آپریشن ھیروف امید کی کرن ۔ شہسوار بلوچ

169

آپریشن ھیروف امید کی کرن 

تحریر ۔ شہسوار بلوچ 

دی بلوچستان پوسٹ

گوریلا جنگ عوام کی آزادی کا سنگ بنیاد تصور کیا جاتا ہے۔ اس جنگ کے بہت سے خصوصیات اور پہلو ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کے جنگ کے اپنے واضح اصول ہوتے ہیں اور جو بھی ان اصولوں کو رد کرتا ہے، وہ شکست سے دوچار ہوتا ہے۔ آزادی کی تحریکوں میں گوریلا جنگ مزاحمت کا ایک مرحلہ ہے جس میں دشمن کو تھکانے کے لیے چھپ کہ اس پہ وار کیا جاتا ہے۔ اسی لیے عام جنگی اصولوں کی طرح گوریلا جنگ بھی ان اصولوں سے مبرا نہیں ہو سکتا۔ جو ان حصولوں کا پابند نہیں ہوتا وہ شکست سے دوچار ہوتا ہے اور جو ان اصولوں کا پابند ہوتا ہے کامیابی حاصل کرنا اس کا مقدر بن جاتا ہے۔

ایسے ہی اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے ’’بلوچ لبریشن آرمی‘‘ ( بی ایل اے ) کے جنگی دستے مجید برگیڈ، ایس ٹی او یس اور فتح اسکواڈ کی جانب سے کوہ سلیمان سے مکران تک آپریشن ھیروف کا آغار کیا گیا۔ اس آپریشن کا آغاز ایس ٹی او ایس اور فتح اسکواڈ کے مرکزی شاہراہوں پر اسنیپ چیکنگ اور متعد پولیس، لیویز تھانوں پر قبضہ اور بیلہ کیمپ پر زور دار فدائی حملوں سے کیا گیا۔ اگلے کچھ ہی منٹوں میں شدید دھماکوں شدید فائرنگ کی خبریں بلوچ لبریشن آرمی کے آفیشل میڈیا ونگ کی جانب سے جاری ہوا جس کے مطابق بلوچستان بھر میں آپریشن ھیروف کا آغاز کیا گیا ہے۔

اس دوران بی ایل اے مجید برگیڈ ونگ کے دو فدائین بیلہ کیمپ حملہ کرکے آنے والے ساتھیوں کے لیے داخلی راستے کھول دیے۔ ازاں بعد مجید برگیڈ کے دیگر فدائین لمحوں میں کیمپ کے ایک حصے کو اپنے قبضے میں لے کر دو درجن سے زائد اہلکاروں کو جہنم وصل کر دیا ہے۔

یہ خبر مقبوضہ بلوچستان کے نشریاتی ادارے دی بلوچستان پوسٹ کے ذریعے سوشل میڈیا کے دوسرے ذرائع سمیت عالمی میڈیا کی زینت بن گئیں۔ بعدازاں بلوچستان بھر میں آپریشن ھیروف ہر زبان پر ورد کرنے لگا اور ہر حلقے میں بلوچ لبریشن آرمی کے سرمچاروں کی کامیابی کیلئے دعائیں مانگی گئی

دوسری جانب ایس ٹی او ایس اور فتح اسکواڈ کے وطن زادے بجلی کی طرح اہم شاہراہوں پر نمودار ہوئے۔ علاقائی ذرائع کے مطابق ہم مستونگ کے شہرکھڈکوچہ میں فٹال میچ ختم کرنے کے بعد فرسال کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک وردیوں میں ملبوس جدید ہتھیاروں سے لیس کچھ لوگ ہمارے پاس پہنچ گئے جن کی تعداد کنفرم نہیں بتا سکتا مگر تقریباً وہ ایک پلٹون کے برابر تھے اتنی تیزی کے ساتھ ہمارے پاس پہنچ گئے کہ ہم ہکا بکا رہ گئے۔ میں اسی کشمکش میں تھا کوئی ان سے بات کریں کہ فوراً ہی ان میں سے ایک نوجوان نے ہم سے براہوی زبان میں مخاطب ہوکر اپنا تعارف کرنے لگا کہ ہم بلوچ لبریشن آرمی کے سرمچار ہے یہ سنتے ہی ہماری جانوں میں جان آگئی اور ہم سکھ کی سانسں لینے لگے۔ اس کے بعد اس بڑی آنکھوں والے نوجوان نے ہم سے کہا آپ سب اپنے گھروں کی طرف واپس لوٹ جائیں، روڈ کی طرف نہ آئے، اپنے دوستوں اور دوسرے علاقہ مکینوں کو بھی روڈ کی طرف آنے سے منع کردیں۔ یہ میری زندگی کا پہلا لمحہ تھا کہ میں اتنے قریب سے بلوچ لبریشن آرمی کے سرمچاروں کو دیکھ اور سن رہا تھا۔ میرے لیے میری زندگی کے سب یادگار اور قیمتی لمحوں میں سے ایک تھا کہ مجھے سرمچاروں کو عوامی جگہوں میں باقائدہ وردی کے ساتھ دیکھنے کا موقع ملا شاید اس لمحے کا میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ کھڈکوچہ کے ایک فٹبال گراونڈ کے پاس مجھے سرمچاروں کو دیکھنے کا موقع ملے گا اور ساتھ ہی ساتھ میری یہ دلی خواہش بھی تھی کہ میں سرمچاروں کے ساتھ ان کے عظیم کاران میں شامل ہو جاؤں مگر پاس موجود دوسرے فٹبالروں کی وجہ سے میں اپنی اس خواہش کا اظہار نہ کر سکا ایسے ہی کچھ منٹوں بعد بلوچ لبریشن آرمی کے سرمچاروں کے حکم پر عمل کرتے ہوئے ہم وہ جگہ چھوڑ کر اپنے گھروں کی طرف لوٹ گئے۔

یقیناً بلوچ لبریشن آرمی کے سرمچاروں کو آپریشن ھیروف کے ان تمام رستوں کی جانکاری حاصل تھی کیونکہ یہ گوریلا جنگ میں انتہائی ضروری ہیکہ تمام رستوں سے واقفیت ہونے چائیے حملہ کرنے کیلئے تمام رستوں اور ٹھکانوں اور عوامی تعاون کی معلومات ہونی چاہیے۔ ان باتوں سے جانکاری ہی تھی کہ آپریشن ھیروف میں سرمچاروں کو بھرپور عوامی حمایت حاصل ہوئی جس کی دلیل ان کی کامیاب کاروائی تھی۔

ماوزے تنگ کی بغاوت کی ابتداء چین کے شہروں سے ہوئی جنہیں دشمن نے ابتدا ہی میں کچل دیا اور جب انہوں نے اپنا انقلابی مرکز دیہاتوں میں قائم کیا تب جا کر انہیں تقویت حاصل ہوئی۔ ایسے ہی بلوچ لبریشن آرمی کا کاروان جنرل اسلم چیرمین بشیر زیب کی سربراہی میں سرلٹ اور شور پارود کے غاروں سے نکل کر عوام کے درمیان پہنچ گئے ہیں جنے کچلنا اب پاکستان کے بس کی بات نہیں۔ کہتے ہے چاپہ مار جنگ کا ایک منظم جنگ (روایتی) میں تبدیل ہونا کوئی آسان کام نہیں مگر بلوچ لبریشن آرمی اپنے عظیم شہیداء کی قربانیوں کے سنگ ایک منظم جنگ کی جانب گامزن ہے جو امیر الملک، شہید دلجان، شہید شکور جان، شہید عبدالحئی، شہید ماما مندو، شہید حق نواز، شہید ریحان، سمیت دیگر تمام شہیداء کی قربانیوں کا ثمر ہے۔

جنگ کے بنیادی اصولوں میں سے ایک یہ بھی ہیکہ دشمن کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور دشمن سے ایک قدم آگے رہنا چاہیے ویسے بھی بلوچ لبریشن آرمی کے جنگی اصولوں کو دیکھا جائے تو بہ آسانی اندازہ ہوتا ہیکہ بلوچ لبریشن آرمی ہر وقت دشمن سے ایک قدم آگے رہتا ہے اور دشمن پر وہاں سے وار کرتا ہے جہاں دشمن خود کو محفوظ سمجھتا ہے اور وہیں پہ وہ ایک بڑے حملے کا شکار ہوتا ہے۔

یہ بھی گوریلا جنگ کا ایک اہم پہلو ہیکہ کے دشمن کے حصار میں آنے سے بچنے کے لیے اپنا علاقہ تیزی سے بدلا جائے۔ آپریشن ھیروف میں شامل بلوچ لبریشن آرمی کے تمام دستے اسی اصول پہ کارفرما ہوئے لہذا آپریشن ختم ہونے کے بعد بہترین حکمت عملی کے تحت دشمن کے گھیرے میں آنے سے بچنے کے لیے تیزی اور پھرتی کے ساتھ علاقے بدل ڈالے، جس سے دشمن کے فضائی آلات بھی بے بس ہو کر ہمت ہار گئے جو بلوچ لبریشن آرمی کی بہترین جنگی حکمت عملی پہ دلالت کرتی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ : اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی ماننے والوں کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹ ورک متفقہ یا ان کے خیالات کے بارے میں پالیسیوں کا اظہار کرتے ہیں