عصرِ انقلاب: میزانِ مخلص و مفاد پرستگان ۔مہر شنز خان بلوچ 

273

عصرِ انقلاب: میزانِ مخلص و مفاد پرستگان

تحریر: مہر شنز خان بلوچ 

دی بلوچستان پوسٹ

‏وحشت پرستگان ہوں یا دہشت زدہ، مفاد پرست ہوں یا شرح جنون، قوم پرست ہوں یا مجنون مزہبی انکی ایک مشترک فطرت ہوتی ہے کہ اپنی زہنی تسکین کیلئے وہ حالات و واقعات کو دیکھ کر حکم کے اکے پھینکتے ہیں۔ جب وقت کی سوئی انکے خلاف گھوم رہی ہو تو کم ہی ایسے جان نثار و پر خطر کھلاڑی ہوتے ہیں جو اپنے ستاروں کی الٹی گردش کے باوجود اپنا داو لگا کر امید کی کرن کو زندگی کی چند سانسیں مہیا کر سکیں۔ ایسی فطرت کا وجود ہی رکھنا قدرتی مہربانی ہوتی ہے۔ جبکہ حالات کو اپنے خلاف دیکھ کر مکھر جانے والی فطرت انسانی گوشت و پوست میں پیوست ہوتی ہوئی ماں کی کھوکھ سے ملتی ہے۔ لیکن کسی مقصد و نظریے کی بنیادیں اتنی مضبوط ہوں کہ وہ اپنے نشیب میں بھی اپنے پیرو کاروں کیلئے میکناطیس کی طرح طلسمی کشش رکھتی ہو۔ نظریہ دینی ہو یا سیاسی، سماجی ہو یا معاشی بعض اوقات مضبوط و پر کشش ہونے کے باوجود ایسے ٹولے کی نزر ہو جاتا ہے جو خطرے کی آہٹ سے بھی خود کو محفوظ رکھنے کی غرض سے اپنے مقصد سے روگردانی کرتے ہیں۔

‏جب انسان محفوظ ہو، اسکے مفادات کو کوئی خطرہ لاحق نا ہو، جب اسکے نام کے ساتھ سماجی و سیاسی ناقد اسکی سکوت و کمزور طبع کی وجہ سے خاموش ہوں تو انسان ویسے بھی تاباں نہیں ہوتا۔ نا اسکا قلم، نا اسکا دل اس بات کو سوچتا ہے اور پریشان ہوتا ہے نا اسکا زہن اس بات کی طرف متوجہ ہوتی ہے کہ اسکے ساتھ ایک نا پسندیدہ عمل ہونے والا ہے۔ ایسے نرم و فروزاں و پر کشش دور میں جب خطرے مولے بغیر کوئی مفاد کی تکمیل کو ہوتا ہوا دیکھ سکتا ہو تو اسکا اس جہد میں آنا اور شامل ہونا ایک فطری عمل ہے۔ انسانی نظریے، ذہنیت و مضبوطی کا امتحان تب شروع ہوتا ہے جب اسکو فراز کے ساتھ نشیب کی داستان کے ساتھ ساتھ اسکے نتائج کا بخوبی علم ہو اور وہ نا خوش گوار ہوں۔

‏حقیقت سے منہ پھیرنا، تحقیقی بنیادوں پر کی جانے والی تنقید و تجربات سے حاصل شدہ نقصانات کو نظر انداز کرنا اور اپنی انا، بغض ناقدین ساتھیوں اور طاقت و اختیار کو کھونے کے خوف سے خود کو تنظیمی ڈھانچے سے ماورا کرنا اور ڈسپلن کے ما تحت ہونے سے گھبرانا اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ ایسے لوگ صرف اپنی ذاتی مفاد اور تا ابد مقتدر ہونے کی خواہش لیے تحریکوں کا حصہ بنتے ہیں۔ جب انہیں اس بات کا اندیشہ ہو کہ تنظیمی ڈھانچہ، ڈسپلن کی یکساں نفاذ اور سزا اور جزا کے تعین کا تنقیح شدہ اور آزمودہ اصولوں پر استوار جواب دہی نظام انکے اختیارات کو چھینے اور اسکی زاتی مفادات سے پرے قومی اور اجتماعی مفادات کی بات کرے تو وہ خوف نقص میں اپنے نام نہاد جہد سے روگردانی ہوکر حقیقی جہد کو نقصان پہنچاتے ہیں۔

‏کسی بھی تحریک میں تنقید کا فقدان اسکی اصولی اور سائنسی بنیادوں پر ہونے والی ترقی کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرتی ہے۔ اگرچہ لوگ مخلص ہوں، لیکن انکی سمت کا تعین ہمیشہ تنظیمی ڈسپلن، علاقائی سیاست اور دشمن کی قوت و پالیسی کو مد نظر رکھ کر کی جاتی ہے، اور اگر دشمن کے خلاف یہ پالیسی نا کام ہوں یا کسی خاص مدت تک ایک خاطر خوا نتیجہ دینے سے قاصر ہوں تو اس کیلئے ناقدین کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں انسان دو طرح سے گھرا رہتا ہے، ایک تو اپنے زاتی مفادات پر اجتماعی مفادات کے تقابل کی صورت میں کسی ایک کا انتخاب کرنا، اور دوسری اسکی سیاسی اور اختیار داری کے معاملات میں تنظیمی ڈھانچے کے اندر حیثیت کا تعین کرنا۔ اگر مفادات کا ٹھکراؤ اس حد اس کیلئے زاتی طور پر نقصان دہ ہو کہ دشمن کی طرف سے مختص کردہ مراعات بطور لالچ، رشوت، انکے جہد سے روگردانی کے عوض، زیادہ ہوں تو لالچی اور مفاد پرستوں کے قدم ڈگمگا جاتے ہیں۔ اس وقت حقیقی انقلابی و مخلص ساتھیوں کا گروہ خود کو یکجا کر کے متحدہ فرنٹ کی صورت اختیار کر کے ثابت قدم رہتے ہیں۔

‏بقول مارکس اور میکس ویبر، انسان ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ کسی نا کسی شخصی فائدے یا مسئلے کے اوپر کش مکش میں رہتا ہے۔ انکے لیے انکے زاتی مفاد اس حد تک عزیز اور ضروری ہوتے ہیں کہ وہ اپنے قریب سے قریب تر رشتے داروں تک کے ساتھ کسی نا کسی جھگڑے میں پڑے رہتے ہیں۔ لیکن اگر اسکے بر عکس ایک انسان زاتی مفادات سے ماورا سوچ کر خود کو اجتماعیت کیلئے نزر کرتا ہے تو وہ انسانی بقا اور قومی باقیات کیلئے جہد کرنے والے دیدہ ور اور جاوداں روحوں میں شمار ہوتا ہے۔ کسی بھی تحریک میں اونچ نیچ، نشیب و فراز اور اچھے اور برے حالات کا آنا ایک مانی ہوئی بات اور تجربات پر مبنی عمل ہے۔ یہ وقت تحریکوں کیلئے سمندر میں طغیانی کی مانند ہوتی ہے جب سمند اپنے موجوں میں مست ہوتی ہے تو وہ خود کے اندر سے نا خوش گوار اور کچھروں کے ساتھ ساتھ مردہ حیوانوں کو نکال باہر پھینکتی ہے۔ عین ویسے ہی تحریکوں میں نشیب کی صورت میں کمزور دل، جہد سے تھکے ہارے ساتھی، نظریات کی بجائے جزبات کی بنیادوں پر شامل ہونے والے ساتھی اور مفاد پرستوں کا ٹولہ کنارہ کش ہوتا چلا جاتا ہے۔ ایسی صورت میں نظریاتی ساتھی گھبراہٹ کی بجائے منظم اور نت نئے حکمت عملی سے نا صرف خود کو اپنے روگردانی ساتھیوں کے نقصان سے بچا سکتے ہیں بلکہ دشمن کے ساتھ دماغی حوالے سے کھیل کر انکو شکست سے دوبار کی جا سکتی ہے۔

‏جب راستے ہموار ہوں، اپنا پلڑا بھاری ہو، دشمن آپکو ایک فریق اور اسٹیک ہولڈر تسلیم کرے، ایسی صورت میں لوگ جوق در جوق تحریکوں میں شامل ہوتے ہیں۔ انسان اپنی فطرت سے مجبور ہوکر اپنے لیے نام کمانے کیلئے نکلتا ہے یا زندگی کی مراعات کیلئے جہد کا حصہ بنتا ہے، یا اپنی زندگی کی سہولیات کو کھونے کے ڈر سے جس فریق کا پلڑا بھاری ہو اس جانب اسکا جھکاؤ ہوتا ہے۔ ایسے نیم انقلابی اور مفاد پرستوں کیلئے عصر انقلاب ہی ایک امتحان کی حیثیت رکھتا ہے۔ جب جبر و ظلم کے پہاڑ ڈھائے جا رہے ہوں، اور ظلم و بر بریت کے تند و تیز ہوا چل رہے ہوں تو حقیقی اور مفاد پرست، نظریاتی اور جزباتی، مخلص و دھوکے باز، غم خوار اور ڈھونگی، شاطر اور سیدھا، انقلابی و نیم انقلابی کے ساتھ ساتھ دوست نما دشمن اور نادان و بدھو لوگوں کا پتا چلتا ہے۔ دشمن جتنا بھی تیز ہو، جب تک اسے مقبوضہ قوم کے اندر سے آلہ کار مہیا نا ہوں وہ اپنے قبضے کو برقرار رکھنے کا سوچ بھی نہیں سکتا ہے۔ یہ بس تحریکوں کے نشیب و فراز ہیں جو دوست و دشمن کی نشان دہی کرنے میں پیش پیش ہوتی ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ : اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی ماننے والوں کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹ ورک متفقہ یا ان کے خیالات کے بارے میں پالیسیوں کا اظہار کرتے ہیں