ترجمان بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ شائر ء آشوب مبارک قاضی بلوچ قومی تحریک کے ایک انمول کردار اور غیر مسلح سرمچار کی حیثیت رکھتے ہیں جنہوں نے اپنی شاعری سے قوم اور زبان کے ساتھ انصاف کرتے ہوئے بلوچ نوجوانوں کے قومی شعور کو اضافہ کرنے اور ان کی انقلابی شاعری نے بلوچی زبان اور لبزانک کو تحریک سے جوڑنے میں اہم کردار ادا کیا، شائرء آشوب (Poet of Revolution) قاضی کا کردار بلوچ قومی تحریک میں فلسطینی انقلابی شاعر محمود درویش اور لاطینی امریکی شاعر پابلو نیروڈا جیسا تھا جنہوں نے اپنی شاعری سے جہاں بلوچی لبزانک کی ترویج کی وہی انہوں نے بلوچی لبزانک کو زمینی حقائق کے مطابق ڈالتے ہوئے اسے انقلابی کالب میں لایا جس کی وجہ سے آج بلوچی شاعری بطور اہم جہت بلوچ قومی شعور کو اجاگر کرنے میں کردار ادا کر رہی ہے۔ بلوچ قومی تحریک ایک مختلف الجہت تحریک ہے جس میں بلوچ سماج کے مختلف جہت کردار ادا کر رہے ہیں جس میں شاعری و لبزانک ایک اہم حیثیت رکھتا ہے، اس جہت کو منظم و متحرک کرنے میں شائرء آشوب کا کردار روز ء روشن کی طرح عیاں ہے۔
انہوں نے کہا کہ کسی بھی قومی تحریک میں سماج کے تمام طبقات کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے، جب کسی قوم پر ایک قابض قوت کوئی یلغار یا جنگ چھیڑ دیتا ہے تو وہ ایک مخصوص طبقے کو اپنی جبر اور وحشت کا نشانہ نہیں بناتا یا ایک غلام قوم کے اندر قابض کے خلاف لڑنے کی زمہ داری ایک مخصوص طبقے کی نہیں ہوتی بلکہ ایک قابض کے خلاف لڑنے کی زمہ داری تمام افراد اور تمام شعبے جات سے تعلق افراد کا ہوتا ہے کیونکہ قبضہ گیر زمین پر قبضہ کرتا ہے جو سب کی ہوتی ہے اس لیے قبضے کے خلاف جدوجہد کی زمہ داری بھی تمام طبقات کی ہوتی ہے۔ بلوچی شاعری و لبزانک سمیت براہوئی لبزانک و شاعری بھی آج قومی شعور اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے یہی زمہ داری تمام شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے افراد کی ہے، چاہیں کوئی صحافت کر رہا ہے یا کسی بھی شعبے سے ہے بلوچ قومی غلامی کے خلاف سب کو اس جہد میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیے۔ شائرء آشوب مبارک قاضی نے ریاستی دھمکیوں سے لیکر ہر طرح کے سخت حالات کا سامنا کیا لیکن قوم اور زمین سے ان کی دوستی کبھی کم نہیں ہوئی۔ بلوچی شاعری کو مزاحمتی شاعری کے ڈگر میں لانے کے عظیم کارنامے کا سہرہ بھی انہی کے سر جاتا ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں بلوچستان کا ہر رنگ و چہرہ عیاں کیا۔ بلوچ مزاحمتی شاعری مبارک قاضی کے بغیر نامکمل ہے بلکہ بلوچ مزاحمتی شاعری کا چہرہ مبارک قاضی ہے۔
ترجمان نے کہا کہ قابض ریاستی فورسز نے 2014 میں ان کے گھر کے گیٹ پر دستی بم سے حملہ کیا مگر خوفزدہ ہونے کے بدلے انہوں نے واضح طور پر کہا کہ وہ بلوچستان اور بلوچ جدوجہد کے عظیم کرداروں پر شاعری ترک نہیں کرے گا۔ انہوں نے اپنی شاعری میں بلوچ قوم کی غلامی، ریاستی بربریت اور ناانصافیوں، بلوچ جہدکاروں کے عظیم کردار کو ایسے لکھا کہ اُس کا ہر شعر بلوچوں کے دل میں نقش ہے۔ ان کے شاعری پر انہیں جیل میں بھی ڈالا گیا ہے ان کے خلاف ایف آئی آر بھی ہوئی ہیں جبکہ انہیں مختلف طریقوں سے ڈرایادھمکایا بھی گیا ہے لیکن ایک عظیم انقلابی شاعر ہونے کے ناطے انہوں نے کبھی بھی اس پر سمجھوتہ نہیں کیاجبکہ قومی جدوجہد کے اس عظیم سفر میں مبارک قاضی کےلوتے بیٹے اور بلوچ شاعر ڈاکٹر قمبر مبارک نے بھی اپنی جان نچاور کر دی ۔
انہوں نے کہا کہ یقینا مبارک قاضی بلوچ شاعری کے وہ عظیم استعارہ ہیں جو تاابد سلامت رہے گا اور ہمیشہ یاد رکھا جائےگا جبکہ بلوچ نوجوان شاعروں سے یہی امید کیا جاتا ہے کہ وہ مبارک قاضی کے راہ و فلسفے پر گامزن رہتے ہوئے زمین اور اس مٹی اپنی وفاداری نبھاتے ہوئے بلوچ زمین پر قابضوں نے جو جنگ چھیڑ دی ہے اُس کو عام عوام کے سامنے لائیں گے اور انہیں ریاستی قبضے و بلوچ قومی مزاحمت اور جدوجہد سے آگاہ کرتے رہیں گے۔