کوئٹہ: سیکیورٹی کے نام پر فورسز سالانہ 45 کروڑ لینے کے باوجود امن قائم کرنے میں ناکام ہے۔ نواب ایاز جوگیزئی

212

پشتونخوامیپ کے رہنماء نواب ایاز خان جوگیزئی و دیگر نے کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہاکہ دکی میں مزدوروں کا قتل دلخراش واقعہ ہے۔ مزدوروں کا قتل واقعہ کی مذمت کرتے ہیں۔واقعہ میں 21 مزدوروں شہید اور 8 کے قریب زخمی ہوئے ۔

انہوں نے کہاکہ دکی واقعہ پہلا اور آخری نہیں آئے روز واقعات میں اضافہ ہورہاہے ۔مختلف علاقوں میں حملوں میں تیزی آرہی ہے ۔پہ در پہ واقعات ہونا تشویشناک ہے ۔

انہوں نے کہاکہ امریکہ میں ایک پولیس والے سیاہ فام کو قتل کیا تو سارا امریکہ اٹھا کھڑا ہوا۔امریکہ میں ایک پولیس اہلکار کی جناب سے بےگناہ سیاہ فام کے قتل پر صدر جو بائیڈن نے گھٹنے ٹیک دیئے۔

انہوں نے کہاکہ جب سے یہ ملک بنا ہی پیچھے جارہاہے ۔ایٹم بم تو سویت یونین کے پاس بھی تھے لیکن وہ 14 حصوں میں بٹ گیا ۔یہ ایک چار صوبوں سے بنا فیڈریشن ہے ۔

انہوں نے کہاکہ ہر ادارے تباہ ہوچکا ہے عدلیہ اور ایجوکیشن سسٹم تباہ ہوچکا ہے۔ہم سیاست دان روڈ پر ایک دوسرے کو گھسیٹنے کی باتیں کررہے تھے آج یک ہوگئے ۔ملک میں ہم قرضے لیتے ہیں اور ہم خوشی مناتے ہیں ۔

انہوں نے کہاکہ 76 سال سے اس ملک میں چھوٹے قوموں کے ساتھ استحصال ہورہاہے۔قرضے پورے ملک کیلئے آتے ہیں لیکن استعمال پنجاب میں ہورہے ہیں۔ہم جانوروں سے بھی ابتری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔

انہوں نے مزید کہاکہ آج ہمارے بچے بھی محفوظ نہیں ہے۔ریاست کی وجہ سے ہمیں ایٹم بم حملے جیسے نقصانات کا سامنا ہے ۔ہمیں اس ملک میں نوکروں سے بھی ابتر طریقے سے ٹریٹ کیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہاکہ اس ملک میں ہمارے لیے زندگیاں گزارنا مشکل ہوگیا ہے، دکی واقعہ کے بعد بھی ہمیں یہ نہیں بتا سکتے کہ آئندہ ایسا واقعہ نہیں ہوگا۔

انہوں نے کہاکہ فام 47 والے دکی واقعے کے بعد وہاں گئے تھے لیکن ان بیچاروں کے پاس اختیار ہی نہیں ہے۔

انہوں نے کہاکہ ہم بی ایل اے قیادت سے بات کرینگے ،کہ بلوچ پشتوں صوبہ میں ہم کس طرح رہیں گے، بلوچ خود مظلوم ہیں ، ایک سوال کہ جواب میں انکا کہنا تھا کہ بی ایل اے قبولیت کی جعلی لیٹر ہے۔

انہوں نے کہاکہ سیکیورٹی کے نام پر ایک سیکیورٹی ادارے کو سالانہ 45 کروڑ روپے دے رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ صرف دکی اور ہرنائی اضلاع میں ان کے میں ایسا ساتھ کیوں ہو رہا ہے یہ ٹیکسسز صرف ہم پر کیوں لاگو ہیں بلوچستان کے باقی حصہ میں ایسا کہیں نہیں ہے۔