انقرہ حملہ: ایروسپیس ٹیکنالوجی کمپنی کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟ کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کیا ہے؟

288

گذشتہ روز ترکی کے دارالحکومت انقرہ کے قریب واقع ترکش ایرو سپیس انڈسٹریز (ٹی اے آئی) پر حملہ ہوا تھا جس میں پانچ افراد ہلاک اور 22 زخمی ہوئے تھے۔

گذشتہ روز وائرل ہونے والی ویڈیوز میں دو حملہ آوروں کو ٹی اے آئی کے داخلی دروازے کے قریب فائرنگ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا تھا۔

اس حملے کی ذمہ داری کسی گروہ نے تاحال قبول نہیں کی ہے۔

ترک صدر رجب طیب اردوغان نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اس حملے کو ’سنگین‘ جُرم قرار دیا تھا۔

ترکی کے وزیر داخلہ علی یرلیکایا کا کہنا تھا کہ حملے میں ملوث ایک مرد اور خاتون حملہ آور کو ہلاک کردیا گیا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ اس حملے میں پی کے کے کے ملوث ہونے کا قومی امکان موجود ہے۔

ترکی میں جنگی سازوسامان، ایف 16 اور ایروسپیس ٹیکنالوجی کمپنی کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟

  • ٹی اے آئی ترکی کے دارالحکومت انقرہ کے قریب قائم ایک سرکاری ادارہ ہے۔
  • یہ ادارہ سویلین اور فوجی جہازوں اور ہیلی کاپٹروں کے علاوہ ڈرونز بھی بناتا ہے۔ جو نہ صرف ترک فوج استعمال کرتی ہے بلکہ دنیا بھر میں فروخت بھی کیے جاتے ہیں۔
  • ٹی اے آئی کی ویب سائٹ کے مطابق اس ادارے کے قیام کا مقصد ایروسپیس ٹیکنالوجی کے حوالے سے ترکی کی دفاعی درآمدات میں کمی لانا تھا۔
  • یہ کمپنی ترکی میں امریکی ڈیزائن کردہ ایف 16 لڑاکا طیاروں کی لائسنس یافتہ مینوفیکچرر ہے۔
  • ٹی اے آئی ترک فوج کے استعمال کے لیے پرانے طیاروں کو جدید بنانے میں بھی کردار ادا کرتی ہے۔
  • یہ فرم ترکی کی مسلح افواج اور ترک حکومت کے دفاعی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کے ایک ادارے کے ماتحت ہے۔
  • ٹی اے آئی کا ہیڈکوارٹر انقرہ کے شمال مغرب میں 17 میل (28 کلومیٹر) کے فاصلے پر کہرامانکازان کے علاقے میں واقع ہے۔
  • کمپنی کی ویب سائٹ کے مطابق ٹی اے آئی کا ہیڈکوارٹر تقریباً چار مربع کلومیٹر کے رقبے پر محیط ہے۔
  • فی الحال یہ واضح نہیں کہ ہیڈکوارٹر میں کہاں یا کس چیز پر حملہ ہوا ہے۔

کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کیا ہے؟

کردستان ورکرز پارٹی یعنی پی کے کے کئی دہائیوں سے ترکی کے لیے مُشکلات اور مسائل کا باعث بنی ہوئی ہے۔

پی کے کے کی بنیاد 1970 کی دہائی کے اواخر میں رکھی گئی تھی اور اس نے 1984 میں ترک حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد کا آغاز کیا اور ترکی کے اندر ایک آزاد کرد ریاست کا مطالبہ کیا تھا۔

جولائی سنہ 2015 میں دو سال سے جاری جنگ بندی ختم ہونے کے جھڑپوں کا ایک مرتبہ پھر آغاز ہوا۔ پھر جولائی سنہ 2016 میں ترک حکام کی جانب سے صدر رجب طیب اردوغان کے خلاف بغاوت کی ناکام کوشش کے بعد پی کے کے کے خلاف ایک بڑی کارروائی کا آغاز ہوا تھا۔

پی کے کے کو ہی عراق اور شام میں بدامنی کا ذمہ دار قرار دیا جاتا رہا ہے۔ پی کے کے پر ترکی، امریکہ اور برطانیہ میں پابندی عائد ہے اور اس کے جنگجو ترکی میں کُرد اقلیت کے حقوق کے لیے 1980 کی دہائی سے ترک ریاست کے خلاف لڑ رہے ہیں۔