بلوچستان کے ضلع کوہلو میں گرلز کالج کی غیر فعالی کے خلاف طلباء الائنس کوہلو کی جانب سے ایک احتجاجی ریلی نکالی گئی۔
ریلی ڈگری کالج کوہلو سے شروع ہو کر نیشنل پریس کلب کے سامنے اختتام پذیر ہوئی، ریلی میں طلباء نے گرلز کالج کی بحالی کے حق میں نعرے بازی کی اور اپنے مطالبات کے حق میں بینرز اٹھا رکھے تھیں۔
مظاہرین کا کہنا تھا کہ کوہلو ضلع میں تعلیمی سہولیات کا فقدان انتہائی افسوسناک ہے۔ 76 سال گزر جانے کے باوجود یہاں کی طالبات کے لیے ایک کالج کی تعمیر مکمل نہیں ہو سکی، جو کہ حکومتی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
نیشنل پریس کلب کے سامنے ریلی کے اختتام پر طلباء تنظیموں نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ اس موقع پر طلباء رہنماؤں نے مزید انکشاف کیا کہ گرلز ہائی اسکول کوہلو میں سرکاری استانیوں کی بجائے میٹرک پاس بچیوں کو پڑھانے پر مامور کیا گیا ہے، جو کہ طالبات کے مستقبل کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ تعلیم یافتہ اساتذہ کی عدم موجودگی سے کوہلو کی بچیوں کی تعلیمی کارکردگی پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں، مزید برآں، طلباء رہنماؤں نے دعویٰ کیا کہ کئی گرلز اسکولوں میں مرد عملہ تعینات کیا گیا ہے، جس کا مقصد کلسٹر بجٹ کو ہڑپ کرنا ہے۔ انہوں نے اس عمل کو طالبات کی تعلیم کے ساتھ ایک سنگین مذاق قرار دیا اور حکومت سے فوری طور پر اس غیر قانونی اور غیر اخلاقی اقدامات کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔
طلباء نے موجودہ ایم پی اے نواب چنگیز خان سے مطالبہ کیا کہ وہ اس معاملے میں فوری کردار ادا کریں اور گرل کالج کی تعمیر اور اسکولوں میں معیاری تعلیمی نظام کو یقینی بنائیں تاکہ ضلع کوہلو کی طالبات کو ان کا حق مل سکے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اگر ان کے مطالبات پورے نہ ہوئے تو وہ کوئٹہ پریس کلب کے سامنے مزید بڑے پیمانے پر احتجاج کریں گے، طلباء الائنس کی یہ ریلی اور پریس کانفرنس ضلع کوہلو کی تعلیمی پسماندگی پر ایک سنگین سوالیہ نشان ہے اور حکومت سے فوری اور سنجیدہ اقدامات کا تقاضا کرتی ہے۔