اتوار کے روز کوئٹہ میں جبری لاپتہ جہانزیب بلوچ کی عدم بازیابی کے خلاف لواحقین کی جانب سے احتجاج کیا گیا ۔
احتجاجی ریلی میں وائس فار بلوچ مِسنگ پرسنز، بی وائی سی، طلباء سیمت بلوچ لاپتہ افراد کی اہلخانہ نے بھی شرکت کی ۔
مظاہرین نے بینرز ، پلے کارڈ اور لاپتہ افراد کی تصاویر اٹھا کر شہر کے سڑکوں پر گشت کرتے ہوئے جبری گمشدگیوں کے خلاف نعرہ بازی کی ۔
اس موقع پر لواحقین نے کہاکہ جہانزیب بلوچ کو 3 مئی 2016 کو کوئٹہ سے لاپتہ کیا گیا تھا۔ وہ ٹیلر ماسٹر تھا۔ جہانزیب بلوچ سیمت تمام لاپتہ کی بازیابی کا مطالبہ کیا گیا ۔
لواحقین نے کہاکہ جبری لاپتہ جہانزیب بلوچ کوئٹہ شہر میں سریاب کے علاقے کے رہائشی ہیں اور پیشے کے لحاظ سے درزی ہیں۔ وہ شادی شدہ ہیں اور ان کی بیٹی بھی ہے جو پیدا ہوتے ہی سراپا احتجاج ہیں۔
والدہ نے کہاکہ معصومہ ان کے بیٹے کی اکلوتی اولاد ہے، جس وقت جہانزیب کو لاپتہ کیا گیا تو اس وقت معصومہ کی عمر صرف چھ ماہ تھی۔
گل سیمہ نے بتایا کہ گزشتہ آٹھ سال سے نہ صرف وہ بلکہ ان کے خاندان کے تمام افراد ایک اذیت ناک صورتحال سے دوچار ہیں۔
‘ہم سے نیند چھن گئی ہے، ہم مریض بن گئے ہیں اور اب بس ادویات کے سہارے زندہ ہیں۔’
آخر میں مظاہرین نے کہا کہ اگر اس نے کوئی جرم کیا ہے۔تو عدالت میں پیش کیا جائے۔