“میرے بھائی کی جبری گمشدگی اور 10 سالہ انتظار کی اذیت”
تحریر: حفظہ بلوچ، ہمشیرہ چنگیز بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
11 جنوری 2014 کا دن ہماری زندگیوں میں ایک گہرے زخم کی طرح ہمیشہ کے لیے ثبت ہو گیا۔ اس دن میرے بھائی چنگیز بلوچ کو خضدار سے جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا، اور یہ دن ہمارے لیے ایک اذیت ناک واقعہ بن گیا۔ وہ لمحہ، وہ دن، ہر سال 11 جنوری آ کر ہمارے دلوں میں تازہ زخم کی طرح سوجھتا ہے، اور ہماری درد بھری یادوں کو مزید بڑھا دیتا ہے۔
یہ دس سال ہماری زندگیوں کی سب سے کٹھن مدت رہے ہیں۔ ہر سال، ہر 11 جنوری کو، ہماری آنکھوں کے سامنے اس دن کی ہولناکی پھر سے زندہ ہو جاتی ہے۔ یہ دن ہمارے والدین، ہمارے خاندان، اور ہمارے دلوں کے لیے ایک اذیت بھرا دن ہوتا ہے، جو ہمیں ہر سال یاد دلاتا ہے کہ ہم نے کیا کھویا ہے اور اس درد کا کوئی انت نہیں۔
دس سالوں کے دوران، ہم نے امیدوں کا سلسلہ قائم رکھا، عدالتوں، کمیشنز، اور تحقیقاتی اداروں کی طرف دیکھتے رہے، لیکن نتائج کی کوئی خبر نہیں ملی۔ یہ انتظار ایک ذہنی اذیت کی صورت اختیار کر گیا، جو ہر لمحہ ہمارے دلوں میں ایک چپکے زخم کی طرح موجود ہے۔
یہ درد نہ صرف ہمارے دلوں کی گہرائیوں میں بلکہ ہمارے پورے خاندان کی زندگی میں ایک سیاہ دھبے کی طرح چھپ گیا ہے۔ بھائی کی عدم موجودگی نے ہمارے گھر کو خالی کر دیا ہے، اور ہر سال 11 جنوری آ کر ہمیں اس خلا کا مزید شدت سے احساس دلاتا ہے۔
ہماری یہ فریاد نہ صرف ہماری ذاتی درد کی عکاسی کرتی ہے بلکہ ہر اس خاندان کی حالت کو بیان کرتی ہے جو اسی طرح کی اذیت سے گزر رہے ہیں۔ ہم انصاف کے متمنی ہیں، اور ہماری دعا ہے کہ کوئی ہماری آواز سنے، ہماری درد کو سمجھے، اور ہمارے بھائی کی واپسی کی راہیں تلاش کرے۔
یہ مضمون میرے بھائی اور ہر ایسے فرد کے نام ہے جو اغوا اور جبری گمشدگی کی اذیت میں ہے۔ ہمارا درد اور انتظار ایک اجتماعی درد ہے جو انسانی حقوق کی جنگ کی علامت ہے۔ ہمیں امید ہے کہ ہماری فریاد سنی جائے گی اور انصاف فراہم کیا جائے گا۔
دی بلوچستان پوسٹ : اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی ماننے والوں کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹ ورک متفقہ یا ان کے خیالات کے بارے میں پالیسیوں کا اظہار کرتے ہیں۔