“ھیروف” اور شکست خوردہ ریاست
تحریر: سعید بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ جنگیں ہمیشہ وہ قومیں جیتی ہیں جن کے حوصلے بلند ہوتے ہیں اور عموماً جنگیں ہتھیاروں سے زیادہ حوصلے سے لڑی جاتی ہیں اور آج بلوچ قوم نے دنیا کی یہ تاریخ دہرائی ہے اور دنیا کو دکھا رہی ہے کہ جنگیں ہتھیاروں سے زیادہ پُرجوش اور پُرعزم حوصلوں سے لڑے جاتے ہیں، کہ آج دنیا کی ایک ایٹمی طاقت کو بلوچ نوجوان کم وسائل اور اپنے بلند و بالا حوصلوں کے ساتھ گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا اور آج ریاست کی جو نہ رکنے والے پریس کانفرنسز ہیں اس سے ہر ذی شعور شخص کو حالیہ بلوچ لبریشن آرمی کے فدائی حملہ “هیروف” سے ریاست کے نقصانات کا صحیح اندازہ ہو سکتا ہے۔
اس تحریر میں ان محرکات کی بارے میں ہم بات کریں گے، جو یہ حالیہ حملے کو ایک کامیاب حملہ بنانے کیلئے مفید ثابت ہوئے تھے اور اس تحریر میں ہم ان محرکات کے بارے میں بات کریں گے، جو اس حالیہ حملے کو کامیاب بنانے میں کارآمد تھے
1- اہم ٹارگٹ کا تعین
2- موثر کوآرڈینیشن اور بیک وقت مختلف جگہوں پر حملے و ناکہ بندی
3- کالونیل ازم اور بیرونی اثرات کو کم کرنا
4- ریاست کی بے بسی اور بہت سی دوسری چیزیں ہیں جو حالیہ حملے میں بلوچستان میں ریاستی رٹ کو چیلنج کرتی ہیں
*1-ٹارگٹ کا تعین*
بلوچستان کی آزادی کی مسلح جدوجہد بیس سال سے پوری قوت اور شدت کے ساتھ جاری ہے۔ ان سالوں کے دوران بلوچستان کے ضلع لسبیلہ میں بلوچ مسلح تنظیموں کے حالیہ حملے کے علاوہ کوئی بڑا مسلح حملہ نہیں ہوا۔ ہاں البتہ براس (بلوچ مسلح تنظمیوں کا الائنس) نے دعویٰ کیا تھا کہ لسبیلہ ایک علاقے میں پاکستانی فوج کے ایک ہیلی کاپٹر کو مارگرایا ہے جس سے کورکمانڈر، ڈی جی کوسٹ گارڈ سمیت کئی افسران سوار تھے، مگر یہ واقعہ مقامی لوگوں کے لیے متنازعہ تھا کہ ہیلی کاپٹر دراصل گرا ہے یا براس کے سرمچاروں نے مارکر گرایا ہے، اور ایسے علاقے میں ایسا بڑا حملہ کرنا جہاں سب پرامن بیٹھے ہوں اور کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ یہاں کوئی یہ اقدام کر سکے گا، ریاست نے سوچا تک نہیں کہ بلوچ مسلح تنظیم لسبیلہ کے علاقے بیلہ میں ایسا کچھ کرینگے، اور اس جگہ پر اس طرح کے حملے کے یہ دو اہم فائدے ہیں، ایک تو دشمن کو زیادہ نقصان پہنچے گا، اور دوسرا مقامی لوگوں میں بیداری اور شعور پیدا ہوگا، جو بلوچ قومی آزادی کے لیے بہت مفید ثابت ہوسکتا ہے۔
2-موثر کوآرڈینیشن اور بیک وقت مختلف جگہوں پر حملے و ناکہ بندی
بلاشبہ بلوچستان جہاں پاکستانی فوج کے ستر فیصد سے زائد فوج تعینات ہے، یہاں اس طرح کا حملہ کرنا ممکن نہیں بلکہ ناممکن ہے مگر بی ایل اے نے نئی حکمت عملی اپناتے ہوئے اس ناممکن کو ممکن بنا کر ناصرف ریاست کو بلکہ دنیا کو بھی حیران کرکے رکھ دیا، اور بلوچ لبریشن آرمی کی ناکہ بندی سے ریاست کو کتنا نقصان پہنچا ہے اس کا اندازہ حکومتی پریس کانفرنسوں سے لگایا جا سکتا ہے اور بلوچستان میں کئی اہم شاہراہوں کی بیک وقت ناکہ بندی بلوچستان میں بلوچ لبریشن آرمی کے مکمل کنٹرول کی عکاسی کرتی ہے اور یہ حملہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ بلوچستان میں بلوچ لبریشن آرمی پاکستانی فوج کو بلوچستان سے مکمل طور پر نکالنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
*3-کالونیل ازم بیرونی اثرات*
ماھل بلوچ نے دیگر بلوچ نوجوانوں کے ساتھ ایک ہی ہدف پر فدائی حملہ کرنے کی وجہ سے ریاستی حربہ مکمل طور پر ناکام ہو گیا اور بلوچ قومی تاریخ کو آج ایک بار پھر ماھل نے زنده روح بخشی، ماھل بلوچ نے گل بی بی اور بانڑی بلوچ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے نوآبادیاتی حربوں کو شکست اور بلوچ قومی تاریخ و روایت کو زندہ کیا جہاں عورت اور مرد، ذات برادری کی کوئی تفریق نہیں، اگر اس طرح کہا جائے تو یقیناً غلط نہیں ہے بلکہ یہ بات سو فیصد درست ثابت ہو جائے گی کہ ماھل بلوچ اور بی ایل اے کی قیادت نے اس حملے میں فیمینزم کا اصل مفہوم بیان کر دیا ہے۔
4- ریاستی بے بسی
بیلہ ایف سی ہیڈ کوارٹر پر حملہ کرنے والوں کے سامنے ریاست اتنی بے بس تھی کہ اس نے کوئی بیان جاری نہیں کیا، جب بی ایل اے نے یہ بیان جاری کیا کہ ماھل اور رضوان نے بم دھماکے کر کے آپریشن “ھیروف” کا آغاز کردیا ہے تو بعد میں ریاست نے شہید ہونے والے دو فدائین کی تعداد میں اضافہ کیا، جو ریاست کی ہمیشہ وطیره رہا ہے جو ہمیشہ دعویٰ کرتی ہے تعداد زیاده کرتی ہے بعد میں اپنے ازیت خانوں سے لاپتہ افراد کو مار کرکے تعداد کو پورا کرتا ہے، بی ایل اے کے بیان کے بعد ریاست کی جانب بیان جاری ہوا کہ “چار دہشت گرد مارے گئے ہیں” اور ریاست کو بیلہ ہیڈ کوارٹر پر حملہ کرنے والوں کی تعداد اپنی جگہ بلکہ اندازه بھی لگا نہیں پارہا تھا، اور فدائین ایف سی ہیڈکوارٹر میں اپنی کمانڈ سے مسلسل رابطے میں تھے اور ریاست یہ رابطہ بند کرنے میں ناکام رہا، اور ریاست نے بی ایل اے کے بیان کے بعد بیان جاری کیا کہ بیلہ ایف سی ہیڈ کوارٹر پر حملہ ختم ہو گیا ہے جو ریاست کی بے بسی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
*تنقیدی جائزه*
تنقید کو عام طور پر ہر اجتماعی عمل کو بہتر بنانے اور زیادہ موثر بنانے کا ہتھیار سمجھا جاتا ہے اور میں بی ایل اے جیسے عظیم قومی ادارے کی قیادت پر تنقید کرنے کے لیے اتنا بڑا نہیں ہوں، لیکن میں ان خامیوں کو ضرور سامنے لاؤں گا جو میں نے اس دوران دیکھی ہیں جو مستقبل میں نہیں ہونے کی خواہش رکھتا ہوں اس دوران میں نے ایک بڑی غلطی دیکھی جو یہ تھا اگر غور سے دیکھا جائے تو “ہکّل” نے حملے کے دوران میڈیا میں ایک ویڈیو کلپ جاری کیا جس میں فدائین کچن نما کمرے میں موجود ہیں اور فدائین کی شہادت کی جب تصویر وائرل ہوئی کمره وہی تھا یہ ایک انتہائی غیرذمہ دارنہ عمل تھا اسطرح اکثر لوگ جزباتی طور پر کرتے ہیں لیکن یہاں جذبات کو قابو میں رکھنا قومی فریضہ ہے۔