے ہیں کہ پاکستان نے ہماری مادر وطن بلوچستان کو زبردستی قبضے میں لیا ہوا ہے۔ ہم اس وقت ایک مقبوضہ قوم ہیں اور پاکستان ہماری قوم کی نسل کشی میں ملوث ہے جبکہ ہمارے وسائل کو لوٹ رہا ہے۔ یہ ایک غیر انسانی اور غیر قانونی عمل ہے، جو عالمی قوانین کے تحت جنگی جرائم میں شمار ہوتا ہے۔
فرید بلوچ مزید کہتا ہے: “ایک تاریخی قوم کی حیثیت سے ہم بلوچ اس بات پر شرمندگی محسوس کرتے ہیں کہ چین، جو ماؤ زے تنگ کے نظریات پر مبنی ایک کمیونسٹ ریاست ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، ایک غیر فطری ریاست پاکستان اور غیر مہذب پنجابیوں کی مدد کر رہا ہے جو ہماری قوم کی نسل کشی اور وسائل کی لوٹ مار میں شریک ہیں۔
آخر میں، فرید بلوچ نے یہ بھی کہا: “جیسے میرے دوسرے فدائی بھائی اور بہنیں چین سمیت بلوچستان میں استحصال کرنے والی بیرونی کمپنیوں کو خبردار کر چکے ہیں، میں بھی ایک بار پھر واضح طور پر کہتا ہوں کہ وہ اپنے عزائم سے باز آئیں، ورنہ انہیں ہمارے فدائی حملوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔”
یہ فرید بلوچ کا پیغام نہیں، بلکہ 95 فیصد بلوچ عوام کی رائے ہے۔ کوئی صاحبِ شعور اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ بلوچستان مقبوضہ ہے اور بلوچ اپنی سرزمین اور قومی شناخت کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ لہٰذا، بیرونی کمپنیوں کو اس حقیقت کا خیال رکھنا چاہیے۔
دی بلوچستان پوسٹ : اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی ماننے والوں کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹ ورک متفقہ یا ان کے خیالات کے بارے میں پالیسیوں کا اظہار کرتے ہیں