بلوچ یکجہتی کمیٹی ، طلبہ تنظیمیں ، اساتذہ و دیگر سیاسی و سماجی کارکنان سمیت جبری لاپتہ افراد کے لواحقین کے نام فورتھ شیڈیول میں شامل کئے گئے ۔
حکومت کی طرف جو لسٹ سامنے آئی ہے جس میں سیاسی کارکنوں پر مسلح تنظیم بی ایل اے سے ہونے کا الزام لگایا گیا ہے۔
فہرست میں ، چیئرمین بی ایس بالاچ قادر، مرکزی سیکریٹری جنرل صمند بلوچ، مرکزی سیکریٹری اطلاعات شکور بلوچ اس کے علاوہ بی وائے سی کی رہنما بیو بلوچ کے والد غفار قمبرانی، عبد الستار ولد الله داد، بلخ شیر ولد عبدالغفار، اسٹنٹ پروفیسر گورنمنٹ کالج کوئٹہ عابد میر سمیت دیگر انسانی حقوق کے کارکن، پروفیسرز، اور لیکچررز، صحافی اور سیاسی رہنماؤں و کارکنان سمیت دیگر افراد کا نام شامل ہیں ۔
یاد رہے کہ اس سے قبل بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا کہا تھا کہ 3 ہزار اساتذہ، طلباء اور صحافیوں کو فورتھ شیڈول میں ڈالا گیا ہے ۔
نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا کہنا تھا کہ فورتھ شیڈول اینٹی اسٹیٹ ہے ۔ فورتھ شیڈول میں ڈال کر زبر دستی آزادی پسندوں کی طرف دھکیلا جا رہا ہے ۔
ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا کہنا تھا کہ بی ایس او پچار حب الوطن ہے اپنے آپ کو ملک دوست اور دوسروں کو ملک دشمن سمجھنا درست نہیں ہے ۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز انسانی حقوق کے کارکن جبری لا پتہ ڈاکٹر دین محمد کی صاحبزادی سمی دین بلوچ کو ایف آئی اے نے کراچی جناح ایئر پورٹ پر روک دیا ہے ۔ سمی دین کو اس وقت روکا گیا ہے جب وہ عمان جارہی تھیں ۔ اس حوالے سے سمی دین نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایئر پورٹ کے امیگریشن آفس اور ایک لیٹر کے تصاویر شیئر کرتے ہوئے کہا کہ آج مجھے مسقط، عمان جانے کے دوران کراچی ایئرپورٹ کے امیگریشن کاؤنٹر پر روک دیا ہے۔
لیٹر کے تصاویر شیئر کرتے ہوئے کہا کہ آج مجھے مسقط، عمان جانے کے دوران کراچی ایئر پورٹ کے امیگریشن کاؤنٹر پر روک دیا لیا۔
سمی دین کا کہنا تھا کہ مجھے ایف آئی اے حکام نے بتایا کہ بلوچستان حکومت نے میرا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈال دیا ہے۔ مجھے چار گھنٹے تک سیکورٹی والے کمرے میں انتظار میں رکھا گیا ہے اور مجھے حرکت کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
واضح رہے کہ آج سمی دین نے اس فیصلے کے خلاف عدالت میں جانے کا فیصلہ کیا ہے ۔