لاپتہ بلوچوں رہنما واحد کمبر کی بیٹی مھلب بلوچ نے آج وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چئیرمین ماما قدیر بلوچ کے ہمراہ کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ میرے والد واحد کمبر کو بلوچ قومی سیاست میں ان کے کردار کی وجہ سے استاد واحد کمبر کے نام سے جانتے ہیں۔ 1970 سے میرے والد ایک سیاسی کارکن اور رہنماء کی حیثیت سے بلوچ قوم کے حقوق کے لیے اپنی آواز بلند کرتے رہے ہیں۔ بلوچستان کی سیاست اور بلوچستان کے سیاسی اکابرین کی اسلام آباد کے حکمرانوں کے ساتھ تعلقات میں کئی نشیب و فراز آئے ، مگر میرے والد کی اپنی قوم سے وفاداری ، محبت اور ان کے جائز مفادات کے دفاع کے لیے ان کے عزم و استحکام میں کوئی کمی نہیں آئ ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ ہمیشہ پاکستانی حکمرانوں کے لیے ایک ناپسندیدہ سیاست دان رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ 14 مارچ 2007 کو پاکستان کے خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے پولیس کی مدد سے انھیں ان کے دوستوں کے ہمراہ گرفتار کرکے 9 مہینے تک جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا ۔ اتنے عرصے ٹارچر سیلز میں رکھنے کے بعد ریاستی حکام نے ان پر دہشت گردی کے 12 کیسز لگا کر ان کو پولیس کے کرمنل انویسٹی گیشن ڈیپارٹمنٹ (سی آئی ڈی) کے حوالے کیا، اور یوں وہ منظر عام پر آئے اور پاکستانی عدالتوں میں ان پر باقاعدہ مقدمات چلائے گئے۔
انہوں نے کہا کہ میرے والد کو 2011 میں کورٹ نے ان جھوٹے اور بے بنیاد مقدمات سے باعزت بری کر دیا۔ اس کے باوجود ریاستی اداروں نے ان کے سیاسی نظریات کی بنیاد پر ان کے گرد گھیرا تنگ کئے رکھا پاکستانی فورسز نے ہمارے گھر پر چھاپے مارے اور ہمارے گھر پر آتشیں ہتھیاروں سے حملے کئے۔ اس صورتحال نے میرے بزرگ والد کو روپوش رہنے پر مجبور کر دیا اور انھوں نے ایک طویل عرصہ روپوشی میں گزارا۔
انہوں نے کہا کہ حالیہ عرصے میں ان کی صحت کمزور ہوتی گئی اور دل کی بیماری کے ساتھ ساتھ انھیں کئی طرح کی بیماریاں لاحق ہوئیں۔ اسی و وہ اپنے رشتہ داروں کی مدد سے مغربی بلوچستان منقتل ہوگئے جہاں سے انھیں علاج کے لیے ایران کے شہر کرمان میں لے جایا گیا۔ علاج کا دورانیہ بڑھنے کی وجہ سے ان کی رہائش کا بھی اسی شہر میں بندوبست کیا گیا تاکہ انھیں متعلقہ ڈاکٹرز کے پاس جانے میں آسانی رہے۔ 19 جولائی 2024 کو میرے والد واحد کمبر خریداری کے لیے گھر سے باہر نکلے۔ وہ اپنے گھر سے قریبی دکان سے خریداری کر رہے تھے کہ ایک پژو فارس نامی سفید رنگ کی ایرانی گاڑی میں چار آدمی آئے اور میرے والد کو زبردستی اپنی گاڑی میں بٹھانے کی کوشش کی۔ میرے والد نے مزاحمت کی اور قریبی دکانداروں نے بھی مداخلت کی کوشش کی۔ لیکن انھیں بھی دھمکی آمیز رویے کے ذریعے دور رکھا گیا اور میرے والد کو اغواء کرکے لے گئے۔ چونکہ وہ کرمان میں ایک اجنبی تھے، اس لئے بھی مقامی لوگ جو اس واقعے کے چشم دید گواہ ہیں اس صورتحال کو سمجھنے سے قاصر رہے۔ تاہم انھوں نے فوری طور پر میرے والد کے گھر میں یہ اطلاع دی اور ساری صورتحال بیان کی۔
وہاں ان کے خیر خواہوں نے مختلف ذرائع سے انھیں تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن ان کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ اب اس بات میں شک کی گنجائش نہیں ہے کہ انھیں پاکستان کے خفیہ اداروں نے اپنے ایجنٹس کی مدد سے تلاش کرنے کے بعد اغواء کرکے پاکستان منتقل کیا ہے اور یہاں وہ کسی خفیہ قید خانے میں رکھے گئے ہیں۔ عینی شاہدین کے بیانات ، واقعاتی ثبوت اور استاد واحد کمبر کی شخصیت سے یہ واضح ہے کہ انھیں ریاست پاکستان کے اداروں نے اغواء کے بعد جبری لاپتہ رکھا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میرے والد ایک بزرگ شخص ہیں جو عملی طور پر ایک نیم ریٹائر زندگی گزار رہے تھے۔ یقینا ان کا بلوچ قومی سیاست میں ایک بڑا اور رہنمایانہ کردار رہا ہے اور اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن سچائی یہی ہے کہ ان کی صحت نے انھیں عملی جدوجہد سے دور رکھا تھا۔ جبری گمشدگی انسانیت کے خلاف ایک ایسا جرم ہے جسے کسی بھی طرح جائز قرار نہیں دیا جاسکتا اور ایک بزرگ شخص جو زیر علاج تھے ان کو اغواء کے بعد جبری طور پر لاپتہ رکھنا جبری گمشدگی کے عمل کی شدت کو بڑھا کر اس کو مزید مجرمانہ بناتا ہے۔ ایسے میں یہ ملکی سالمیت کا معاملہ نہیں رہتا بلکہ ایک اندھے انتقام کی شکل اختیار کرتا ہے، اجتماعی سزا بنتا ہے۔ جس نے بلوچستان کے ہر گھرانے کو تاریکی میں دھکیل دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میرے والد جن کی روپوشی کی وجہ سے ہم نے گذشتہ 17 سال ان کی جدائی میں برداشت کئے، دل کے مرض میں مبتلا ہیں۔ حال ہی میں ان کی انجیو پلاسٹی ہوئی ہے اور اسے دن میں کئی مرتبہ بروقت دوائیوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ ڈاکٹرز نے سختی سے ہدایت کی ہے کہ ان کی کچھ دوائیاں انھیں ہمیشہ لینی چاہئیں اور ڈاکٹروں کی نگرانی میں رہیں۔ یہاں تک کہ یہ ہدایت بھی کی گئی ہے کہ صرف مخصوص کمپنی کی دوائیاں استعمال کی جائیں تاکہ معیار میں فرق کی وجہ سے ان کی صحت کو نقصان نہ پہنچے۔ اگر انھیں بروقت دوائیاں نہ ملیں تو ان کی زندگی کو خطرات لاحق ہوں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سوال کہ انھیں کس لئے اغواء کیا گیا ہے، اس کا جواب اغواء کرنے والے بہتر دے سکتے ہیں لیکن ہمارے قیاس و خدشات یہی بتاتے ہیں کہ پاکستانی حکام بلوچ قومی تحریک پر دباؤ بڑھانے کے لیے انھیں استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ ماضی میں بھی حراست کے دوران ان پر تشدد کیا گیا اور ان پر پریس کانفرنس کرنے کے لئے دباؤ ڈالا گیا تاکہ وہ ناکردہ گناہوں کا اعتراف کرے لیکن انھوں نے یہ بات تسلیم نہیں کی۔ اب بھی شاید وہ تشدد اور نفسیاتی دباؤ کے ذریعے انھیں مجبور کرکے ایک جھوٹا بیانیہ سامنے لانا چاہتے ہیں۔ اتنے عرصے وہ پاکستان کی قید میں ہیں شاید روزانہ ان پر تشدد کیا جا رہا ہے، انھیں تکلیف پہنچانی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم آپ کے توسط یہ بات بھی رکارڈ پر لانا چاہتے ہیں کہ شاید انہیں کمزور کرنے کے لئے ان کی فیملی کو بھی نقصان پہنچانے کی کوشش کی جائے۔ میرے والد واحد کمبر کو اگر کچھ ہوا تو اس کی ذمہ دار ریاست پاکستان اور اس کے عسکری ادارے ہوں گے۔ہم واضح کرتے کہ خاندان ان کی جبری گمشدگی پر ہرگز خاموش نہیں رہے گی۔ ہم وہ تمام ذرائع استعمال کریں گے جن سے ان کی بازیابی اور رہائی کا امکان ہو۔ انسانی حقوق کے تمام اداروں اور بلوچ قوم سے ہم اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس جدو جہد میں ہمارا ساتھ دیں۔ اس پریس کانفرنس کا مقصد حکام کو یہی پیغام پہنچانا تھا کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کریں اور استاد واحد کمبر کی بازیابی اور فوری رہائی ممکن بنائیں کیونکہ انھیں جھوٹے مقدمات میں پاکستان کی ٹرائل کورٹ باعزت بری کرچکی ہے۔ ان پر ہمارے علم میں کوئی ایسا الزام نہیں ہے کہ جس کی بنیاد پر انھیں بیرون ملک علاج کے دوران اغواء کرکے پاکستان لا کر قید میں رکھا جاسکے۔