آزادی کی مانگ — قلم، بندوق اور نت نئے حکمت عملی
تحریر: مہر شنز خان بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
جنگ، بالعموم، اور آزادی کی جد و جہد بالخصوص کثیر الشکل حکمت عملی اور فرنٹ پہ لڑی جاتی ہے۔ غلامی کے زنگ آلود زنجیریں نہ صرف اکیلے جنگی میدان میں بندوکوں کی گرج سے ختم ہوتے ہیں نہ اکیلے کمرے میں بند لکھاری کے اپنے خیالات کو لفظوں کے کالب میں پرونے سے، بلکہ یہ منظم طریقہ کار کا متلاشی ہے کہ جہاں مائیں اپنے بیٹوں کو اپنے غلام قوم کی آزادی کیلئے قلم اور علم سے آشنا کرائیں بلکہ کلاشنکوف کی کڑکدار نلی کے پیچے بیٹھ کر اسکی سمت کا رخ متعین کرانے جیسے فنون سے بھی آشنا کرائیں۔ ان جیسے ماؤں کو کیا صرف درد کی بٹی میں جھل کر سینکنے کے بعد یہ شعور ملتا ہے یا بلوچ کے پیدا کردا روایات اور ان سے پھلنے والی وطن دوستی سے نکلی مہک ہی کافی ہے کہ وہ ماؤں کو اپنے لخت جگروں کو بڑھاپے کی لاٹی کے بجائے بلوچ سرمچاری کا درس دیں، میار جلی کا درس دیں، اپنوں کیلیے فنا ہوکر بھی انکے دلوں میں زندہ رہنے کا درس دیں، دشمن سے دوبدو لڑائی میں سینے پہ گولی کو اپنے محبوبہ کے ہونٹوں کی طرح چھوم کر امر ہونے کا امرت پی لینے کا درس دیں۔ یہ اس سوچ کے سپوت ہیں جو دشمن کو دشمن کے منہ پہ دشمن ہی کہنے کو اکساتی ہے، اور اپنے حق کی خاطر زندگی کے دیے کو ہماوسیہ کے شام کی مانند جان کر دیے جلانے کیلئے محو سفر کرانے کو اکساتی ہے۔ یقینا! دین و دنیا کے درمیان عشق وطن اور لزت ء زند سے تفاوت کرنے کے جذبے کا نشا بھی تو عاشق دیوانے کو پہاڈوں کا شہزادا بناکر دم لیتا ہے۔ درد کے انگنت پہاڑوں کی وادی میں خون کے ریگستان میں آجوئی کے نخلستان کے متلاشی ہی بولان و چلتن کے حسین وادیوں کو دلہن سمجھ کر جہد آجوئی کے گھوڑے پہ سوار ہوکر شہزادوں کی لڑی میں بطور دولہا شہید ہوتے ہیں، اور ان امر ہونے والوں سے وطن کی ہوائیں بھی بوسہ نشینی کیلئے ترستی ہیں۔ جزبات اور غصے سے پرے وطن زادے نظریات سے لیث پر خطر زندگی سے ٹکرانے کی جرت رکھنے والے دل کے مالک ہوتے ہیں۔ یہ نظریہ ہی ہے کہ انہیں اپنے وطن کی مٹی پہ ظلم سے ٹکرانے والی ہر ایک حرکت انقلابی کے جد و جہد کی کڑی نظر آتی ہے۔ اگر ایک چرواہا اپنی ریوڑ کا رخ صرف اس وجہ سے فوجی چوکی کی طرف جانے کے بجائے موڑ کر لمبا رستہ طے کرنے کی ٹھان لیتا ہے کہ وہ اپنے مال مویشیوں کے دودھ یا کسی اور شے کو فوجی کے بجائے کسی پٹے پرانے کپڑے پہنے جنگجو سرمچار کو پلا کر زہنی سکون حاصل کرنا چاہتا ہے تو یہ بھی انقلابی عمل ہے، کیونکہ یہ اس نفرت کو خود پہ سختی سہ کر اپنے ہی زہن کو سکون دلانے کے پرچار کرنے کہ رونمائی ہے۔ اور اگر ایک عام سا طالب علم جو دشمن کے دھونس دھمکی کی وجہ سے یا اٹھائے جانے کے ڈر سے اپنی شناخت چھپا کر وطن کے درد کو اپنے الفاظ کے کالب میں ڈھال کر آشکار کر رہا ہے تو یہ بھی اسی مہک دار سوچ کے ماننے والے ہیں جو دشمن کو اپنی سرزمین پہ ایک لمحہ برداشت کرنے کی بجائے ان پر کڑکدار بجلی بن کر گولا بارود برساتے ہیں۔ اگر ایک بلوچ ماں اپنے بیٹے اور بیٹیوں کو اس وجہ سے پڑھانا چاہتا ہے کہ وہ آگے چل کر بلوچ وطن کی خدمت کریگا اور ضرورت پڑنے پر ان کے سامنے چار الفاظ ظلم کی داستان سے اقتباس کہانیوں کے گنگنا کر کہے گا تو یہ بھی انقلابی روایات کی روح سے جہد مسلسل کے مہار کو اپنے دوسرے فرزند بھائیوں اور بہنوں کو منتقل کرنے کے عمل کی ایک پرجوش اور ولولہ انگیز کوشش ہے۔
رابرٹ پیپ (Robert Pape) جس نے 1985 سے لیکر 2005 تک تقریبا 305 خود کش کیسز کا مطالعہ کیا اور وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ “ایسے کیسز میں مزہب کی مداخلت بہت ہی قلیل ہے، ان میں بیشتر خود کش حملوں کا مقصد اپنی سر زمین کو اپنے ہی شناخت اور تشخص کیلئے محفوظ رکھنا ہے.” ماہل جو حمل جیئند کی سر زمین سے ایک سیاسی اور شعور یافتہ خاندان سے تعلق رکھنے والی پڑی لکھی لڑکی تھی جو فلسفہ زندگی، نظریہ انقلاب، تحریک انقلاب اور غلامی کے زنگ زدہ زنجیروں سے بندھے زندگی کی مشکلات اور انکے اثرات سے بہت خوبی سے واقفیت رکھتے ہوئے شعور کے آخری درجے کی سیماوں کو چو کر امر ہونے کی ٹھان لیتا ہے۔ اسکے حتمی فیصلے سے اسکی شعور کی سیماوں کا پتہ ملتا ہے۔ وہ نا صرف میگسم گورکی (Maxim Gorki) بلکہ فرانز فینن (Frantz Fannon)، کافکا (Kafka)، جین پال سارتر (Jean-Paul-Sartre) اور دوسرے فلسفیوں سے آشنا زندگی کی آسائشوں سے پرے ہوکر اپنے ملک و وطن کا سوچ کر لوچ و لنگڑ بزگروں، دشت و بولان میں مال مویشی پالنے والے پاہوال (مالدار بلوچ جو مویشیاں پال کر زندگی گزارتے ہیں)اور وڈیروں اور سرداری نظام میں پسے ہوئے بلوچ قبائل کو آزاد کرنے کا سوچ کر پنجابی اور چینیوں کو اپنی پیاری سی آواز کے ساتھ مسکرا کر کہتی ہے کہ یہ کاروان اٹوٹ اور نا کمزور ہونے والے فلسفے پر گامزن جنرل اسلم، اور شعور سے لیث شاری جس نے اپنی پر آسائش زندگی کو آزادی کی نزر کر کے غلامی کی لعنت کو اپنے جہد مسلسل کے عمل سے روند ڈالا، اور سمول جس نے اپنے محبوب وطن کی خاطر اپنی جوانی میں بارود سے بھرے جیکٹ کو کیچ کی پر کشش سرزمین پر ظالم کو اڑانے کیلئے باندھا اور مکران کی ہواؤں اور صبح کے سمین اور رات کی مہکدار ہوا میں تحلیل ہوگئی وہ اسی فلسفے کی پرچار ہے۔ ماہلو یہ جانتی تھی کہ آدھے ٹن سے زیادہ بارود کو وہ اپنی گاڑی میں اپنے تھکے ہوئے جسم کے ساتھ چلا کر جب دشمن کے سنگلاخ دیواروں اور چوکیوں سے ٹکرائے گی تو اس وقت وہ خود تو بلوچ مادر وطن کی ہواؤں میں عشق اولی اور آخری تمنائے جیون حاصل کر کے وہ اصل زندگی کی طرف گامزن ہوگی، لیکن دشمن کو انکے ہی محفوظ ٹھکانوں میں چیخ و پکار کی گونج کو تحفے میں دیکر ایک تاریخی معرکے کے شروعات کی صور پھونکے گی جسے دنیا “آپریشن ھیروف” کے نام سے لکھے گی اور بلوچ شاعر اپنے گیتوں کی زیبائی میں اسکو لکھیں گے، اور مائیں اپنے اولادوں کو جھولے میں لوریوں میں ھیروف کی داستان سنا کر انکو بلوچ روایات اور وطن پرستی کی صدائیں دیکر پالینگی۔
1630 سے لیکر 1947 تک 75 فیصد تحریک آزادی (liberation movements) اور بغاوتیں (Mutiny) نا کام ہوئی ہیں جنکی سب سے بڑی وجہ ان ٹیکنالوجی اور جدید ہتھیاروں (Modern weaponary) کی کمی کی وجہ سے ہوئی ہے جن سے گوریلہ جنگ تقریبا نا ممکن ہوا کرتی تھی۔ لیکن جب کلاشنکوف (Kalashnikov) 1947 میں ایجاد کی جاتی ہے تو اس کے بعد سے ابتک تقریبا 75-85 فیصد جنگ آزادی کامیابی سے ہم کنار ہوئی ہیں۔ اسکی وجہ ایک محفوظ فاصلے اور دشمن کو ایسے کاری ضربیں لگانا ہے کہ ان کو گمان تک نا ہو اور بدلے میں وہ اپنے اوپر حملہ آور ہونے والے کا نام و نشان تک نا دیکھ پائے تو ایسی صورت حال میں دشمن حواس باختہ ہوکر عام آبادی کو نقصان پہنچاتی ہے۔ اور اپنی پالیسیوں میں ایسے حرکت رونما کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے کہ وہ چاہ کر بھی لوگوں کو خود سے دور کرنے سے نہیں روک سکتا۔ مارو اور پھینکو، اٹھاؤ اور غائب کرو، علاقے میں کمزور کو بندوک بردار کرنا اور سفید ریش مہزب لوگوں کو انکے بندوک کی نلی کے ما تحت کرنا اور خود قانون سے ماورا ایسی حرکت کرنا کہ قانون اور عمرانی معاہدوں کی دھجیاں اڑاتی ہوئی دکھائی دے، تو سمجھ لیں کہ ریاست اب اپنی زندگی کو مزید سرد ہوا دینے سے قاصر ہے اور وہ اب دارو درمان سے زندگی کو برقرار نا رکھتے ہوئے اسے کھینچ کر سانسیں مہیا کر رہی ہے۔
بدلتی چالوں، رازداری اور نا پیشن گوئی ہونے والے حملوں سے دشمن بے زار ہو کر کچھ ایسا کر بیٹھتا ہے کہ اسکے اپنے ہی لوگ اس سے دور تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ چائنیز شاؤلن اپنی کلا بازی کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے صحیح وقت پر حملہ کرنے کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ یہی ٹائمنگ ہے کہ وہ شاؤلن کو ایک ٹھڈی کو تلوار سے مارنے کے قابل بناتی ہے۔ آزادی کی تحریکیں نہ تو صرف کلاشنکوف کی گونج سے ملتی ہے نہ ہی اکیلے چیخ و پکار سے، بلکہ جہد آجوئی کلاش و قلم کے اس ملاب سے ملتی ہے کہ کلاش کی گونج کانوں کے ساتھ ساتھ آنکھوں کو قلم کے زریعے کسی جرنل، کتاب، میڈیا یا تحریر و تقریر کے زریعے گونجتی ہوئی دکھائی دے۔
دی بلوچستان پوسٹ : اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی ماننے والوں کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹ ورک متفقہ یا ان کے خیالات کے بارے میں پالیسیوں کا اظہار کرتے ہیں