میرک جان ایک مہروان دوست ۔ بارگ بلوچ

631

میرک جان ایک مہروان دوست

تحریر: بارگ بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان میں کئی دہائیوں سے جنگ چل رہی ہے اور اس جنگ میں بلوچ نوجوانوں نے بہت سی قربانیاں دی ہیں۔ مرد ہو یا عورت، بوڑھے ہو یا جوان سب قربانیاں دیتے آرہے ہیں۔ بلوچوں کی موجودہ جو جنگ ہے بی ایل اے کی مجید بریگیڈ نے اس میں بہت جدت اور شدت پیدا کی ہے۔

یہ جنگ ایک مخلص اور سادہ مزاج باز خان مری سے شروع ہوکر ریحان اسلم تک پہنچ جاتی ہے۔ ریحان اسلم کی قربانی نے عزیز زہری جیسے نوجوان پیدا کیے جو زخمی حالت میں بھی دشمن سے لڑ کر آخری گولی کے فلسفہ کو اپناتا ہے یا پھر سائیں زیشان کی طرح بھوک اور پیاس کو گلے لگا کر دشمن کو خاک چٹواتے ہیں۔

آج میں مجید بریگیڈ کے ایک مخلص اور ایماندار دلیر اور بہادر، جو آزادی کے جوش و جذبے سے لیس ایک نوجوان کی بات کرونگا جس کا مخلصی پند ڈکھ اور دوستوں سے مخلصی سے پیش آنا ایک ہنستا ہوا چہرہ جو اپنے وطن کے عشق میں فدا ہونے والے نوجوان ہے فدائی میرک کا کا ذکر کرنا چاہونگا۔

میرک میں جانتا ہوں کہ میرا قلم آپ جیسے کرداروں کا حق لفظوں میں بیان نہیں کرسکتا لیکن کچھ یاداشتیں ہیں جسے لکھنی کی کوشش کروں گا۔

مجھے یاد ہے وہ دن جب ہم گشت پر نکلے تھے سردی کا موسم تھا اور ہم 8 گھنٹے مسلسل گشت پر تھے، اپنی منزل کی طرف جارہے تھے تو ہم آٹھ گھنٹے کے بعد اپنے منزل پر پہنچ گئے تو اُدھر دوستوں سے سلام دعا ہوا پھر بیٹھ کر ہم نے چائے پی، ہم بہت تھکے ہوئے تھے وہاں میری ملاقات فدائی میرک سے ہوئی۔ میرے لیے زیادہ تر سنگت نئے تھے لیکن جب میں نے میرک کو دیکھا وہ دوستوں سے پیار محبت اور ایک نرم لہجہ سے پیش آ رہا تھا۔ ہم اس سے پہلے کبھی نہیں ملے تھے لیکن میرک سے ملنے کہ بعد ایسا لگا کہ ہم ایک دوسرے کو پہلے سے جانتے ہیں اور اسکا ملنا اپنا پن کا احساس دلاتا ہے یا پھر یوں لگتا تھا کہ اس سے پہلے ہم کہیں ملے ہیں ۔

کچھ گھنٹے ہم نے وہاں دوستوں کے ساتھ گزارے پھر ہمیں وہاں سے نکلنا تھا سفر کے لیے۔ سردیوں کا موسم تھا اور میرے بدن میں ہلکا سا جیکٹ دیکھ کر شاید میرک کو لگا کہ مجھے سردی لگ رہی ہے اور اس نے اپنا جیکٹ نکال کر میری طرف بڑھا دیا اور کہا کہ سنگت آپ یہ پہن لو آپ سفر پر جارہے ہیں آپ کو سردی لگے گی۔ میں نے کہا کہ میں آپ کا جیکٹ نہیں لے سکتا یہاں آپ کو سردی لگے گی تو آپ نے ایک مسکراہٹ بھری آواز میں کہا کہ ہم اوتاک میں ہیں اور مجھے سردی نہیں لگتی ہے ۔ میرک کی مسکراہٹ بھری ضد کے سامنے میں سرنڈر ہوگیا اور جیکٹ پہن لیا اور ہم وہاں سے رخصت ہوئے۔

یوں ہی کچھ دن گزر گئے تو مجھے میرک کی مخلصی ایمانداری اس کا نرم لہجہ اور اس کا ساتھیوں سے محبت یاد آرہی تھی تو میں نے دوستوں سے پوچھا یار میرک لوگ کب آئیں گے وہ مجھے بہت یاد آرہا ہے تو دوستوں نے بولا کہ پتا نہیں کب آئیں گے تو میں اُس کا انتظار کرتا رہا پھر 6 یا 7 مہینے کہ بعد پتا چلا کہ وہ کوئی اور گراؤنڈ پر گیا ہے۔ میں میرک کا انتظار کرتا رہا تو ایک دن ایک دوست ایک وائس میسج جو ھکل میڈیا کا تھا وہ لے آیا اس وائس میسج میں وہ بول رہا تھا کہ دوست نے گاڑی کو گیٹ پر بارود سے اڑا دیا ہے اور ہم جنگ کر رہے ہیں، طالب نے کچھ فوجیوں کو مارا ہے ہم یہیں پر مورچہ لیئے ہوئے ہیں تو میں نے اِس آواز کو سن کر مجھے میرا دوست میرک کا آواز لگا۔

میں نے دو تین مرتبہ وائس کو سنتا رہا تاکہ میں کنفرم کرسکوں کہ واقعی یہ میرک کی آواز ہے وائس سن رہا تھا کہ دوستوں نے کہا کہ یہ میرک ہے تو مجھے میرک کے ساتھ گزارے وہی کچھ گھنٹے یاد آنے لگے وہ ہنستا چہرہ اس کی مخلصی جس نے مجھے سردی سے بچنے کے لیے اپنا جیکٹ دیا ۔ یہ زمین کے وہ عاشق ہیں جو غلامی کو آنکھ دکھا کر اپنے سر زمین کے لیے فدائین کرتے ہیں۔

میرک کی مہروانی مخلصی اور اس کا جوش و جذبہ ہمارے لیے چیدہ بنے ہوئے ہیں۔ میرک اپنی بہادری، زمین کا سچا سپاہی اور ایمانداری کی وجہ سے ہر ایک بلوچ کے دل میں اور تاریخ کے پنوں میں ہمیشہ زندہ ہے ۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی خواہش مند ہیں، ان کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹورک متفقہ ہے یا اس کے خیالات کی پالیسیوں کا اظہار ہے۔