کتاب نام : چے گویرا
مصنف : شاہ محمد مری
تجزیہ : سدرہ بلوچ
شاہ محمد مری کی کتاب “چے گویرا” انقلابی رہنما ارنسٹو چے گویرا کی زندگی اور جدوجہد پر مبنی ہے۔ یہ کتاب نہ صرف چے گویرا کی شخصیت کو پیش کرتی ہے بلکہ اس کے انقلابی نظریات، عوامی حقوق کے لیے کی جانے والی جدوجہد اور عالمی سطح پر سامراج کے خلاف ہونے والی تحاریک کو بھی تفصیل سے بیان کرتی ہے۔اس کتاب میں شاہ محمد مری نے چے گویرا کی زندگی کے تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھا ہے، چاہے وہ ان کی ابتدائی زندگی ہو، لاطینی امریکہ کا سفر، یا کیوبا کے انقلاب میں ان کا کردار۔شاہ محمد مری نے خاص طور پر چے کے خیالات اور ان کے فلسفے پر زور دیا ہے، جس میں سامراج کے خلاف جدوجہد، عالمی انصاف، اور سوشلسٹ معاشرتی نظام کی حمایت شامل ہے۔
اس کتاب کے ابتدا میں شاہ محمد مری چے گویرا کی ابتداہی زندگی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ چے گویرا 14 جنوری 1928 میں ارجنٹینا کے شہر رسایوں میں پیدا ہوئے اور وہ آٹھویں مہینے میں پیدا ہوا تھا لیکن وہ ذہنی طور پر بہت ذہین تھا- چے گویرا کو دمہ کی بیماری تھی جس کی وجہ سے اسکے والدین اُس کی بہت خیال رکھتے تھے چے گویرا کی والدین دونوں ہی سوشلسٹ خیالات کے مالک تھے،چے گویرا کو پڑاھائی کے دوران سیاست کا شوق ہو گیا تھا اُس نے ایک تنظیم میں حصہ لیا اُس تنظیم کا نعرا تھا “بحث نہیں،عمل”چے گویرا انقلابی شاعر پبلو نرودا سے بہت متاثر تھے جس کی وجہ سے وہ کبھی کبھار شاعری بھی کرتے تھے ۔
جب چے گویرا 19 برس کا تھا تو پھر اس نے یونیورسٹی میں داخلہ لیا جہاں اس نے ڈاکٹر بننے کافیصلہ کیا ۔چے گویرا نے 7 سال کی کورس کو 3 سال میں مکمل کر دیا اُس نے 1953 میں ارجنٹینا میں میڈیکل تعلیم کا ریکارڈ توڑ دیا-
چے گویرا ارجنٹینا سے کیوبن انقلاب میں اپنی حصہ لینے پہنچ گیا جہاں ان کی ملاقات کیوبا کے عظیم لیڈر کاسٹرو سے ہوئی اور جلد ہی دونوں کی رقابت بڑھ گئی ۔
جب کاسٹرو کیوبا میں انقلاب کی تیاریوں میں مصروف تھا تو کاسٹرو نےچےکو بطور ڈاکٹر انقلاب میں اپنی کردار ادا کرنے پر مائل کردیا.چے اور کاسٹرو دونوں نے گوریلوں کو تربیت دینا شروع کردیا ۔ اور انہیں گوریلا دستوں کی وجہ سے کیوبا کی انقلاب اپنی منزل مقصود پر پہنچ گئی ۔
کیوبائی کامریڈوں نے ارنسٹو گویرا کو “چے” کا لقب دیا جس کا مطلب ہے سنگت،دوست اور یار- انقلاب میں چے بطور ڈاکٹر بھرتی ہوا تھا مگر جنگ میں بطور مسلح جہدکار پیش پیش رہے ۔
یکم جنوری 1959 میں کیوبا کے اندر انقلاب برپا ہوا تو چے اور کاسٹرو دونوں مسلح ہوکر اپنے دشمن کےخلاف لڑ رہے تھے تو دوسری طرف مزدور ہڑتال کر رہے تھے،شہر اور پہاڑ میں طوفان برپا تھا ہڑتال سمیت پرامن سیاست اور دوسری طرف گوریلا جنگ مل چکی تھی جس کی وجہ سے دشمن نے ہار مان لی اور بتستا نامی ڈکٹیٹر ملک سے بھاگ گیا اور باغی جیت گئے ۔
چے نے جنگ کے بارے میں کُل بارہ کتابیں لکھی اور یہ کتابیں جنگ اور نظریہ مبنی ہے ۔چے گویرا نے انقلاب کے بارے میں لکھا کہ نظریاتی جنگ انقلابیوں کا ایک ہتھیار ہوتی ہے-انقلاب میں اہم عنصر انقلابی نظریات کا ہونا ہے ۔ چے گویرا ایک مکمل انقلابی تھا وہ اپنے عقائد پہ چلا اور اپنے نظریات سے وفادار رہا، چے گویرا دنیا کا بہادر ترین انسانوں میں سے ایک تھا کاسٹرو کہتے ہیں کہ چے گویرا نے یہ کہا تھا کہ “جب نا انصافی قانون بن جائے تو مزاحمت فرض بن جاتی ہے”.اور 1966 میں چے گویرا بلیویا میں چلاگیا،فیڈل کاسٹرو نے اپنے کامریڈ دوست کو بلیویا نہ جانے کا مشورہ دیا لیکن پھر بھی چے نے بات نہیں مانی اور بولیویا کی انقلاب میں شامل ہوا-
9 اکتوبر 1967 میں چے گویرا کو شہید کردیا گیا ۔ اب حکمرانوں اور سرمایہ داری کے چوکیداروں کو اچھے سے معلوم ہے کہ دنیا بھر میں ترقی پسند لوگ چے سے کتنی محبت کرتے ہیں. بقول فیڈل کاسٹرو کے “میں دنیا میں سب سے ذیادہ چے گویرا سے متاثر ہوا ہوں”.
دی بلوچستان پوسٹ : اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی ماننے والوں کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹ ورک متفقہ یا ان کے خیالات کے بارے میں پالیسیوں کا اظہار کرتے ہیں۔