عظیم جان! تیری یادوں کے سہارے تجھے تلاش کرتی ہوں – رخسانہ دوست بلوچ

147

عظیم جان! تیری یادوں کے سہارے تجھے تلاش کرتی ہوں

تحریر: رخسانہ دوست بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

جب سے میرے بھائی عظیم دوست بلوچ کو 3 جولائی 2015 کو گوادر سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا، ہماری زندگیوں میں ایک ایسی کالی رات کی ابتدا ہوئی جس کی روشنی کبھی واپس نہیں آئی۔ یہ صرف ایک فرد کی گمشدگی نہیں، بلکہ ایک پورے خاندان کے سکون کا خاتمہ ہے۔ ہم جیسے دکھی دلوں کے لیے، اس سانحے نے ایک بھونچال کی صورت اختیار کر لی ہے، جس کے اثرات ہماری زندگیوں پر ہر پل محسوس ہوتے ہیں۔

عظیم کی یادیں ہماری ماں کی آنکھوں کی چمک اور دل کی دھڑکن ہیں۔ جب وہ اس کی تصاویر دیکھتی ہیں، تو ایک ماں کی محبت، اس کے درد کی شدت میں ڈھل جاتی ہے۔ اس کی آہیں اور سسکیاں ایک ایسے گیت کی مانند ہیں جو کبھی ختم نہیں ہوتا۔ “بھائی، آپ کہاں ہیں؟” یہ سوال نہ صرف ماں کا ہے، بلکہ ہمارے دلوں کی بھی پکار ہے۔ آپ کی یادوں کا یہ طوفان ہماری زندگی کی خاموشی کو توڑتا ہے، لیکن ساتھ ہی ایک خلا بھی چھوڑتا ہے جسے بھرنا ناممکن ہے۔

آج مجھے میرے بھائی عظیم جان کی ایک اور یاد ملی، جو میری اور میری بھائی کی زندگی سے منسوب ہے۔ میں اس کارڈ کو دیکھ کر کچھ لمحوں کے لیے اپنے آپ سے باتیں کرتی رہی اور سوچتی رہی۔ مجھے یاد ہے بچپن میں ہم دونوں ایک ساتھ مدرسہ جایا کرتے تھے۔ جب سڑک پہ پہنچ جاتے تو میں ڈرتی تھی اور عظیم جان میرا ہاتھ پکڑتا تھا تاکہ مجھے کوئی نقصان نہ پہنچے۔ اور جب آج میں اپنے آپ کو دیکھتی ہوں، تو میں بہت بہادر ہوں۔ اب میں عظیم جان کو ڈھونڈنے کے لیے میلوں میل تنہا سفر کرتی ہوں، کبھی شال، کبھی کراچی، اور کبھی اسلام آباد۔ مجھے نہیں پتہ میرا بھائی کہاں ہے اور کس حال میں ہے، مگر میں اسے بتانا چاہتی ہوں کہ عظیم جان، اب میں وہ ڈری ہوئی رخسانہ نہیں رہی۔ اب میرا ہاتھ پکڑنے والا کوئی نہیں ہے۔

عظیم جان! سمندر کی لہریں، جو کبھی گونجتی تھیں، آج خاموش ہیں۔ ان کی خاموشی میں ایک درد چھپا ہے، جیسے بے آواز دکھ کی کہانی سناتی ہوں۔ جب بھی میں زرپہازگ جاتی ہوں، اس کی خاموشی مجھے گوادر کے بیگواہ ہونے والے بچوں اور شہیدوں کی غم کا احساس دلاتی ہے۔ ان کی سرگوشیوں میں ماضی کی خوشبوئیں بکھری ہیں، لیکن اب صرف خاموشی ہے، جو دل کو چیر دیتی ہے۔ پانی کی سطح پر ایک ہلکی سی لہریں بھی، جیسے دل کے زخموں کا سراغ ہیں۔ ہر جھٹکے کے ساتھ، کچھ یادیں ڈوب جاتی ہیں، اور ہر خاموشی میں ایک نئی گمشدگی کا احساس ہوتا ہے۔ یہ سمندر، جو کبھی زندگی کی علامت تھا، اب غم کی ایک وسیع چادر میں لپٹا ہوا ہے۔

ہماری خوشیاں، جو کبھی خوشبو کی مانند ہوا میں بکھرتی تھیں، اب آنسوؤں کی بارش میں ڈھل چکی ہیں۔ عیدیں، جو خوشیوں کا پیغام لاتی تھیں، اب ماتم کی صورت اختیار کر گئی ہیں۔ ہر خوشی کی محفل میں، عظیم کی غیرموجودگی کا احساس، ہم سب کی خوشیوں کو چوری کر لیتا ہے۔ عید کی صبح، جب ماں آپ کی تصویر کو چومتی ہیں اور پوچھتی ہیں، “میری عظیم کہاں چلا گیا؟” تو یہ سوال دراصل ایک گہرا فلسفیانہ مسئلہ بن جاتا ہے: محبت، فقدان، اور انسانی وجود کا مقصد۔

یہ صرف ایک سیاسی مسئلہ نہیں، بلکہ انسانی جذبات کا بھی معاملہ ہے۔ جبری گمشدگیاں نہ صرف انفرادی زندگیوں کو متاثر کرتی ہیں، بلکہ ایک قوم کی روح کو بھی مجروح کرتی ہیں۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہر ایک گمشدہ فرد کے پیچھے ایک کہانی ہے، ایک درد ہے، جو ان کے خاندان کے لیے ایک عذاب بن جاتی ہے۔

آج، جب ماں کمزور ہو رہی ہیں، اور گھر کی سکون ختم ہو چکا ہے، ہم ایک بے بس گواہ بن کر رہ گئے ہیں۔ عظیم، آپ کی موجودگی کا لمس اب ہماری زندگیوں سے غائب ہے، لیکن آپ کی یادیں ہمیں ہمت دیتی ہیں۔ ہم آپ کو بھول نہیں سکتے، نہ کبھی بھولیں گے۔ آپ ہمارے دلوں میں زندہ ہیں، اور ہم آپ کی آزادی کے لیے لڑتے رہیں گے، چاہے یہ لڑائی کتنی ہی مشکل کیوں نہ ہو۔

اب میں آپ کو ڈھونڈنے کے لیے ہر جگہ جاتی ہوں، ہر ریاستی ظلم اور جبر کا ڈٹ کر سامنا کرتی ہوں۔ اب میں بہت بہادر اور ایک مضبوط بہن بن گئی ہوں۔ میری دعا ہے کہ ایک دن، ہم آپ کو دوبارہ پا سکیں، اور یہ درد، یہ غم، یہ سوالات ختم ہو سکیں۔ یہ ہماری امید ہے، یہ ہماری زندگی کا مقصد ہے۔ آپ کہاں ہیں، بھائی؟ ہم آپ کے انتظار میں ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ : اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی ماننے والوں کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹ ورک متفقہ یا ان کے خیالات کے بارے میں پالیسیوں کا اظہار کرتے ہیں۔