مقبوضہ بلوچستان میں پنجابی، پاکستانی انٹیلی جنس کے جاسوس یا مزدور؟
تحریر: حاجی خان بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
انٹیلی جنس کیا ہے؟
انٹیلی جنس کی روایتی معنی دوسروں ( اپنے دشمن قوتوں ) کے بارے میں فوجی، اقتصادی، اور ثقافتی معلومات جمع کرنا ہے، جس کا اطلاق ‘علم’ (حالات، ملک، حکومت، سرگرمیوں، واقعات، یا کسی خطرے کے بارے میں آگاہی) پیدا کرتا ہے، جو کسی بھی حکومت یا تنظیم کو strategic اور tactical فیصلے کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔
کسی ملک یا کسی گوریلا جنگی تنظیم کے انٹیلی جنس ادارے کی بنیادی ذمہ داری ممکنہ خطرات، دشمن قوت کے سرگرمیوں اور کارروائیوں کے بارے میں درست معلومات فراہم کرنا، پیچیدہ مسائل، قومی سلامتی کے خطرات، مواقع اور خطرات کی تشریح کرنا ہے۔
انٹیلی جنس کے روایتی کرداروں میں سے ایک فوجی کارروائیوں کی حمایت کرنا ہے۔ اس میں نہ صرف حکومت اور فوج کو آنے والے حملوں سے خبردار کرنا شامل ہے بلکہ مسلح افواج کو مختلف فوجی کارروائیوں کی منصوبہ بندی اور ان پر عملدرآمد کے لیے ضروری معلومات فراہم کرنا بھی شامل ہے۔ اس میں روایتی طور پر دشمن قوتوں اور تنازعات کی نوعیت، خطہ، مزاج، اور صلاحیتوں کے بارے میں تفصیلات شامل ہیں۔ تمام فوجی آپریشنز انٹیلی جنس پر انحصار کرتے ہیں، اور انٹیلی جنس اداروں اور نیٹورک کے ذریعے حاصل کردہ معلومات بڑی حد تک کسی آپریشن کی کامیابی یا ناکامی کا تعین کرتے ہیں۔
انٹیلی جنس ادارے یا نیٹورک حملے کے مقامات کی نشاندہی کرنے، دشمن فوج کی نقل و حرکت پر ڈیٹا اکٹھا کرنے اور سپلائی آپریشنز میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ علم مسلح افواج کو کامیاب حملے کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔
بلوچستان میں پاکستانی انٹیلی جنس ادارے، ان کے جاسوس اور ان کے طریقہ کار
مقبوضہ بلوچستان میں حالیہ آزادی کی تحریک کو کمزور کرنے اور شکست دینے کے لیے پاکستان نے ہمہ وقت اپنے باقی جنگی قوتوں کے ہمراہ انٹیلی جنس اداروں کو پیش پیش رکھا ہے، چاہے وہ مسلح تنظیموں کے خلاف آپریشنز ہوں، بلوچستان کی آزادی سے منسلک سیاسی کارکنوں اور بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کی ماورائے عدالت گرفتاری اور قتل ہوں، مثلاً توتک میں اجتماعی قبروں اور روزانہ مسخ شدہ لاشیں ملنا۔
( پاکستانی انٹیلی جنس کے ایک اہلکار کے مطابق عوامی لیگ، بلوچستان نیشنل پارٹی اور ایم کیو ایم کے خلاف فوجی کارروائی “ٹارگٹ کلنگ” کئے گئے ہیں۔ جن کے مطابق کراچی میں پاکستانی انٹیلی جنس اداروں کے ذریعے لگ بھگ پندرہ ہزار سے سولہ ہزار لوگوں کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا تھا۔)
بلوچستان میں پاکستانی انٹیلی جنس کے ادارے ( آئی ایس آئی(ISI)، ایم آئی(MI)، ای بی IB, ایف آئی اے FIA انٹیلی جنس برانچ، ایف سی South and North انٹیلی جنس ونگ، اسپیشل پولیس انٹیلی جنس برانچ، انسداد دہشتگردی counter-terrorism انٹیلی جنس برانچ، پاکستان بحریہ Navy انٹیلی جنس ونگ، پاکستانی فضائیہ Air force انٹیلی جنس ونگ، کوسٹ گارڈ انٹیلی جنس ونگ، ڈیٹتھ سکواڈ ) مختلف طریقہ کار اپنا کر کام کرتے نظر آتے ہیں۔ جیسے کہ ایم ای اور ای ایس ای کی انٹرنل اور پولیٹیکل ونگ کی طرف سے بلوچستان اسمبلی میں اپنے تیار کردہ سیاسی جماعتوں سے ان کے من پسند سیاستدان ہوں یا بلوچستان کے مختلف اضلاع میں تعینات کردہ ان کے حامی آفیسرز ہوں۔ اسکول، کالج اور یونیورسٹیوں میں اساتذہ کے شکلوں میں ان کے جاسوس ہوں جو طلباء پر نظر رکھ کر ان کی پروفائلنگ کرتے ہیں۔ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں sleeper cells کے طور پر ان کے ایجنٹس ہوں یا کوئی خاص مشن پر بھیجے گئے ان کے اسپیشل ایجنٹس ہوں۔
پاکستانی انٹیلی جنس اداروں کے sleeper cells کے کارندے ( بلوچستان میں ڈیوٹی پر تعینات فوجی اہلکار بھی شامل ہیں ) جن میں بلوچ، سندھی، پٹھان، اور اکثریت پنجابیوں کی ہے، ان کو مقامی کلچر، زبان، قاعدے، راہ رسم کی پابندی (mannerism) کی تربیت دے کر بلوچستان کے مختلف اضلاع میں مختلف ناموں اور شناخت کے ذریعے تعینات کیا جاتا ہے، ان میں سے کئی کو مقامی لوگوں میں شادی کرنے کا بھی کہا جاتا ہے تاکہ کہ وہ ان علاقوں میں لمبے عرصے تک رہ کر اپنے مشن سر انجام دے سکیں۔ ان sleeper cells کے ایجنٹس کو مزدوروں کے شکلوں میں یا کاروبار کے ذریعے یا روزگار کے بہانے اپنے مشن کے لیے تیار کر کے بھیجا جاتا ہے، مثلاً کسی سڑک کے کنارے پر سبزی، فروٹس، یا شربت کی ریڈی لگا کر، یا بازار کے اندر کوئی دکان کھول کر وہاں کے لوگوں اور ان کے نقل و حرکت پر نظر رکھ کر، ان کے حوالے سے معلومات اکٹھا کر کے، کہیں پر ہجام کی دکاں کھول کر لوگوں کے ساتھ گہل مل کر ان سے مختلف حربوں کے ذریعے علاقائی معلومات نکلوا کر، گلی گلی گھوم کر، گھر گھر جانے والے سوداگر یا کسی بھکاری کے پردے میں جاسوس بن کر علاقائی، جغرافیائی، اور وہاں کے مقامیوں کے بارے میں تفصیلی ڈیٹا اکٹھا کر کے یا کسی چوک پر گاڑی کھڑی کر کے آئس کریم بیچنے والے کا روپ دھار کر جاسوسی کر کے، یا نشہ آور افراد یا پاگل بن کر بازاروں میں، گلی کوچوں میں پھرنے والا جاسوس جو مقامیوں کے بارے میں، علاقے کے جغرافیہ کے بارے میں، گلی کوچوں کے بارے میں، وہاں کے کاروبار کے بارے میں، اور اپنے فوجی سرگرمیوں کو سر انجام دینے کے متعلق معلومات حاصل کرتے ہیں۔
جیسے کہ جنرل جارج واشنگٹن نے برطانیہ کے خلاف امریکہ کی آزادی کی جنگ کے دوران ھیل نامی ایک شخص کو ہدایت دے کر کہا تھا کہ وہ ایک استاد بن کر علاقے کے لوگوں میں گھل مل جائے، ان کے ساتھ اٹھ بیٹھ کر وہاں کے لوگوں سے اس علاقے کے بارے میں معلومات حاصل کرے۔
Gamliel Cohen, کو اسرائیل کے انٹیلی جنس کی طرف سے عربوں کے علاقے میں طویل عرصے کے لیے وہاں سے معلومات اکٹھا کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا اور ان کے جیسے کئی جاسوس بھی تھے جن کو اپنی حقیقت چھپانے کے لیے وہاں کے عرب عورتوں سے شادی کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔
Yhoshua Hankin, جو کہ ایک پراپرٹی ڈیلر تھا اور فلسطینی زبان اچھے طریقے سے بول سکتا تھا اور فلسطینی کلچر سے کافی حد تک واقف تھا، ان کو فلسطین میں جنگی معلومات حاصل کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔
بلوچستان میں پاکستانی انٹیلی جنس کے اہلکار اکثر اپنے مختصر حساس مشن یا کوئی حاص جنگی یا مختلف علاقائی معلومات حاصل کرنے یا مقامی لوگوں کی پروفائلنگ کے لئے الگ الگ این جی اوز NGOs، فری میڈیکل کیمپ، صحافیوں یا بلاگرز Bloggers ( جو سیر و تفریح کے لیے مختلف جگہوں، بشمول پہاڑوں کا بھی رخ کرتے ہیں ) کے ذریعے مختلف اضلاع میں جاتے ہیں۔ اس سے ان کے اصل عزائم اور ان کی شناخت پوشیدہ رہتے ہیں۔
اسی طرح یہودیوں کے پالماچ اسکاوٹ کے ارکان Botanist اور Naturalist کے روپ دھار کر فلسطین کے مختلف پہاڑی اور آبادی والے علاقوں میں گھوم پھر کر وہاں کے لوگوں، وہاں کے کلچر، اور علاقے کے جغرافیائی معلومات جمع کرتے تھے۔
اکثر پاکستانیوں خاص طور پر پنجاب کے لوگوں سے یہی سنے کو ملتا ہے کہ بلوچستان میں پنجابی مزدوروں کو مارا جاتا ہے، دوسری طرف مقبوضہ بلوچستان میں دو دہائیوں سے پاکستان سے آزادی کے لیے مسلح جدوجہد اور ساتھ ساتھ پاکستان کی ظلم و سفاکیت زور پکڑ چکی ہے، بلوچستان کی عوام پاکستان کی ظلم و بربریت، بےروزگاری اور غربت کی وجہ سے اپنے آبائی علاقوں و اپنے وطن کو چھوڑ کر نقل مکانی اور ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ تو یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب بلوچستان کی عوام پاکستانی مظالم، بےروزگاری اور غربت کی وجہ سے نقل مکانی اور ہجرت پر مجبور ہے تو پورے پاکستان (پنجاب، سندھ، کے پی کے)، جہاں اچھے اچھے روزگار کے کئی مواقع ہیں، کو چھوڑ کر مقبوضہ اور جنگ زدہ بلوچستان میں ہی کیوں مزدوری کرنے آتے ہیں؟ پاکستانی انٹیلی جنس اور فوج کے اہلکار عرف پنجابی مزدوروں کو بلوچستان کی آزادی کے علمبردار مسلح تنظیموں کی طرف سے نشانہ بنانے کا سلسلہ کوئی نئی بات نہیں، یہ سلسلہ بلوچستان کی آزادی کی جنگ کے شروع سے ہی چلتی آ رہی ہے۔ جس بلوچستان میں روزانہ پاکستانی فوج اور اس کے انٹیلی جنس کے اہلکار بلوچ عوام پر بے دریغ اور بے تحاشا ظلم کر کے اپنے کمزور ہوتے ہوئے قبضے و بلوچستان کی معدنیات و قدرتی وسائل کی لوٹ مار کو برقرار رکھنے کی کوشش میں ہیں اور جن کے مقابلے میں بلوچستان کے عظیم فرزند اپنے مادر وطن کی دفاع میں دن بہ دن مزید شدت کے ساتھ پاکستان کی فوج و انٹیلی جنس اداروں پر قہر بن کر ٹوٹ رہے ہیں اور دو دہائیوں سے بلوچستان خون سے لت پت ہے، تو یہاں سے کوسوں دور پنجاب کے مزدور کونسی مزدوری کرنے آتے ہیں؟
یہ کوئی پنجابی مزدور نہیں، پنجابی مزدور کے لباس میں پاکستانی انٹیلی جنس اور فوجی اہلکار ہیں، یہ وہی پنجابی، وہی پاکستانی فوجی اور پاکستانی انٹیلی جنس کے اہلکار ہیں جو روزانہ بلوچستان کے کونے کونے میں بلوچ عوام اور بلوچستان کے مختلف اضلاع کی جاسوسی کرنے آتے ہیں، جو روز بلوچ عوام کی چادر و چاردیواری کو پائمال کر کے گھر گھر کے معلومات اکٹھا کرتے اور لوگوں کی پروفائلنگ کرتے ہیں، یہ وہی پنجابی مزدور ہیں جو بلوچستان کے کوچوں کوچوں میں جا کر بلوچستان کے دفاع میں کھڑے سرمچاروں کو کاؤنٹر کرنے اور اپنے فوجی کارروائیوں اور آپریشنز کے لیے ڈیٹا اکٹھا کرتے ہیں۔
پاکستانی صحافیوں اور کچھ تھکے ہوئے نام نہاد بلوچ جہدکاروں (جنہوں نے پاکستانیوں کے ساتھ مل کر پنجابی مزدوروں کا رٹ لگایا ہوا ہے) سے ایک شریفانہ سوال ہے، دنیا میں کون سا انٹیلی جنس ادارہ اپنے ایجنٹس یا جاسوسوں کی تصدیق ظاہری طور پر کرتا ہے؟ اور آپ سے گزارش ہے کہ پاکستانی پروپیگنڈہ اور بیانیہ کو فروغ دینے سے پہلے حقائق کی جانچ پڑتال کر کے پاکستانی انٹیلی جنس کے پنجابی مزدور والے بیانیہ پہ بحث مباحثہ کریں اور سوال اٹھائیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی خواہش مند ہیں، ان کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹورک متفقہ ہے یا اس کے خیالات کی پالیسیوں کا اظہار ہے۔