Blitzkrieg Strategy اور بلوچ سرمچاروں کی حکمت عملیاں
تحریر: البرز بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلٹزکریگ اسٹریٹجی (Blitzkrieg Strategy) وہ اسٹریٹجی ہے جس میں کوئی فوج یا مزاحمت کار اچانک اور تیزرفتاری سے مختلف اطراف سے دشمن پر انتہائی منظم انداز میں حملہ کرکے اس کے صفحوں میں افراتفری پیدا کرکے اسے شکست دے۔ یہ جرمن زبان کا لفظ ہے جس کے معنی رفتار و اچانک حملہ کے ہیں۔ یہ حکمت عملی دوسری جنگ عظیم میں 1940 میں جرمن فوج نے اپنا کر اپنے دشمن فوج پر حملہ کردیا، یہ تکنیک استعمال کرتے ہوئے جرمن فوج نے انتہائی طاقت و اچانک سے حملہ کردیا جس میں انہوں نے تیز رفتار ٹینکو، زمینی فوج سمیت لڑاکا طیاروں سے کی تھی جو دنیا کی فوجی تاریخ کی تیزر رفتار ترین اور سب سے تباہ کن ثابت ہونے والا حملہ مانا جاتا ہے۔ یہ تکنیک دنیا کے کئی جنگوں میں مختلف شکلوں میں استعمال کیا جاتا رہا ہے جس میں فریقین نے انتہائی خاموشی و منظم تیاری سے اپنے دشمن پر تیز رفتاری سے حملہ کرکے اسے نقصان پہنچایا ہے۔ یہ تکنیک پہلے مختلف جنگوں میں تو استعمال ہوتا تھا مگر یہ مشہور اس وقت ہوا جب اسے 1940 میں جرمنوں نے الائیڈ فورس کے خلاف استعمال کیا جبکہ جرمنوں نے اسے پہلی جنگ عظیم میں بھی استعمال کی تھی۔ تب سے یہ حکمت عملی Blitzkrieg Strategy کے نام سے جانا جاتا ہے۔
مشہور جنگی مفکر سن زو کے بقول “جنگ ایک ایسی چیز ہے جس میں اصل اہمیت رفتار کی ہوتی ہے۔ یہ رفتار ہی اصل میں وہ فائدہ دیتی ہے جو دشمن کے پہنچ سے باہر ہو اور آپ ایسے راستے اپناتے ہیں جس کی دشمن کو کم سے کم توقع ہوتی ہے اور ایسی جگہ حملہ کرتے ہیں جہاں اس نے کبھی سوچا بھی نہیں ہو اور وہ اس کا دفاع نہ کرسکے۔”
دنیا میں ایسے تیز رفتار و اچانک حملوں کی حکمت عملیاں تو کئی ملکوں نے استعمال کیے ہیں مگر یہ تکنیک زیادہ تر گوریلہ جنگوں میں استعمال ہوتا ہے جس میں گوریلہ جنگجو انتہائی منظم، اچانک و تیز رفتاری سے اپنے دشمن پر حملہ کرکے اسے کاری ضرب پہنچاتی ہیں۔ دنیا میں گوریلہ جنگوں کی تاریخ کو دیکھا جائے تو لاطینی امریکہ کی چی گویرا سے لے کر افریقہ کی ایف ایل این و دیگر گوریلہ جنگوں تک، ایشیاء کی ہوچی منھ کے ویتنام سے لے کر ماؤ کی چین تک، ان سب نے گوریلہ جنگ کرکے اپنی سے سو گنا طاقتور ریاستوں کو شکست دی ہے۔ یوں تو گوریلہ جنگوں میں بہت سے تکنیکس اور اسٹریٹجی استعمال ہوتے رہے ہیں مگر ان میں ایک مقبول و نمایا تکنیک تیزرفتاری و اچانک دشمن پر حملہ کرنا ہے جس میں گوریلہ جنگجو اپنے دشمن پر خاموشی سے منظم انداز میں برق رفتاری سے اچانک حملہ کرکے اسے شکست سے دوچار کرتا ہے۔
گوریلہ جنگ کی تیز رفتاری و اچانک حملے کے بارے میں ماؤ کا خیال ہے “بڑی مقصد میں کامیابی حاصل کرنے کی خاطر تیز و برق رفتاری سے اچانک دشمن پر حملہ کرو اور حملہ کرکے اپنے مقاصد حاصل کرنے کے بعد پیچھے ہٹو۔” اس فلسفے پر چل کر ماؤ نے چین کی گوریلہ جنگ کو کامیابی سے سرخ رو کیا اور اپنی دشمن کو شکست دی۔
اسی طرح لاطینی امریکہ کی مشہور گوریلہ رہنماء ارنسٹو چی گویرا گوریلہ جنگ میں اس حوالے سے کہتے ہیں ” گوریلہ جنگ مختلف ہوتا ہے جس میں گوریلہ بینڈ اچانک سے حملہ کرکے پوری ہمت اور جذبے سے دشمن پر کاری ضرب لگا کراس کو شکست سے دوچار کرتا ہے۔ اچانک حملے سے دشمن ہکا بکا رہ جاتا ہے اور کامیابی گوریلہ کی ہوتی ہے۔” چی گویرا اور فیڈل کاسترو وہ عظیم انقلابی تھے جنہوں نے کیوبا کی تحریک میں گوریلہ جنگ کو اپنا کر امریکہ کے پشت پناہی حاصل کرنے والے بٹسٹا کی فوج کو شکست دی۔
اسی طرح دنیا میں جتنے بھی گوریلہ جنگ گزرے ہیں ان کے ٹیکنالوجی، جنگی سامان و ہتھیاروں کے علاوہ باقی حکمت عملیوں کا بنیادی فطرت ایک ہی جیسا رہا ہے۔
جب ہم بلوچستان میں بلوچ قومی تحریک میں جاری مسلح جدوجہد کو دیکھتے ہیں جہاں گوریلہ جنگ چل رہی ہے جس میں بلوچ مزاحمتکار نہ صرف گوریلہ اسٹریٹجی و تکنیکس پر پرانے طریقوں سے عمل کررہے ہیں بلکہ نئے تکنیکس و اسٹریٹجی بھی اپنا کر اپنے دشمن پر حملے کررہے ہیں۔ سن دو ہزار کو ایک بار پھر شروع ہونے والی اس مسلح جدوجہد میں روز بہ روز شدت و جدت آرہی ہے جس میں بلوچ سرمچار جدید تکنیکوں سے گوریلہ جنگ کو بہت ہی منظم انداز میں آگے لے جارہے ہیں۔ پہلے بلوچ سرمچار ایمبش اور کچھ روایتی طرز سے جنگ لڑرہے تھے مگر اب بلوچ سرمچار دشمن کے کیمپوں میں گھس کر فوجی کیمپس و چیک پوسٹوں پر قبضہ کرکے پورے کیمپوں کا صفایا کرتے ہیں۔ اس طرح اچانک و تیز حملہ کرکے نہ صرف دشمن کو حیران کرتے ہیں بلکہ ان کے صفحوں میں افراتفری مچا کر دشمن کو شکست سے دوچار کرتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف فدائی حملے بھی ایسے منظم و اچانک سرانجام دیے جاتے ہیں جس میں دشمن ناصرف نفسیاتی شکست سے دوچار ہے بلکہ ان کو ایسی اسٹریٹجک نقصانات اٹھانا پڑے ہیں کہ ان کے معیشت کمزور ہوتی جارہی ہے جس کا اظہار پاکستان کے حاضر وزیراعظم شہباز شریف نے خود کوئٹہ میں کیا کہ اس دوران پاکستان کے 150 ارب کا مالی نقصان ہوا۔
حالیہ 25 اور 26 اگست کو بلوچ سرمچاروں کی آپریشن ھیروف سے ان کی جنگی حکمت عملیوں میں جدت و شدت سمیت جدید گوریلہ حکمت عملیوں کا معائنہ کیا جاسکتا ہے۔ پورے بلوچستان میں بلوچ سرمچاروں نے 50 کے قریب جگہوں پر حملہ کرکے دشمن کو ناصرف شکست دی بلکہ دشمن کو جانی نقصان سے لے کر ان کو اربوں روپے کا مالی نقصان پہنچایا جس میں انہوں نے بیلہ کیمپ پر فدائی حملہ کرکے دشمن کے 60 کے قریب اہلکار ہلاک کیئے اور دوسری جانب سارے بلوچستان کے شاہراہوں پر ناکہ بندی کرکے کئی ریلوے ٹریکس و پلوں کو اُڑا کر دشمن کے کئی کیمپوں پر حملہ کرکے مختلف جگہوں سے 60 کے قریب اہلکاروں کو ہلاک کیا جبکہ طرف دشمن کے کئی کیمپوں پر قبضہ کرکے ان کے سارے فوجی ہتھیاروں کو ضبط کیا ۔ یہ سارے حملے ایک ہی رات ایک ہی وقت میں کیئے گئے جس سے سارا بلوچستان بلوچ سرمچاروں کے کنٹرول میں آگیا اور بلوچ گوریلوں کی اس اچانک و برق باری سے حملہ کرنے سے دشمن ایک دم گھبرا کر ہکا بکا رہ گیا۔ یہ حملے اس طرح منظم و برق رفتاری سے کیئے گئے کہ دشمن کو سنبھلنے کا موقع ہی نہ ملا اور بہترین گوریلہ حکمت عملی سے بلوچ سرمچار ان حملوں کو کامیاب بنا کر اپنے دشمن کو شکست سے دوچار کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
دوسری طرف کچھ اور واقعات بھی ہمارے سامنے ہیں جہاں بلوچ سرمچاروں نے انتہائی منظم اور تیزی سے حملہ کرکے دشمن کو شکست دی ہے جس میں کوسٹل ہائی وے پر اورماڑہ اور پسنی بدوک کی لڑائی جہاں انتہائی منظم طریقے سے بلوچ گوریلوں نے اچانک اور تیزرفتاری سے دشمن پر حملہ کرکے ان کو شکست سے دوچار کیا ۔ اسی طرح دشت سبدان میں ریگولر آرمی کے ایک کیمپ پر حملہ کرکے بلوچ سرمچاروں نے انتہائی تیزی و اچانک سے حملہ کرکے ریگولر آرمی کو شکست دیکر سارے کیمپ پر قبضہ کرنے کے بعد اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے جبکہ مارگٹ کی لڑائی بھی ایک مثال ہے۔
برق رفتاری و اچانک حملے کے بارے میں پانسہ پلٹ دینے والی بات پرمشہور جنگی مفکر کارل وون کلاؤزویٹز اپنی کتاب آن وار میں لکھتے ہیں ” برق رفتاری اور مکمل طاقت کے ساتھ حملے کی حالت میں آنا اور حملے کی چمکتی دمکتی تلوار/ بندوق ہی دفاع کا شاندار لمحہ اور طریقہ ہے جس سے نا صرف آپ کو کامیابی ملتی ہے بلکہ اس سے دشمن کے صفحوں میں افراتفری پیدا ہوکر ان کو نفسیاتی ہوالے سے ہراساں کرتا ہے۔ “
بلوچ مسلح جدوجہد میں ایسے بہت سے چھوٹے بڑے حملہ دیکھنے کو آرہے ہیں جو ہر روز بلوچستان کے مختلف علاقوں میں ہورہے ہیں جہاں بلوچ سرمچار انتہائی منظم اور تیزی و چالاکی سے اپنے دشمن پر حملہ کرتے آرہے ہیں۔ بلوچ سرمچار اچانک و تیز رفتاری سے حملہ آور ہوکر ایک دم سے نکلنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ بلوچوں کے پاس بہت ہی محدود جنگی وسائل ہیں جن کو بروئے کار لاکر وہ ذہانت و چالاکی سے استعمال کرتے ہیں۔ اسی لئے ایک مشہور جنگی کہاوت ہے “جنگ میں وسائل سے زیادہ اہم دستیاب وسائل کا دانشمندانہ استعمال ہے”۔ یہ سارے واقعات بلوچوں کی گوریلہ حکمت عملیوں میں جدیدیت کو ظاہر کرتے ہیں جہاں ان کے صفوں میں انتہائی قابل اور اسٹریٹجک رہنماؤں کی موجودگی کی نشاندہی کرتی ہے کہ اب بلوچ سرمچار اتنے قابل و منظم ہوگئے ہیں کہ اپنے دشمن کو شکست سے دوچار کرنے میں کامیاب نظر آرہے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی خواہش مند ہیں، ان کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹورک متفقہ ہے یا اس کے خیالات کی پالیسیوں کا اظہار ہے۔