کردارِ چاکر امر ہوگیا ۔ سرمست بلوچ

337

کردارِ چاکر امر ہوگیا

تحریر : سرمست بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

آج میں ایک ایسے جنگجو کے بارے میں لکھنے جا رہا ہوں جس کا تذکرہ کرتے ہوئے شاید میرا قلم بھی میری طرح بے بس ہوجائے، کیونکہ چاکر کو محض ایک گوریلا جنگجو کہنا اس کی شخصیت کا احاطہ کرنے کے لیے کافی نہیں ہوگا۔ اگر میں دن رات بھی اس کی داستانیں لکھتا رہوں، تب بھی شاید وہ مقصد حاصل نہ ہو سکے جس کے لیے چاکر نے اپنی جان مادرِ وطن پر نچھاور کی تھی۔ البتہ، ایک مختصر تحریر میں چاکر کے کردار کا مختصراً کچھ اظہار کرنا میرے لیے ناممکن نہیں، مگر یہ کہنا کہ یہ چاکر کی مکمل شخصیت کا احاطہ کرتی ہے، درست نہیں ہوگا۔

میجر نصر اللہ عرف ماما چاکر ایک عظیم شخصیت اور اعلیٰ کردار کا مالک تھا۔ وہ ہمیشہ اپنے دوستوں کے لیے شفقت اور مہربانی کا مظاہرہ کرتا تھا، وہ جنگی حالات کے دوران ماں جیسی محبت اپنے ساتھیوں کو دیتا رہا۔ جنگ نے چاکر کو ایسا چنا ہے کہ وہ اپنے دوستوں کے لیے ایک مثالی کردار بن گیا، اور آج اس کے دوستوں کا سر فخر سے بولان کے پہاڑوں کی طرح بلند ہے۔

کل ہی ہم مچھ اور بولان میں چاکر کے ہاتھ سے بنائی ہوئی دودھ پتی کی چائے نوش کر رہے تھے، اور آج ہم اس کی یاد میں جنگی محاذوں پر اس کی لگن اور بہادری کے سفر کو مکمل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ماما چاکر کا ایک عمل جو مجھے ہمیشہ متاثر کرتا رہا، وہ یہ تھا کہ وہ کبھی بھی خود کو دوسری مسلح تنظیموں سے جدا نہیں سمجھتا تھا۔ میں نے کبھی اس کے منہ سے یہ نہیں سنا کہ وہ خود کو دوسروں سے مختلف یا بہتر سمجھتا ہو۔ جب بھی جنگ کا موقع آیا، وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ رہا اور مختلف محاز میں کامیابیاں حاصل کیں۔

ماما چاکر کی سادگی، شفقت اور جنگی حکمت عملی نے اسے ہمیشہ ایک منفرد اور قابلِ احترام شخصیت بنایا۔ آج ہم اس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس کے مقصد کو آگے بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں، اور اس کی قربانیوں کو ہمیشہ یاد رکھیں گے۔

اس نوجوان قیادت کی جنگی صلاحیتوں نے نہ صرف میجر کے اعلیٰ رتبے کا نصیب ہونا ممکن بنایا بلکہ جب ہم پہلی بار بولان کے مقام پر کسی کام کی نیت سے نکلے تو ہمارے استقبال کے لیے ماما چاکر خود پہاڑ کی بلند چوٹی پر دوربین کے ذریعے ہمیں دیکھ رہا تھا۔ اس نے فوراً ہمیں پیغام بھیجا کہ آپ لوگ پہاڑ کی اوپری سطح سے تھوڑا نیچے آجائیں کیونکہ دشمن کی قریبی پوسٹ سے آپ لوگوں پر کسی بھی وقت نظر پڑ سکتی ہے۔ ماما ہمیشہ راستوں اور وقت کا درست خیال رکھتے ہوئے اپنے ساتھیوں کی حفاظت کے لیے خود پہرہ دینا پسند کرتا تھا۔

جب ہم اوتاک میں صحیح سلامت پہنچے تو ایک دوست کو نیند نہیں آئی، جس پر ماما بار بار بے چینی سے مجھ سے پوچھنے لگا کہ “قربان، اس سنگت کو کس دشواری کا سامنا ہے؟” میں نے ماما کو تسلی دی کہ اس نے پیدل سفر کیا تھا اس لیے تھک گیا ہوگا۔ ماما ہر ممکن کوشش کر رہا تھا کہ سنگت کے آرام کا خیال رکھے۔ اس دوران ماما نے اپنی جیب سے چار یا پانچ ٹوفیاں اور نمکو کے دو دانے نکال کر ہماری طرف بڑھائے اور کہا، سنگت ایک تم لے لو اور ایک قربان کو دے دو۔

دو دن کے قیام کے بعد جب ہم اپنا کام مکمل کر کے شہر کی طرف روانہ ہونے لگے تو میرے دل پر ایک عجیب کیفیت طاری ہوگئی۔ ایسا محسوس ہوا جیسے شہر کی طرف واپسی کی بجائے میرے اندر کے جذبات مجھ سے کہنے لگے کہ راستہ چاہے کٹھن ہو، لیکن اگر ایک بار ماما جیسے محبوب وطن بن گئے تو واپسی کا خیال ایک خواب بن کر رہ جائے گا۔

شہری گوریلا کچھ منفرد نوعیت کے کام انجام دیتے ہیں جبکہ پہاڑوں میں زندگی گزارنے والے ساتھیوں کا طرزِ زندگی بالکل مختلف ہوتا ہے۔ انہیں قسم قسم کے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ ماما نے مجھ سے کہا کہ ہمیں اکثر ٹیکنیکل مسائل اور دیگر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس لیے اس نے مشورہ دیا کہ بے شک نوجوان قیادت قومی کاز کے لیے اپنا حصہ ڈالے، لیکن ان مشکلات کا بھی حل نکالے جن سے ہم دوچار رہے۔ اگر آپ لوگ محاذ پر لڑتے ہوئے ان مسائل کا کوئی حل نکال لیتے ہیں تو ہمارے تحریک مضبوط بن کر دشمن کو مزید ذہنی اذیت میں مبتلا کر سکتا ہیں۔

شہری گوریلا بسا اوقات پہاڑی گوریلا کے مقابلے میں زیادہ سہولت یافتہ ہوتے ہیں، لیکن پہاڑوں میں رہنے والے ساتھیوں کو اشیائے خورد و نوش سے لے کر ہر چیز محدود مقدار میں میسر ہوتی ہے۔ تاہم وہ کم وسائل کے صحیح اور درست استعمال کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ میں نے بولان کے مناظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے سوچا کہ آج جذبات پر قابو پانا ہی بہتر ہے۔ اگر ہمیں کچھ کرنا ہے تو ہم شہر میں رہ کر بھی دشمن کے لیے مشکلات کھڑی کر سکتے ہیں۔

اس دن میرا دماغ خیالی آزمائشوں میں گردش کر رہا تھا، جو آج حقیقت میں بدل رہے ہیں۔ ماما چاکر کے درس آج بھی میرے کانوں میں گونجتے ہیں کہ کام کرنے کو بہت کچھ ہے، لیکن سب سے پہلے وطن سے عشق انتہا ہونا لازمی ہے۔

آج میں ایک ایسے جنگجو کے بارے میں لکھنے جا رہا ہوں جس کا تذکرہ کرتے ہوئے شاید میرا قلم بھی میری طرح بے بس ہوجائے، کیونکہ چاکر کو محض ایک گوریلا جنگجو کہنا اس کی شخصیت کا احاطہ کرنے کے لیے کافی نہیں ہوگا۔ اگر میں دن رات بھی اس کی داستانیں لکھتا رہوں، تب بھی شاید وہ مقصد حاصل نہ ہو سکے جس کے لیے چاکر نے اپنی جان مادرِ وطن پر نچھاور کی تھی۔ البتہ، ایک مختصر تحریر میں چاکر کے کردار کا مختصراً کچھ اظہار کرنا میرے لیے ناممکن نہیں، مگر یہ کہنا کہ یہ چاکر کی مکمل شخصیت کا احاطہ کرتی ہے، درست نہیں ہوگا۔

میجر نصر اللہ عرف ماما چاکر ایک عظیم شخصیت اور اعلیٰ کردار کا مالک تھا۔ وہ ہمیشہ اپنے دوستوں کے لیے شفقت اور مہربانی کا مظاہرہ کرتا تھا، وہ جنگی حالات کے دوران ماں جیسی محبت اپنے ساتھیوں کو دیتا رہا۔ جنگ نے چاکر کو ایسا چنا ہے کہ وہ اپنے دوستوں کے لیے ایک مثالی کردار بن گیا، اور آج اس کے دوستوں کا سر فخر سے بولان کے پہاڑوں کی طرح بلند ہے۔

کل ہی ہم مچھ اور بولان میں چاکر کے ہاتھ سے بنائی ہوئی دودھ پتی کی چائے نوش کر رہے تھے، اور آج ہم اس کی یاد میں جنگی محاذوں پر اس کی لگن اور بہادری کے سفر کو مکمل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ماما چاکر کا ایک عمل جو مجھے ہمیشہ متاثر کرتا رہا، وہ یہ تھا کہ وہ کبھی بھی خود کو دوسری مسلح تنظیموں سے جدا نہیں سمجھتا تھا۔ میں نے کبھی اس کے منہ سے یہ نہیں سنا کہ وہ خود کو دوسروں سے مختلف یا بہتر سمجھتا ہو۔ جب بھی جنگ کا موقع آیا، وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ رہا اور مختلف محاز میں کامیابیاں حاصل کیں۔

ماما چاکر کی سادگی، شفقت اور جنگی حکمت عملی نے اسے ہمیشہ ایک منفرد اور قابلِ احترام شخصیت بنایا۔ آج ہم اس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس کے مقصد کو آگے بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں، اور اس کی قربانیوں کو ہمیشہ یاد رکھیں گے۔

اس نوجوان قیادت کی جنگی صلاحیتوں نے نہ صرف میجر کے اعلیٰ رتبے کا نصیب ہونا ممکن بنایا بلکہ جب ہم پہلی بار بولان کے مقام پر کسی کام کی نیت سے نکلے تو ہمارے استقبال کے لیے ماما چاکر خود پہاڑ کی بلند چوٹی پر دوربین کے ذریعے ہمیں دیکھ رہا تھا۔ اس نے فوراً ہمیں پیغام بھیجا کہ آپ لوگ پہاڑ کی اوپری سطح سے تھوڑا نیچے آجائیں کیونکہ دشمن کی قریبی پوسٹ سے آپ لوگوں پر کسی بھی وقت نظر پڑ سکتی ہے۔ ماما ہمیشہ راستوں اور وقت کا درست خیال رکھتے ہوئے اپنے ساتھیوں کی حفاظت کے لیے خود پہرہ دینا پسند کرتا تھا۔

جب ہم اوتاک میں صحیح سلامت پہنچے تو ایک دوست کو نیند نہیں آئی، جس پر ماما بار بار بے چینی سے مجھ سے پوچھنے لگا کہ “قربان، اس سنگت کو کس دشواری کا سامنا ہے؟” میں نے ماما کو تسلی دی کہ اس نے پیدل سفر کیا تھا اس لیے تھک گیا ہوگا۔ ماما ہر ممکن کوشش کر رہا تھا کہ سنگت کے آرام کا خیال رکھے۔ اس دوران ماما نے اپنی جیب سے چار یا پانچ ٹوفیاں اور نمکو کے دو دانے نکال کر ہماری طرف بڑھائے اور کہا، سنگت ایک تم لے لو اور ایک قربان کو دے دو۔

دو دن کے قیام کے بعد جب ہم اپنا کام مکمل کر کے شہر کی طرف روانہ ہونے لگے تو میرے دل پر ایک عجیب کیفیت طاری ہوگئی۔ ایسا محسوس ہوا جیسے شہر کی طرف واپسی کی بجائے میرے اندر کے جذبات مجھ سے کہنے لگے کہ راستہ چاہے کٹھن ہو، لیکن اگر ایک بار ماما جیسے محبوب وطن بن گئے تو واپسی کا خیال ایک خواب بن کر رہ جائے گا۔

شہری گوریلا کچھ منفرد نوعیت کے کام انجام دیتے ہیں جبکہ پہاڑوں میں زندگی گزارنے والے ساتھیوں کا طرزِ زندگی بالکل مختلف ہوتا ہے۔ انہیں قسم قسم کے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ ماما نے مجھ سے کہا کہ ہمیں اکثر ٹیکنیکل مسائل اور دیگر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس لیے اس نے مشورہ دیا کہ بے شک نوجوان قیادت قومی کاز کے لیے اپنا حصہ ڈالے، لیکن ان مشکلات کا بھی حل نکالے جن سے ہم دوچار رہے۔ اگر آپ لوگ محاذ پر لڑتے ہوئے ان مسائل کا کوئی حل نکال لیتے ہیں تو ہمارے تحریک مضبوط بن کر دشمن کو مزید ذہنی اذیت میں مبتلا کر سکتا ہیں۔

شہری گوریلا بسا اوقات پہاڑی گوریلا کے مقابلے میں زیادہ سہولت یافتہ ہوتے ہیں، لیکن پہاڑوں میں رہنے والے ساتھیوں کو اشیائے خورد و نوش سے لے کر ہر چیز محدود مقدار میں میسر ہوتی ہے۔ تاہم وہ کم وسائل کے صحیح اور درست استعمال کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ میں نے بولان کے مناظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے سوچا کہ آج جذبات پر قابو پانا ہی بہتر ہے۔ اگر ہمیں کچھ کرنا ہے تو ہم شہر میں رہ کر بھی دشمن کے لیے مشکلات کھڑی کر سکتے ہیں۔

اس دن میرا دماغ خیالی آزمائشوں میں گردش کر رہا تھا، جو آج حقیقت میں بدل رہے ہیں۔ ماما چاکر کے درس آج بھی میرے کانوں میں گونجتے ہیں کہ کام کرنے کو بہت کچھ ہے، لیکن سب سے پہلے وطن سے عشق انتہا ہونا لازمی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ : اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی ماننے والوں کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹ ورک متفقہ یا ان کے خیالات کے بارے میں پالیسیوں کا اظہار کرتے ہیں۔