پولیو کے خاتمے کی ناکام کوششوں پر جاری بحث کے دوران، بلوچستان میں 2024 کا 22 واں پولیو کیس رپورٹ سامنے آگیا۔
پاکستان نے 2024 کے لیے وائلڈ پولیو وائرس ٹائپ 1 (WPV1) کا 43 واں کیس رپورٹ کیا ہے، جس کی تصدیق نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ میں پولیو کے خاتمے کے لیے ریجنل ریفرنس لیبارٹری نے کی ہے۔
تازہ ترین کیس میں بلوچستان کے ضلع چاغی کا ایک بچہ شامل ہے، جو اس سال چاغی میں پولیو کا پہلا کیس ہے، اب تک بلوچستان میں 22، سندھ میں 12، خیبرپختونخوا میں 7، پنجاب اور اسلام آباد میں ایک ایک کیس ریکارڈ کیا گیا ہے۔
محکمہ صحت کے مطابق 28 اکتوبر سے 3 نومبر تک بلوچستان سمیت پاکستان بھر میں پولیو کے قطرے پلانے کی مہم جاری ہے، جس کا مقصد 45 ملین سے زائد بچوں کو قطرے پلانا ہے، غیر موثر حکمت عملیوں اور مہم کی بار بار ناکامی پر خدشات پھر سے بڑھ گئے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا دعویٰ ہے کہ خاطر خواہ فنڈنگ اور وسائل کے باوجود پولیو کے خاتمے کی کوششیں بدانتظامی، اختراعی حکمت عملیوں کے فقدان اور پولیو کے خاتمے کی نگرانی کے ذمہ داروں کی جانب سے محض “لپ سروس” کی وجہ سے رک گئی ہیں۔
ماہرین صحت نے والدین پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو پولیو کے تباہ کن اثرات سے بچانے کے لیے اورل پولیو ویکسین (OPV) کے دو قطرے ضرور پلائیں۔
محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ صورتحال تشویشناک ہے کیونکہ بلوچستان میں پولیو تیزی سے پھیل رہا ہے، اس کی بڑی وجہ والدین کی جانب سے ویکسین کے بارے میں غلط فہمیوں کی وجہ سے ویکسین پلانے کی اجازت دینے سے انکار ہے۔
محکمہ صحت حکام کا کہنا تھا اسکے علاوہ کچھ علاقوں میں بے ضابطگیوں کی بھی اطلاعات موصول ہوئی ہیں، جہاں پولیو ورکرز بچوں کو قطرے پلائے بغیر قطرے پلائے جانے کے نشان زد کر رہے ہیں اور کچھ علاقوں میں سیکیورٹی چیلنجز پولیو ورکرز کے لیے اپنے فرائض کو محفوظ طریقے سے انجام دینا مزید مشکل بنا دیتے ہیں۔