بدلتے حالات، بدلتے دشمن اور بلوچ
تحریر: چاکر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
انٹر نیشنل پولیٹیکس میں “جیوپالیٹکس “ریاستوں کی بیرونی پالیسی، طاقت کا توازن برقرار رکھنے اور اثر ورسوخ قائم رکھنے کے لۓ ایک کلیدی کِد رکھتی ھے۔ اس مین رئیلزم کا عنصر مرکرزی نقطہ ہے۔ رئیلزم کے مطابق ھر ریاست اپنی قومی مفادات کو محلوظ خاطر رکھ کر اپنے بیرونی پالیسیاں بناتا ہے۔ دنیا میں وسٹفیلیا کی آرڈر میں ماڈرن ریاستوں کی قیام سے لے کر دوسری جنگ عظیم تک طاقت کا توازان برقرار رکھنے کے لۓ الائنسز بنتے رہے، جب بھی کوئ طاقتور ریاست سر اٹھاتا تو اسکے خلاف کمزور ریاستیں اپنے وجود کو خطرے مین دیکھ کر طاقت کو توازن دینے کےلۓ الائنسز بناتی تھیں۔ جب نیپولین نے فرانس کے حدود کو وسیع کرنے کی کوشش کی تو ھولی الئنس بنی، جب جرمنی نے جنگ عظیم اول چیڑھی تو برطانیہ، روس، فرانس یکجا ھوۓ لیکن سوشلزم کی کیپٹلزم کے خلاف ابھار اور کالونیلزم کے خلاف نیشنلرزم جیسے نظریات نے جنگ عظیم دوم کے بعد نظریاتی جنگوں کا آغاز کردیا۔ صورت خان مری اپنے کتاب “دی سروالز؛ بلوچ ریزیسٹنس ” میں لکھتے ہیں کہ اس دور میں نیشن اسٹیٹس ہی قوموں کی بقا کی ضامن ہیں اور کثیرالقومی ریاستین جلد یا بدیر ٹوٹ کر بکھر جاتی ہیں۔لیکن اس کشمکش میں یہ ارٹیفیشل ریاستیں اپنے اندر قوموں کا استحصال کرکے انکی قومی شناخت کو بھر پور مٹانے کی کوشش کرتی ہیں، اس کی مثال پاکستان ہے جس نے روز اول سے بلوچوں، پشونوں اور سندھیوں کے قومی ارتقا کو اپنے کالونیلزم کے نذر کردی ہے۔چونکہ ویسٹرن بلاک نے ایشیا کے اندر اپنے نیوکالونیل عزائم برقرار رکھنے اور روس کے ھرکات کو چیک اینڈ بیلن کتنے کےلۓ یہ ارٹیفشل ریاست تشکیل دی۔
اپنے وجود کے وقت سے ہی اس ریاست نے امریکی بلاک کا انتخاب کیا اور اپنے وجود کو برقرار رکھنے کےلۓ کبھی ورلڈ بینگ، کبھی امریکا تو کبھی آئ ایم ایف سے قرض لیتی رہی ۔برطانوی سسٹم سے ماخذ بیوروکریٹس نے اسے زراعت پر منجمد کرکے اس کو خسارے میں ڈالے رکھا۔ 1979 میں روس کے افغانستان مین آنے خلاف امریکا کا پاکستان کو پراکسی استعمال کرکے مجاھدین بنانا، روس کے خلاف جہاد کروانا،اس ارٹیفیشل پراکسی کی نااہلی کی واضح ثبوت ہے، اسکے بدلے میں جنگ کے میدان مین امریکا نے اسے ہتھیا ر اور مالی امداد دی،چاھے وہ بھارت کے ساتھ جنگ ھو یا بلوچستان میں جاری قومی تحریک کو کچلنا ہو،پاکستان نے ھمیشہ انھی کا استعمال کیا ہے ۔
صورت خان مری کے مطابق ” افغان پناہ گزینوں کو لانے کے پیچھے پاکستان کی ” بلوچ ملیٹنٹ ٹریپ پالیسی” شامل تھی ۔اس پالیسی نے قومی تحریک کو کچلنے اور طالبان کو حکومت میں لانے میں پاکستان کی مدد کی۔اس کی مثال نواب مری کا طالبان کے حکومت کے دوران واپس آنا اور نواب بالچ مری کا ان پناہ گزینوں کے راستون کے درمیان شہید ھونا شامل ہے۔ 1991 میں سویت یونین کی بالکنائزیشن سے امریکا سپرپاور کے طور پر ابھرا اور اس نے اس کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئ ایشیا مڈل ایسٹ کے اندر اپنے پراکسی گورنمنٹ بنانے کی کوششیں شروع کردی ۔9/11 کے واقعے کے بعد افغانستان پر حملے میں پاکستان نے امریکا کی پراکسی کے طور پر کام شروع کردی لیکن آج انھی کے پیداوار انھی کے گلے کے ہڈی بنے ھوۓ ہیں ۔دوسری جانب چین کا سوشلزم سے کنٹرولڈ کیپٹلزم کی طرف سفر اور دنیا میں ایک گلوبل اکانومی کے طور پر ابھرنا امریکا کے لۓ ایک چیلنج بن گیا ہے۔ جب امریکا سے دفاعی بجٹ کم ملنے لگا،ڈالرز کم ملنے لگے،پنجاب کی زراعت کم ھونے لگی تو اس آرٹیفیشل اسٹیٹ نے چین کے ساتھ بلوچ زمین کو بیچنے کا ٹھان کر بلوچ زمین کو ایک اور کالونائزد کے سپرد کردیا۔ جب سے پاکستان میں چین کی سرمایہ کاری شروع ھوئ تو اس نے چین سے مفادات حاصل کرنے کےلۓ بلوچ زمین گوادر کو چین کے حوالے کردیا۔چین کی گوادر زمین پر سرمایہ کاری کا کیا مقصد ہے؟ اس کے لانگ ٹرم کیا مقاصد ہیں؟ کیا پنجابی کے ساتھ ساتھ ایک دشمن کا اور اضافہ نہیں ھورہا ہے؟ کیا بنگلادیش میں حالیہ چینی نیوی کا آنا خطے میں چین کے آنے والی پالیسیوں کو واضح نہیں کرتا۔
چین کی پالیسیوں کو واضح کرنے سے پہلے چین کا لوکیشن اور جغرافیہ کو واضح کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ چین جنوبی ایشیا میں واقع ہے۔ اس کے مغرب میں افغانستان، ایران اور روس واقع ہین، جنوب میں پاکستان، مشرق کی طرف انڈیا ہے اور اس کے شمال میں جاپان ہے۔ دنیا کے نقشے پر غور سے دیکھا جاۓ تو چین دنیا کے ایک کونے میں اور یورپ دنیا کے دوسرے کونے میں واقع ہے۔ ماہرین کے مطابق چین نے ایشیا میں اپنے آپ کو فیصلہ کُن اکنامک ملک بنا کر یورپ کے مارکیٹ میں امریکا کو چیلنج کرنے کےلۓ اپنے پالیسیاں بنا رہا ہے۔ آج ھم دیکھیں تو دنیا کا ایسا براعظم نہیں جہاں چین نے سرمایہ کاری نہ کی ہو۔ ایشیا، افریقہ، لیٹین امریکا کے اندر چین کی بڑی سرمایہ کاری اس کی گلوبل اکانومی ھونے کی بڑی ثبوت ہے۔ ٹم مارشل کے مطابق 2050 تک چین امریکا سے اکنامک محاذ میں آگے نکل جاۓ گا۔ ایران کا کرائسز کے دوران چین سے مدد لینا، امریکی پابندیوں کے باوجود روس کا اپنے اکنامی کو چین کے ساتھ تجارت کے وسیلے سے برقرار رکھنا چین کی اقتصادی صلاحیتوں کا عکس ہے۔ چین نے کس پالیسی کو اپناتے ہوۓ یہاں تک کامیابی حاصل کی؟
تو اس کا جواب پیسیفک سمندر میں چین اور امریکا کے درمیان بڑھتا ہواتناؤ ہے۔ رابرٹ کیپالن کے مطابق اکیسیوں صدی کی تاریخ انڈین اور پیسیفک سمندر پر لکھی جائیگی۔ یہ دعوی صحیح ہے یا غلط، اس کی تہہ میں جانے کے باوجود ھم چین اور امریکا کے درمیان جاری ٹریڈ وار اور” نیول وار” کی بڑھتے ھوۓ خدشات کو واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
چین کو یورپ سے تجارت کرنے کےلۓ پیسفک سمندر سے گزرنا پڑتا ہے۔ جہاز کو چین سے یورپ تک پہنچتے قریباًدو ماہ لگتے ہیں، فیول کاخرچہ الگ سے لگتا ہے۔ اس کے علاوہ چین کے جہازوں کا سب سے بڑا خطرہ امریکن الائیز جاپان،فلپائن کے سامنے سے جانا پڑتا ہے جو کہ کسی بھی جنگی یا ہنگامی حالت کے وقت چینی جہازوں کو اپنے قبضے۔ اس خطرے کا حلچین پالیسی میں شامل تھا، تو اس نے ایشیا کے ھرملک کے ساتھ یہ پروجیکٹ بنانے کا معاہدہ کیا۔ اس میں سی پیک، سری لنکن پورٹ، بنگلادیش پورٹ اور چابہار پورٹ کا منصوبہ بھی شامل ہیں۔ اس پالیسی کے مطابق چین اس ملک کے اند انفراسٹرکچر کو مضبوط کرے گا اور بدلے مین چین کو ہاں سے لینڈ رُوٹ اور پورٹ فراہم ھون گی۔ اس کےلۓ وہاں ریولے لائنز، ٹرانسپورٹ اور کارخانوں کو بڑھانے کےلۓ چین سرمایہ کاری کرتا ہے۔ماہرین کے مطابق چین ہی
اوباما انتظامیہ کی پالیسی کے پیچھے محرک قوت تھی جس نے امریکہ سے ایشیا پیسیفک خطے میں اپنی افواج کو ‘دوبارہ توازن’ کرنے کا مطالبہ کیا۔
ان پالیسیوں کو اکنامک زونز بھی کہاجاتا ہے۔ چین کی اس پالیسی کو کئ ماہرین کے مطابق ” ڈیبٹ ٹریپ ڈپلومیسی” کا نام دیا جاتا ہے۔ اسکے مطابق چین اپنے پارٹنر ملک کو قرض دینے کے بدلے واپس قرض مانگنے کی بجاۓ اس کے وسائل کو اپنے مفاد کےلۓاستعمال کرتاہے۔ اسکی مثال ” سری لنکن پورٹ پر چین کا سوسالہ لیز اور گوادر پورٹ پر چالیس سالہ لیز” ہے۔ سی پیک منصوبے چین نے نے پاکستان میں 60 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔ دیکھاجاۓ پاکستان کا اکنامک حب پورٹ سٹی گوادر ہے جو پاکستان کے پسماندہ ترین صوبہ ھونے کے ساتھ ساتھ ایک غلام سماج کی نمائندگی بھی کرتا ہے جو 75سال سے پاکستانی اسٹیٹ کے کالونیل پالیسیوں کے بھینٹ چڑھتے آرہے ہیں۔ لیکن جب چین کی انفراسٹرکچر دویلپمنٹ پروگرام پنجاب میں لگ رہا ہے۔ میٹرو بس، اورنج بس، ریلوے ، کارخانے اور موٹویزکا قیام پنجاب میں دکھائ دیتا ہے، جبکہ اس شہر کے لوگ صاف پانی کے لۓ ترس رہے ہوتے ہیں۔ گوادر اور آس پاس کے علاقوں میں ھاؤسنگ سکیمزکے ذریعے پنجابی اور چینی سیٹلرز کی آبادکاری کس پالیسی کو واضح کرتی ہے۔ آج اورماڑہ کو مِنی پنجاب کہا جاتا ہے تو کل کیا پتا گوادر کو منی چائنہ کہا جاۓ۔ ٹم مرشل کے مطابق چین کی فوج ھمیشہ چینی سرمایہ کاری کے پیچھے بھاگی بھاگی آئ ہے تو کیا گوادر میں پورٹ کا قیام، ائیرپورٹ کا قیام اور گوادر فینسنگ کا مقصد صرف امریکا کے ساتھ اقتصادی جنگ کےلۓ مہرےہیں یا کل کو بلوچ زمین چائنہ کے ” گریٹ نیوی پراجیکٹ ” کےلۓ ایندھن بنے گا۔
چین شروع دن سے ایک زمینی طاقت رہی ہے، لیکن جب اس نے عالمی میدان میں قدم رکھا تو گزرتے دن کے ساتھ اس کےلۓ نیوی آرمی کی اہمیت بڑھتی گئ۔” ساؤتھ چائین سی” کا مسئلہ ہو یا تائیوان کا، اقتصادی جنگ ھو یا الائنسز، ان سب محرکات کےلۓ ایک اچھی نیول آرمی اور گریٹ امریکی نیول آرمی سے مقابلہ کرنے کےلۓ دنیا کے مختلف خطوں میں نیول بیسز کا قیام چین کی اول ترجیح بنتی جارہی ہے جوکہ چین کا اپنے جغرافیہ اور لوکیشن کی کمزوری کو کاؤنٹر کرنے کی پالیسی ہے ۔
چین کی سفارت کاری کا تجزیہ ‘تین دائروں کے فریم ورک’ سے کیا جا سکتا ہے، جس سے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ چین کی خارجہ پالیسی تین شعبوں پر مرکوز ہے۔ پہلے دائرے کی سطح ہمسایہ ممالک کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کو سنبھالتی ہے۔ دوسرے دائرے کی سطح جنوبی ایشیائی خطے اور چین کی انسداد دہشت گردی ڈپلومیسی سے متعلق ہے .تیسرے دائرے کی سطح امریکہ سمیت عالمی طاقتوں سے متعلق ہے، کچھ ماہرین کے مطابق چین نےسیاسی عدم استحکام کو کم کرنے کے لیے ،
شورش زدہ سنکیانگ خطے میں عدم استحکام اور جہادی خطرے کو کم کرنے کے لیے اور بھارت کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ، ممکنہ طور پر دشمنی کی صلاحیت کو کم کرنے کے لیے اور چین کے مفادات کے لیے امریکہ اور جاپان جیسی طاقتیں کو کاؤنٹر کرنے کےلۓ (بی آرآئ) کا پراجیکٹ لانچ کیا ۔ چین ماضی میں پاکستان کو ہتھیاروں کا سب سے بڑا سپلائیر تھا اور ماہرین کے آج سی پیک چین کا بیرون ِملک سب سے بڑی سرمایہ کاری کی مثال ہے اور پچھلے دہائیوں میں چین اور پاکستان کے درمیان تعلقات زیادہ ہوۓ ہیں۔ اسکی بڑی وجہ کچھ یوں ہیں
1_
انڈیا کو ساؤتھ ایشیا میں کاؤنٹر کرنے کےلۓ پاکستان کے علاوہ چین کے پاس کوئ دوسرا آپشن نہیں تھا۔
2_
چین کے اندر اسلامسٹ جہادی گروپس کو کاؤنٹر کرنے کےپۓ چین اور پاکستان کی مماثلت رہی ہے اسی لۓ
افغانستان میں چین کے اہم خدشات میں سے بڑا خدشہ ایغور مسلمان بنیاد پرستوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ کا ہونا ہے ۔اس خدشے کو دور کرنے کےلۓ افغان عدم استحکام پاکستان) جس مین چین کی سرمایہ کاری ہوئ ہے) اور سنکیانگ میں انتہا پسند نظریاتی اثر و رسوخ سے بچنے کےلۓ چین افغانستان کے ساتھ ڈپلومیسی اپنانے کی کوشش میں ہے ۔ ابتدائی طور پر، چین، امریکی انخلا کے بعد اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے پاکستان پر انحصار کرتے ہوئے، افغانستان سے سیاسی طور پر دور رہا۔ تاہم، جیسا کہ امریکہ نے اپنی موجودگی کو کم کیا، چین نے اس خطے زیادہ فعال کردار ادا کرنا شروع کردیا جس میں چین کی طرف سے چار فریقی رابطہ گروپ کا بنانا شامل ہے ۔ لیکن طالبان کا دوبارہ پاکستان کے گلے کا ہڈی بننااور ٹی پی کا چینی سیٹلرز پر حملے آج چین کے لۓ اپنی قومی مفادات کو محفوظ کرنے کےلۓ اقدامات اٹھانے کی طرف لے جائیگا
3_
چین اور انڈیا کے لداخ بارڈر پر بڑھتے ہوۓ خدشات نے چین کو پاکستان کے اور قریب کردیا ہے
4_
گوادر کا راستہ چین کےلۓ سب سے آسان اور موثر راستہ ہے، جس سے چین کی گلوبل اکنامی میں بہت اضافہ ہو ہے
اینڈریو سمال کے مطابق چین پاکستان تعلقات چین کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہو گئے ہیں۔ چین کے لیے پاکستان کی افادیت بڑھ رہی ہے اور ‘اب پاکستان ایک مرکز ہے۔
چین کی علاقائی طاقت سے عالمی طاقت میں منتقلی کا حصہ…اس کا بحر ہند سے فارس تک اپنی رسائی کو پھیلاتے ہوئے، بحریہ کی طاقت کے طور پر چین کے ٹیک آف کے لیے ساحلی پٹی ایک اہم سٹیجنگ پوسٹ بن رہی ہے .بلوچ قومی تحریک میں جدت وشدت اور خاص کر چائینز سیٹلر پر تابڑ توڑ حملے کم از کم چائنہ کو یہ باور کرارہے ہیں کہ انکی بلوچ زمین کے اندر انکی اجازت کے بغیر ایک پنجابی سے ہاتھ ملا کر اسکے زمین کو استعمال کرنے کی اجازت وہ نہیں دے گا۔ کراچی حملے کے بعد چینی پروٹوکولزمیں اضافہ، اور سیکیورٹی بڑھانے کےلۓ بلوچستان کی دفاعی بجٹ کوبڑھانا اور گوادر ائیر پورٹ کی گوادر کی بجاۓ اسلام آباد میں افتتاح دشمن کی بوکھلاہٹ کی عکاسی ہیں۔ چین یوگیر مسلمانوں کے ساتھ جو کررہا ہے وہ دنیاکو معلوم ہے، لداخ بارڈر پر انڈیا کے ساتھ لڑائ، 9 ڈاٹس کے اوپر جاپان، فلپائن سے لڑائ اسکے کالونیل عزائم کاثبوت ہیں اور دور نہیں کہ بلوچ گجر اور پنجابیوں کے علاوہ چینی دشمن کے محذ آرا ہو۔حالیہ کراچی کے واقعے کے بعد چین کا بلوچستان کے اندر اپنے سرمایہ کاری کو بڑھانے کےلۓ پورٹ کا افتتاح اس باتکی دلیل ہے کہ چین اپنے قومی مفادات کو دیکھتے ہوۓ پاکستان کے ساتھ بلوچ تحریک مخالف الائنس بنانے کا ارادہ رکھتا ہے کیونکہ سی پیک چین کےلۓ سروائیول اور بلوچستان پاکستان کی سروائیول کی جنگ ھے اور وہ اپنے مفادات کو محفوظ کرنے کےلۓ آجری حد تک جاسکتے ہیں۔
آج پاکستان ایک انارکی کے ٹارنزیشن فیز میں ہے جسے فتفتھ جنریشن وار فیئر، خانہ جنگی، مذہبی انتہاپسندی اور تین محاذوں ) بلوچ انسرجندی، سندھی انسرجنسی،ٹی ٹی پی (سے مسلح انسرجنسی کا سامنا ہے۔ بلوچ قومی تحریک کے لۓ یہ دور فیصلہ کُن ہے اور ان پہ ہے وہ کس طرح دشمن کہ کمزوری بھانپ کر اسکا فائدہ اٹھاتے ہیں ۔
صورت خان مری کے مطابق بلوچوں کی پچھلی انسرجنسی کی ناکامی ایک ڈسپلنڈادارے اوردانشورانہ لیڈرشپ کا نہ ھونا تھا۔
آج بلوچ قومی تحریک خاص کر مسلح جدوجہد کے اندر کافی تبدیلیاں آئ ہیں لیکن الٹیمٹ نہیں، آنے والے سالوں میں حالات کافی تبدیل ھونگے، دشمن تبدیل ھوں گے، دشمنوں کی باقائدہ الائینسز بنیں گی،چین اور پاکستان کے درمیان سیکیورٹ معاہدے ھوں گے لیکن بلوچ پھر بھی دھڑوں میں تقسیم رہا تو پھر دو سٹیٹ اپنے مفادات کو دیکھتے ہوۓ تحریک کو کچلنے کےلۓ ذرا بھی وقت ضائع نہین کرین۔ ٹھوس سمجھدار قومی بیانیہ کے ساتھ ساتھ انضمام اور سِنگل پارٹی وقت کی اشد ضرورت ہے نہیں تو یہ ” صرف یہ شور مچانے والی سیاست قوم کو تاریخ کے پنوں میں گم نام کردےگی۔
دی بلوچستان پوسٹ : اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی ماننے والوں کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹ ورک متفقہ یا ان کے خیالات کے بارے میں پالیسیوں کا اظہار کرتے ہیں