جرمنی میں بلوچ نیشنل موومنٹ کی نائب صدر صفیہ منظور نے خواتین کی کانفرنس برائے امن میں بلوچستان میں انصاف اور انسانی حقوق کے لیے جاری جدوجہد میں بلوچ خواتین کے کردار پر بات کی۔
برلن میں ’’ جنگ اور امن : تیسری عالمی جنگ میں خود ارادیت اور خود تنظیمی‘‘ کے موضوع کے تحت منعقد ہونے والی کانفرنس میں تنازعات والے علاقوں میں خواتین کے کردار اور امن کی کوششوں میں ان کے تعاون پر توجہ مرکوز کی گئی۔
اپنی تقریر میں، صفیہ منظور نے پاکستانی قبضے کے تحت بلوچ عوام کو درپیش جدوجہد کے بارے میں تفصیل سے بتایا، خاص طور پر جبر کے خلاف مزاحمت اور حق خود ارادیت کی حمایت میں خواتین کردار کو اجاگر کیا۔
انھوں نے کہا بلوچستان میں جبری گمشدگیوں اور فوجی کریک ڈاؤن کے نتیجے میں بلوچ خواتین انصاف کی لڑائی میں لیڈر بن کر ابھر رہی ہیں۔حکام کی طرف سے دھمکیوں اور ہراساں کیے جانے کے باوجود بلوچ خواتین اپنے لاپتہ افراد کے لیے انصاف کا مطالبہ کر رہی ہیں اور اس مہم کی قیادت کر رہی ہیں۔
انھوں نے بلوچ قومی تحریک کی قدآور شخصیت کریمہ بلوچ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا شہید بانک کریمہ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن ( بی ایس او) کی سربراہ بننے والی پہلی خاتون تھیں، جن کی قیادت نے بہت سے لوگوں کو بلوچوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کی ترغیب دی۔
انھوں نے ماہ رنگ بلوچ اور سمی دین بلوچ کی سرگرمیوں پر بھی روشنی ڈالی، جو کہ بلوچ خواتین کے حقوق اور لاپتہ افراد کے لیے انصاف کے لیے دو سرکردہ خواتین رہنما ہیں۔
انھوں نے بلوچ خواتین کو درپیش بے پناہ چیلنجوں کا ذکر کیا جن میں ریاستی سرپرستی میں ہونے والا تشدد اور موسمیاتی تبدیلی شامل ہیں، جو ان کی جدوجہد کو مزید بڑھاتی ہیں۔
انھوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ بلوچستان کے ساتھ کھڑے ہوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں شعور اجاگر کریں۔