اسماعیل ہنیہ کی قتل، فلسطینی ریاست کا قیام اور آخری حل
تحریر: امیر ساجدی
دی بلوچستان پوسٹ
اسماعیل عبدالسلام احمد ہنیہ 8 مئی 1963 کو مقبوضہ غزہ کی پٹی کے الشاطی پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوا اس نے غزہ کی اسلامی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی، جہاں وہ پہلی بار حماس کے ساتھ منسلک ہوئے اور 1987ء میں عربی ادب میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی۔ 1997ء میں حماس کے دفتر کے سربراہ مقرر ہوئے، بعد ازاں وہ تنظیمی ڈھانچوں کے مختلف صفوں میں شامل ہوئے اور اپنی قومی وجود کو بچانے میں کام کرتا رہا۔
اسماعیل ہنیہ ایک ایسا فلسطینی سیاست دان تھے جن کو وسیع پیمانے پر حماس کا مرکزی سیاسی رہنما (supreme mentor) سمجھا جاتا تھا۔ انھوں نے 2007ء سے 2014ء تک غزہ کی پٹی پر حکومت کی اور حماس کے پولیٹیکل بیورو کے چیئرمین بھی رہے ہیں. 2023ء سے اپنی موت تک وہ قطر میں مقیم رہے. وہ جیسے ہی ایران میں آیا اور اسرائیل کو اس چیز کا پتا چلا تو 31 جولائی 2024 کو ایران میں اسرائیلی وار جیٹ طیاروں نے حملہ کرکے اسے ہمیشہ کےلئے شہید کیا گیا۔ اسماعیل ہنیہ کی موت نے مشرق وسطی میں جنگ کو ایک ایسے مقام تک لے آیا ہے جو شاید ہمیشہ کے لیے ختم ہی نہ ہو.
مشرق وسطیٰ میں حالات دن بہ دن خراب ہوتے جارہے ہیں. ایران نے اپریل 2024 کو بھی اسرائیل پر ڈرون حملے کئے تھے اور ان حملوں کو فلسطینوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کا نام دیا گیا تھا. ستمبر کے مہینے میں حزب اللہ جنگجووں کے زیر استعمال پیجرز اور واکی ٹاکی کے دھماکوں نے ایک نئی تصادم اور شدت اختیار کی اور حزب اللہ نے دعوے کے ساتھ کہا کہ ان دھماکوں کے پیچھے اسرائیل کا ہاتھ ہے اور پیجرز اور واکی ٹاکی میں بارود پر مبنی چپ منسلک کیا گیا تھا. ان دھماکوں میں 44 لوگ ہلاک اور 3000 کے قریب لوگ زخمی ہوئے جن میں کچھ ایرانی سفیر بھی شامل تھے. یہ سب ہونے کے بعد پچھلے جمعہ کو امریکی فراہم کردہ بنکر بسٹر بموں کا استعمال کرتے ہوئے آئی ڈی ایف نے ایران کے حمایت یافتہ مزاحمتی گروپ کے رہنما حسن نصراللہ کو قتل کر دیا، جس سے پورے مشرق وسطیٰ اور اس سے باہر صدمے کی لہر دوڑ گئی. ایران نے اسماعیل ہنیہ کی قتل، لبنان میں واکی ٹاکی بلاسٹس اور حسن نصر اللہ کی بدلہ لینے کا عزم کرتے ہوئے 1 اکتوبر کے شام کو 180 کے قریب بیلیسٹک میزائل اسرائیل پر داغے اور ایران کے شہریوں نے جشن منایا اور اسرائیل مردہ باد کا نعرہ لگایا. میزائل حملوں کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے ایران کو پوری شدت کے ساتھ جواب دینے کا عزم کیا. برطانیہ کی وزیراعظم اور امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ سے لیکر یورپین یونین تک نے نہ صرف ایرانی حملے کا مذمت کیا بلکہ اسرائیلی پالیسی کو “ایکٹ آف سیلف ڈیفنس” کا نام دیتے ہوئے اسرائیل کو ہر طرح کی مدد کرنے کا عزم کیا گیا. ایران نے دعوے کے ساتھ کہا کہ اگر اسرائیل اور اس کے اتحادیوں نے واپس ایران پر حملہ کرنے کا سوچا تو حالات مزید خراب ہونگے. ایران کو اس وقت امریکی پابندیوں کا سامنا ہے مگر پھر بھی کافی حد تک اپنی نیوکلیئر پروگراموں پر کام کررہا ہے اور دعوی کے ساتھ کہہ رہا ہے کہ وہ آنے والے دنوں میں اسرائیل کو شکست دینے کےلئے نیوکلیئر پاور استعمال کرنے کےلئے پرعزم ہے۔
7 اکتوبر 2023 کو حماس کی جانب سے Operation Al Aqsa Flood لانچ کرنے کے بعد اسرائیل نے فلسطینی علاقوں کو ملیامیٹ کرنے کا عزم کیا ہے اور مرنے والے فلسطینیوں کی تعداد 35000 تک پہنچ چکا ہے اور 120000 کے قریب لوگ زخمی ہیں. دنیا کے جتنے بین الاقوامی اداراے اور تنظیمیں ہیں وہ سب امریکہ اور اسرائیل کے سامنے بے بس ہیں اور امریکہ ایک طرف مڈل ایسٹ میں امن لانے کی بات کرتا ہے تو دوسری طرف اسرائیل کو لبنان اور فلسطین میں بنکر بسٹر بمبز سپلائی کرکے جنگ کو مذید وسعت دینے پر زور دیتا ہے. جب تک امریکہ جیسے طاقتور ممالک مڈل ایسٹ میں امن لانے پر زور نہ دیں تو شاہد مڈل ایسٹ ہزار سالوں میں اس خونی جنگ سے نہ نکل سکے گا.
جہاں تک بات آخری حل کی ہے تو ایک بات واضع ہے کہ جب تک فلسطین کو بین الاقوامی سطح پر ایک آزاد اور خودمختاری ریاست کا درجہ نہیں ملا ہے تو فلسطینی اپنی خون کی آخری قطرے کو گرانے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے اور اسرائیل کے خلاف لڑتے ہیں گے. Operation Al Aqsa Flood سے پہلے رائیٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق فلسطینی نوجوانون (جن کی عمر 18 سے 24 سال ہے) نے 2019 اور 2022 کے درمیان Lions’ Den اور Jenin Brigades نام کی دو خفیہ تنظیمں بنائی ہیں اور کافی حد تک آئی ڈی ایف کے فوجیوں کی مارنے کا زمه دار ہیں جن کا مانگ صرف اور صرف اپنی سرزمین کی آذادی اور اسرائیلی فوج کا انخلا ہے. اسرائیلی بمب حملوں سے شاہد وقتی طورپر ان نوجوانوں کو شکست ہو مگر انہوں نے اتنا جبر اور ظلم سہلیا ہے کہ وہ کبھی بھی اسرائیل پر پھوٹ پڑ سکتے ہیں اور اپنی سر زمین کی آزادی کے ساتھ کسی طرح کے سمجھوتہ نہیں کرسکتے لہذا دنیا کو چاہئے کہ وہ (Two State Solution) پر عملدرآمد کرنے کا سوچھیں اور پوری وسطی ایشیا کو اس جنگ زدہ حالات سے نجات حاصل دلائیں. اگر یہ جنگ اسی طرح شدت اختیار کرتا رہا اور وسطی ایشیا میں جنگی بلاک بنتے رہے تو دنیا کو WW3 کا سامنا کرنا پڑے گا.
دی بلوچستان پوسٹ : اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی ماننے والوں کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹ ورک متفقہ یا ان کے خیالات کے بارے میں پالیسیوں کا اظہار کرتے ہیں۔