امید کی شہزادی ۔ میار بلوچ

604

امید کی شہزادی

تحریر: میار بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

پچیس اگست دو ہزار چوبیس کی شام کو بھی ہمیشہ کی طرح لسبیلہ شہر اور اس کے باسی اپنے اردگرد سے بے خبر روزمرہ کی زندگی گزارنے میں مگن تھے، لسبیلہ جو شعوری یا لاشعوری طور پر غلامی کو اپنا مقدر سمجھ کر گزشتہ سات دہائیوں سے جس طرح جی رہا تھا، عین اسی طرح غلامی کی زنجیروں میں جکڑا پچیس اگست کی شام کو بھی رات کی تاریکیوں میں بدل کر ایک آزاد، خوشحال، بہتر سویرے کے بجائے بس ایک اور عام سے دن کی تلاش میں محو سفر تھا۔ جہاں روشنی کا کام اندھیروں کو مٹانا نہیں، بس انہیں روزانہ کی طرح انہی راستوں کو دکھانا تھا جو انہیں دکھائے گئے تھے، سمجھائے گئے تھے، پڑھائے گئے تھے۔

مگر پچیس اگست دوہزار چوبیس کی شام کو ہنگلاج ماتا، نانی مندر کا منظر یکسر مختلف تھا۔ وہاں دیویوں کا ڈھیرا لگ چُکا تھا، وہاں شکتی، کالی، اور دیگر دیویاں پوجاپاٹ کر رہی تھیں، لیکن ان کے منہ سے نکلنے والے منتر مذہبی نہیں تھے، روایتی بھی نہیں تھے، علاقائی تو بالکل بھی نہیں تھے۔ ان منتروں میں، اس پوجا پاٹ میں سب کچھ نیا تھا، کچھ انوکھا، کچھ ایسا جو کبھی سنائی نہ دیا گیا ہو، جو کبھی دیکھا نہ گیا ہو۔ ان دیویوں کی آنکھوں سے آنسوؤں کے بجائے لہو ٹپک رہا تھا۔

عین اسی وقت “امید کی شہزادی” (Princess of Hope) بھی اپنی خاموشی توڑ کر مدہوش ہو چکی تھی۔ وہ سفید جوڑا پہن کر صوفیانہ انداز میں رقص کناں تھیں۔ اسفنکس آف بلوچستان بھی ایک دیو ہیکل کی مانند کھڑے ہوکر دھاڑنے لگا۔ ایسا گمان ہو رہا تھا کہ جیسے نانی مندر، امید کی شہزادی اور اسفنکس آف بلوچستان ایک پیغام سنا رہے تھے، ایک نوید لا رہے تھے۔ وہ پہاڑ جو صدیوں سے خاموشی کی نیند سو رہے تھے، انہوں نے اسی زبان میں گیت شروع کر دیے جس زبان میں دیویاں منتر پڑھ رہی تھیں۔

جب پہاڑوں نے اس انجان مگر دل کو چھونے والی زبان میں گیت شروع کیا، تو سمندر نے اپنی لہروں سے ایک ایسی دھن چھیڑی جس نے لسبیلہ کا ماحول ہی بدل کر رکھ دیا۔ اس نظارے کو دیکھ کر پرندوں نے آسمان کی طرف اڑان بھرنا شروع کر دی، اور سمندر کی مچھلیاں بھی رقص کناں ہوئیں۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے اس موقع پر پوری کائنات بلوچستان کے ضلع لسبیلہ کو دیکھ رہی ہو، سن رہی ہو، پہچان رہی ہو، اس سے مخاطب ہو رہی ہو۔

یہ وہ سماں تھا جب بلوچستان کی شہزادی، بلوچستان کی شکتی، بلوچستان کی دیوی، بلوچستان کی اسفنکس، بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑوں سے مضبوط اعصاب رکھنے والی، سمندر کی گہرائیوں سے گہرا شعور رکھنے والی، علم و شعور کا پیکر، قومی شناخت کی محافظ، مادروطن کی حرمت، عظمت اور استقلال کی خاطر نچھاور ہونے والی بلوچستان کی بیٹی فدائی ماھل بلوچ نے قابض پاکستانی فوج کے کیمپ پر بارود سے بھری گاڑی سمیت حملہ آور ہوکر بلوچ قومی شعور کی انتہا کو ایک نئی سطح پر پہنچا دیا۔ ماھل، جن کا تعلق ایک پڑھے لکھے گھرانے سے تھا، وکالت کی طالب علم تھیں، اور ہر ایک معاملے کو شعوری و علمی طور پر دیکھتی اور پرکھتی تھیں۔

انہوں نے بلوچ قومی شعور کو ایک ایسے مقام پر پہنچا دیا، جہاں وہ تمام فرق، جو معاشرہ، مذہب، سیاست، سماج اور روایت ایک مرد و عورت کے بیچ میں صنفی بنیادوں پر لاگو کرتا ہے، ختم ہوجاتے ہیں۔ یہ فرق نہ صرف اپنے ہمسفر فدائی نوجوانوں کے ہمراہ دشمن پر کالی ضرب لگانے میں تھا، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ بلوچ قوم پر یہ واضح کرنا تھا کہ قومی جنگ میں کردار ادا کرنے کے لیے کسی مخصوص جنس کا ہونا ضروری نہیں۔ یہ جنگ قومی جنگ ہے اور قوم کا ہر ایک فرد، مرد و خواتین، اس جنگ کا حصہ ہیں اور قربانی بھی تمام افراد کو بغیر کسی صنفی فرق کے دینا ہوگی۔

پچیس اگست دو ہزار چوبیس کو بلوچ لبریشن آرمی نے اپنے گزشتہ تمام حملوں کے ریکارڈ توڑتے ہوئے دشمن پر ایسا مہلک حملہ کیا جس کی مثال ہمارے خطے میں کہیں نہیں ملتی، جہاں بیک وقت تیرہ اضلاع میں چالیس مختلف مقامات پر چوالیس مہلک حملے کیے گئے ہوں۔ ایک ایسا مربوط آپریشن جس نے بلوچستان بھر میں قابض فورسز اور ان کے نظام کو کم از کم بارہ گھنٹوں تک مکمل طور پر مفلوج اور ناکام بنا دیا تھا۔ بلوچ لبریشن آرمی نے اپنے اس آپریشن کو “ھیروف” کا نام دیا، جس کے لفظی معنی ہیں سیاہ طوفان یا انتہائی خطرناک طوفان۔

بلوچ لبریشن آرمی کا آپریشن “ھیروف” واقعتاً ایک طوفان تھا، ایک ایسا طوفان جس نے پاکستانی فوج اور حکمرانوں کے غرور و گھمنڈ کو مٹی میں ملا کر انہیں بلوچ قومی طاقت کا نہ صرف احساس دلایا بلکہ یہ واضح پیغام بھی دیا کہ اب بلوچ قومی جنگ ایک روایتی جنگ کی جانب گامزن ہے۔

آپریشن “ھیروف” میں بلوچ لبریشن آرمی کے سینکڑوں سرمچاروں اور فدائین نے حصہ لے کر تاریخ میں بلوچ قومی جدوجہد کو ایسا باب دیا ہے جو رہتی دنیا تک مزاحمتی تحریکوں کی رہنمائی کرتا رہے گا۔ جہاں ماھل جیسی بہادر بیٹیاں سرزمین پر قربان ہونے کے جذبے سے سرشار ہوکر دشمنوں پر طوفان بن کر برپا ہوں گی، تو وہیں ان کے ہمراہ شہید فدائی رضوان بلوچ، شہید فدائی غوث بخش سمالانی، شہید فدائی مہند بلوچ، شہید فدائی طیب بلوچ، شہید فدائی فضل گل زہری، شہید فدائی جنید زہری، شہید فدائی محمد بخش سمالانی، شہید فدائی آصف نیچاری اور شہید شفقت مینگل جیسے بہادر، دلیر، سرزمین پر جان نچھاور کرنے والے سرمچار ساتھی ہوں گے۔ ان کا مقصد نہ صرف دشمن پر کاری ضرب لگانا ہوگا، بلکہ وہ اس پختہ یقین و عزم کا استعارہ بھی ہوں گے جو ایک خوبصورت، آزاد، روشن، بہترین، خوشحال مستقبل کا ضامن ہوگا۔ جہاں تمام انسان برابر ہوں گے، جہاں وسائل پر ان کا حق ہوگا جو وسائل کے مالک ہوں، جہاں گھومنے پھرنے کی آزادی ہو، جہاں کسی بھی انسان کو حقیر یا کمتر نہ سمجھا جائے۔ جہاں آپ کو صرف اس وجہ سے لاپتہ نہ کیا جائے کیونکہ آپ سوچتے ہیں، سمجھتے ہیں، سوال کرتے ہیں، اپنے حقوق اور آزادی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ جہاں مذہبی تلوار کو استعمال کرکے لوگوں کو ڈرا دھمکا کر خاموش نہ کرایا جائے۔

پچیس اگست تاریخ کے پرنوں میں بہت کچھ رقم کر چکا ہے۔ آپریشن “ھیروف” ابتداء ہے ایک ایسے انتہاء کی جو بلوچستان کی آزادی کی منزل کو قریب سے قریب تر کرنے کا سبب بنے گا۔ آپریشن “ھیروف” اظہار ہے، جنرل اسلم کے کارواں کے ان سپاہیوں کے عزم کا جنہوں نے مضبوطی سے بلوچ لبریشن آرمی کی قیادت کو سنبھالے رکھا ہے اور مجید بریگیڈ سمیت دیگر تنظیمی دستوں کو شبانہ روز کاوشوں سے بہتر کرنے میں مصروف عمل ہیں۔ آپریشن “ھیروف” ایک ایسا لاوا ہے جو بلوچ قوم کے دلوں میں آتش فشاں کی صورت اختیار کر چکا تھا اور پچیس اگست کو دشمن ریاست پر ایسے برسا جسے وہ ہمیشہ یاد رکھے گا۔

آپریشن “ھیروف” بلوچ سرمچاروں، فدائین کا بلوچ قوم کو یہ پیغام تھا کہ ہم آپ کی حفاظت، وسائل کی حفاظت اور بلوچستان کی دفاع کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں اور دشمن ریاست پر جہاں بھی چاہیں، جب بھی چاہیں اور جیسے بھی چاہیں نہ صرف حملہ کرنے کی طاقت رکھتے ہیں بلکہ دشمن کو مکمل طور پر مفلوج کرنے کی صلاحیت بھی موجود ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ بلوچ قوم اپنی قومی فوج کو مضبوط کرنے میں اخلاقی کردار ادا کرنے سمیت عملی طور پر قومی جدوجہد کا حصہ بن کر دشمن ریاست کو بلوچستان سے بیدخل کرنے میں کردار ادا کرے تاکہ بلوچ قومی آزادی کی طویل منزل کی جانب مزید پیش قدمی کی جا سکے۔


دی بلوچستان پوسٹ : اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی ماننے والوں کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹ ورک متفقہ یا ان کے خیالات کے بارے میں پالیسیوں کا اظہار کرتے ہیں۔