بلوچ اسکالر ڈاکٹر نصیر دشتی نے جنیوا میں بلوچ نیشنل موومنٹ کی پانچویں بلوچستان انٹرنیشنل کانفرنس کے دوران سامعین سے خطاب کرتے ہوئے ریاست پاکستان کے تحت بلوچ قوم کو درپیش مصائب اور ان کی جدوجہد پر بات کی۔ اانھوں نے دشمن کی عجیب و غریب ریاستی ساخت اور خودساختہ نظریات سے اپنی گفتگو کا آغاز کیا ، دشمن ریاست پاکستان: جس کا بلوچوں کو سامنا ہے۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان قومی آزادی کی جدوجہد کی تاریخ میں منفرد ملک ہے، یہ وہ واحد ملک ہے جو قیاس کے مطابق استعماری طاقت سے آزاد ہوا لیکن اس کا نظریہ اس کی اپنی سرزمین پر نہیں بلکہ لندن کے مرکز میں بنایا گیا۔ پاکستان جس زبان کے بارے میں دعوی کرتا ہے کہ یہ اس کی قومی زبان ہے وہ پاکستان کی حدود میں رہنے والے کسی بھی ایک شخص یا قوم کی زبان نہیں۔
ڈاکٹر نصیر دشتی نے پاکستان کی خود ساختہ مذہبی وجود پر تنقید کرتے ہوئے اس حقیقت کی طرف توجہ مبذول کروائی کہ پاکستانی دانشوروں اور اسکولوں کے نصاب کا دعویٰ ہے کہ ریاست پاکستان اللہ کی طرف سے ایک تحفہ ہے، ایسا عقیدہ جو دنیا کی کسی دوسری ریاست کے پاس نہیں ہے۔ “یہ ایک ایسی ریاست ہے جسے قیاس کے مطابق خود خدا نے آزاد کرایا تھا، اور پھر بھی، اس کے موجودہ علاقوں میں سے کوئی بھی، چاہے وہ پنجاب، سندھ، پختونخوا ، یا بلوچستان، اس وقت کوئی آزادی کی تحریک نہیں چلی۔ یہ اللہ کی دی ہوئی ریاست تھی، جسے انگریزوں نے بنایا تھا، اور اب یہ خود کو ہم پر مسلط کر رہی ہے، جس سے نہ صرف بلوچوں بلکہ جنوبی ایشیا کے ہر فرد کو تکلیف پہنچ رہی ہے۔”
اپنی گفتگو کے دوران انھوں نے چنگیز خان کی بخارا کی فتح کا قصہ سنایا، جس سے مذہبی رہنماؤں نے رحم کی بھیک مانگی، اللہ کے غضب کو پکارا کہ اگر چنگیز نے اپنا قتل عام جاری رکھا تو اس پر اللہ کا عذاب کا نازل ہوگا۔ تاہم چنگیز خان نے ان کی درخواستوں کو مسترد کر دیا، اور یہ دعویٰ کیا کہ اس وقت وہی اللہ کی مرضی کا مجسم ہے۔ ڈاکٹر دشتی نے اس تاریخی حوالہ کو پاکستان کی حکمرانی میں بلوچوں کے مصائب کو ماضی کے فاتحوں کی تباہی سے تشبیہ دینے کے لیے استعمال کیا۔ “بخارا میں منگولوں کی طرح، پاکستان کے اقدامات ہم پر، پشتونوں، سندھیوں اور پورے جنوبی ایشیائی خطے کے لیے ایک لعنت ہیں۔ خطے کے لوگوں کے لیے ایسی مصیبتوں کا باعث ہے جن کی کوئی مثال نہیں ملتی۔‘‘
ان تاریخی موازنہوں سے ہٹ کر، ڈاکٹر نصیر دشتی نے بلوچستان کو درپیش فوری اور سنگین خطرات سے بھی خبردار کیا۔ انھوں نے دو اہم مسائل کی نشاندہی کی: پرامن کارکنوں کو نشانہ بنانا اور گوادر کے گرد باڑ لگانا۔
سب سے پہلے، انھوں نے وضاحت کی کہ کس طرح پاکستانی ریاست نے پرامن کارکنوں کو ’فورتھ شیڈول‘ میں رکھ کر دہشت گردوں کا لیبل لگانا شروع کر دیا ہے۔ ’’ ہمارے نوجوان، جو وسائل کے استحصال اور گمشدگیوں کے خلاف پرامن طور پر سرگرم ہیں، اب انھیں دہشت گرد قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ لیبل ریاست کو ان کی نقل و حرکت محدود کرنے کی اجازت دیتا ہے، جب فوج کی مرضی ہوتی ہے تو انھیں ماورائے عدالت قتل کا آسان ہدف بناتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ یہ عمل بلوچ نوجوانوں کی زندگیوں کو شدید خطرات میں ڈال دیتا ہے۔ ریاست پکڑ سکتی ہے، ماورائے عدالت قتل دے سکتی ہے اور بعد میں دعوی کر سکتی ہے کہ اس نے “خفیہ اطلاعات کی بنیاد” میں نام نہاد دہشت گردوں کو ختم کر دیا ہے۔ انھوں نے خبردار کیا کہ یہ لامحالہ خطے میں تشدد اور جبر میں اضافے کا باعث بنے گا۔
دوسرا اہم مسئلہ جس پر انھوں نے توجہ دی وہ گوادر کے گرد باڑ لگانے کا ہے، اس منصوبے کے لیے چین نے اپنے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو کے حصے کے طور پر فنڈ فراہم کیا ہے۔ ’’ پاکستانی ریاست، چینی حمایت کے ساتھ، بین الاقوامی ہوائی اڈے اور ملحقہ علاقوں سمیت پورے گوادر شہر پر باڑ لگا رہی ہے۔ یہ باڑ صرف مادی بنیاد پر نہیں ہے بلکہ یہ بلوچستان میں چینی انکلیو ( مکمل چینی کنٹرول کا علاقہ) کے قیام کی علامت ہے۔ یہ ایک نوآبادیاتی منصوبہ ہے — ایک ایسا علاقہ بنانا چاہتے ہیں جس پر براہ راست چینی پیپلز لبریشن آرمی کا کنٹرول ہو گا۔
انھوں نے خبردار کیا کہ یہ ترقی بلوچ قوم کے لیے شدید معاشی، سیاسی اور سماجی نتائج کا باعث ہے۔ ’’ یہ انکلیو دنیا کے ہمارے حصے میں پہلی سوشلسٹ کالونی کی نمائندگی کرتا ہے، جو بلوچستان سے مکمل طور پر منقطع ہے اور غیر ملکی کنٹرول میں ہے۔ اس کے اثرات ہمارے لوگوں کے لیے دور رس اور تباہ کن ہوں گے۔‘‘
انھوں نے اپنی تقریر کا اختتام تمام بلوچ سیاسی تنظیموں اور کارکنوں پر زور دیا کہ وہ ان خطرات کی سنگینی کو پہچانیں۔ ’’ ہمیں سخت کارروائی کرنی چاہیے۔ یہ غیرمتعلق واقعات نہیں ہیں۔ ان کے ہمارے سماجی، اقتصادی اور سیاسی منظر نامے پر طویل مدتی اثرات مرتب ہوں گے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم ان ناانصافیوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔