بلوچ جبری گمشدگیوں کے خلاف کوئٹہ میں مظاہرہ

50

بی وائی سی کے زیر اہتمام بلوچ جبری گمشدگیوں کے خلاف کوئٹہ میں ریلی، مظاہرہ کیا گیا۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام جبری گمشدگیوں کے خلاف اور لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور لاپتہ افراد کے لواحقین کی قیادت میں سریاب روڈ یونیورسٹی چوک سے ریلی نکالی گئی جو مختلف سڑکوں سے ہوتے ہوئے عبدالستار ایدھی چوک پر پہنچ کر احتجاجی مظاہرے کی شکل اختیار کر گئی۔

ریلی کے شرکاء نے بینرز، پلے کارڈ اور لاپتہ افراد کی تصاویر اٹھا رکھی تھی، مظاہرے میں بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین و شہری بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کی مہم، “خاموشی توڑنا: جبری گمشدگیوں کے خلاف کھڑے ہونا” کے عنوان سے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے جہاں اس سے قبل کراچی، حب چوکی، خضدار، تربت، پنجگور، خاران اور آج کوئٹہ میں احتجاج ریکارڈ کرایا گیا۔

دھرنے کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، غلام نبی مری اور دیگر مقررین نے کہا کہ ہمارا احتجاج لاپتہ افراد کی بازیابی اور اس میں ملوث عناصر کو بلوچستان نکالنے کے لئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے پر امن احتجاج اور لاپتہ افراد کے لواحقین کو اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے جتنا روکا جتنی قدغنیں لگائی گئی ہے ہم اتنا ہی منظم اور مضبوط بن کر ابھرے ہیں ہماری تاریخ گواہ ہے کہ جب اداروں نے بلوچوں کو زبردستی روکنے کی کوشش کی ہے ہم اور بھی شدت ، طاقت اور منظم انداز میں نکلے اور ابھرے ہیں، بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف اور لاپتہ افراد کی بحفاظت بازیابی کے لئے آج کی یہ ریلی اور دھرنا ان قوتوں کے لئے ایک واضح پیغام ہے ۔

دھرنے کے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ اسی طرح احتجاج سے ذاکر مجید نکلا ہے اور دیگر بھی نکلیں گے کیونکہ یہ اجتماع اور احتجاج بہادروں کو پیدا کرے گا جو زندانوں میں بھی بلوچوں کیلئے نعرے لگائے گا جو بھی اپنے ضمیر کا سودا نہیں کرے گا وہ ہمارے لئے قابل احترام ہے۔

مقررین کا کہنا تھا آج کے اس پر امن احتجاج کے توسط سے مطالبہ ہے کہ ہماری سرزمین پر جبری گمشدگیوں میں ملوث لوگوں کو یہاں سے نکالنا ہے اور ہمارا احتجاج جبری گمشدہ ہونے والے خاندانوں کو یقین دلانا چاہتے ہیں کہ وہ اپنی فہرستیں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے پاس جمع کروائےں تاکہ ان لاپتہ افراد کی بازیابی کو ممکن بنایا جاسکے۔

مزید برآں مظاہرین لاپتہ افراد کی بازیابی اور اپنے مطالبات کے حق میں نعرے بازی کرتے ہوئے پر امن طور پر منتشر ہوگئے۔