بلوچستان :ریاستی تشدد اور جبری گمشدگیوں میں اضافہ ہوا ہے – اقوام متحدہ کمیٹی برائے انسانی حقوق

514

اقوام متحدہ کی کمیٹی برائے تحفظ شہری و سیاسی حقوق نے پاکستان میں شہری اور سیاسی حقوق کی صورتحال کا جائزہ لینے کے دوران بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے معاملے کو اجاگر کیا۔

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمیٹی (CCPR) کا 142 واں اجلاس آج سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں جاری رہا، جہاں شہری اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے کے تحت قائم کی گئی کمیٹی نے پاکستان کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کا جائزہ لیا اور پاکستانی وفد سے سوالات کیئے۔

شہری اور سیاسی حقوق (آئی سی سی پی آر) کے بین الاقوامی میثاق کے تحت پاکستان میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا جائزہ لینے والے اس سیشن کے دوران فرانسیسی ماہر قانون اور کمیٹی کی رکن ہیلین ٹِگروڈجا نے بلوچستان میں جبری گمشدگیوں پر اپنی رپورٹ پیش کی اور پاکستانی قیادت کے سامنے سوالات اٹھائے۔

کمیٹی کے رکن کے مطابق بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

ٹگروڈجا نے پاکستان میں انسانی حقوق کی وسیع پیمانے پر خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کیا، خاص طور پر بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے بڑھتے ہوئے واقعات کو اجاگر کرتے ہوئے، جن کے بارے میں انہوں نے کہا کہ 2017 میں پاکستان کے آخری جائزے کے بعد سے مزید خراب ہو گئے ہیں۔

جبری گمشدگیوں کے بارے میں اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ اور دیگر تنظیموں کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے، ٹگروڈجا نے بتایا کہ پاکستان میں 2004 سے 2024 تک جبری گمشدگیوں کے 7000 سے زیادہ واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، جن میں سے بہت سے ریاستی انسداد دہشت گردی کی پالیسیوں سے منسلک ہیں۔

ڈگروجا کے مطابق ان جبری گمشدگیوں میں سیاسی کارکن، صحافی، طلباء اور انسانی حقوق کے محافظ بالخصوص بلوچ کمیونٹی کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ مزید برآں، اقلیتوں جیسے کہ احمدی کمیونٹیز اور پشتون کمیونٹی کو بھی جبری گمشدگیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

انہوں نے بلوچستان میں پرامن مظاہرین اور کارکنوں کے خلاف ریاست کے تشدد اور ریاستی طاقت کے استعمال پر تشویش کا اظہار کیا جو جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کی ریاستی پالیسیوں کی مخالفت کرتے ہیں اور سمی بلوچ کو اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت سے روکنے پر سوالات کیئے۔

اس اجلاس کے دوران کمیٹی رکن نے پاکستانی حکام سے قانونی اصلاحات اور احتساب کا مطالبہ کیا۔

اس دوران ٹِگروڈجا نے جبری گمشدگیوں کو مجرم قرار دینے کے لیے پاکستان کی قانون سازی کی کوششوں پر سوال اٹھایا اور جبری گمشدگی کے مقدمات کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے جبری گمشدگیوں کی تحقیقات کے لیے قائم کیے گئے موجودہ کمیشن کی آزادی اور تاثیر کی کمی پر تنقید کرتے ہوئے مذکورہ کمیشن کی حیثیت اور شفافیت پر پاکستان کے اپنے سپریم کورٹ سوالات اُٹھائے ہیں۔

کمیٹی رکن نے نشاندہی کی کہ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے پاکستان کی طرف سے کوئی قابل ذکر قانونی تبدیلیاں نہیں کی گئی ہیں۔

انہوں نے پاکستان پر زور دیا کہ وہ جبری گمشدگی کے مقدمات کی جامع، آزادانہ تحقیقات کو یقینی بنائے اور متاثرین اور ان کے خاندانوں کو انصاف اور معاوضہ فراہم کرے۔

انہوں نے سوال کیا کہ پاکستان کمیشن کے اندر اصلاحات کے لیے سپریم کورٹ کی درخواست پر عمل کرنے میں کیوں ناکام رہا اور مستقبل میں گمشدگیوں کو روکنے کے لیے کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

پاکستان کا ردعمل

جبری گمشدگیوں کے حوالے ہیلین ڈگروجا کے سوالات کے جواب میں پاکستانی وفد نے اعداد و شمار پیش کیے، جس میں دعویٰ کیا گیا کہ جبری گمشدگیوں کے 10,354 کیسز میں سے 8,077 کو حل کرلیا گیا ہے۔

پاکستانی وفد نے دعویٰ کیا کہ 4,500 سے جبری گمشدہ افراد بازیاب ہوچکے ہیں اور الزام لگایا کہ بہت سے دیگر کیسز جبری گمشدگیوں کے طور پر اہل نہیں ہیں بلکہ رضاکارانہ طور پر گمشدگیوں، دہشت گردی میں ملوث افراد، یا اپنے اہل خانہ کو بتائے بغیر ملک چھوڑنے والے شامل ہیں۔

وفد نے جبری گمشدگیوں کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے عزم پر زور دیا اور سپریم کورٹ کے جج کی سربراہی میں کمیشن آف انکوائری کے قیام پر روشنی ڈالی۔ تاہم، شفافیت اور آزاد نگرانی کے فقدان کی وجہ سے، کمیٹی ان کے جوابات سے مطمئن نظر نہیں آئی۔

مزید برآں، چونکہ پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جبری گمشدگیوں کے واقعات کا جائزہ لیا جا رہا ہے اور عالمی برادری پاکستان کے مزید ردعمل کا انتظار کررہی ہے، خاص طور پر اس حوالے سے کہ وہ جبری گمشدگیوں کے جاری بحران سے نمٹنے کے لیے کس طرح منصوبہ بندی کرتا ہے اور اس بات کو یقینی بناتا ہے بلوچستان سمیت دیگر علاقوں میں جبری گمشدگیوں کے واقعات کو روکا جاسکے۔

جب کہ کمیٹی کے ارکان پاکستانی وفد کے جوابات سے مطمئن نظر نہیں آئے، وقت کی کمی کے باعث پاکستانی وفد کل جنیوا میں اقوام متحدہ کی کمیٹی کے مزید سوالات کے جوابات دے گا۔