مذاکرات کا اختیار میرے اور ماہ رنگ کے پاس نہیں پہاڑوں پر بیٹھے نوجوانوں کے پاس ہے- اختر مینگل

831

بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنماء نے کہا ہے کہ بلوچستان میں انسرجنسی میں شدت ریاستی تشدد اور پالسیوں کا نتیجہ ہے-

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی اردو کے صافی سحر بلوچ کو انٹرویو میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنماء سردار اختر جان مینگل نے کہا ہے کہ انھیں ریاستی رویہ اور غیر سنجیدگی نے قومی اسمبلی سے استعفے پر مجبور کیا-

بلوچ رہنماء نے کہا جب میں نام ریاست لیتا ہوں تو اس میں ریاست کے وہ تمام ادارے چاہے فوجی ہو سول ہو سیاسی ہو میڈیا ہو اور عدلیہ شامل ہیں انکی غیر سنجیدگی اور بلوچستان کو نذر انداز کرنے کی رویہ نے مجھے اس اسمبلی سے مستعفی ہونے پر مجبور کیا ہے-

انہوں نے کہا سیاست میں قوتوں کی مداخلت سیاسی انجینئرنگ پاکستان میں شاید اب شروع ہوئی ہو بلوچستان میں تو قیام پاکستان سے ایسے ہی چلا آرہا ہے سیاسی انجنیئرنگ کرکے مصنوعی لوگوں کو قیادت دی جاتی ہے جن کا عوام سے کوئی تعلق نہیں-

بی بی سی کے پرگرام میں صحافی سحر بلوچ کا سوال کیا پارلیمنٹرین سیاسی پارٹیوں کی ناکامی سے گراؤنڈ میں ویکیوم پیدا ہوا اس نے مسلح مزاحمت پر یقین رکھنے والوں کو گراؤنڈ فراہم کیا کہ جواب میں بلوچستان نیشنل پارٹی رہنماء کا کہنا تھا بلوچستان میں عسکریت پسندی یا بندوق پر یقین رکھنے والوں کی حمایت میں اضافہ ریاستی زیادتیوں تشدد اور انصافیوں کی وجہ سے ہوا ہے-

اختر مینگل کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں ہمیشہ سے لوگ پہاڑوں پر جاکر ریاست کے خلاف ہتھیار نہیں اُٹھائے ہوئے تھیں بلوچستان میں اس سے قبل جتنے انسرجنسی کے تحریکیں ہوئے ہیں بعد ازاں وہ مین اسٹریم سیاست کا حصہ بن گئے ہیں یہ تو ریاست ہے جو بلوچوں کے زخموں کروجنا چاہتا ہے-

انہوں نے اس حوالے سے کہا کہ بلوچ کی حالیہ انسرجنسی نوجوانوں کے ہاتھوں میں ہے اور بلوچستان کا نوجوان ہمارے ہاتھوں سے نکل چکا ہے-

اخترمینگل نے کہا ہے کہ پاکستان بطور ریاست بلوچوں سے کوئی دلچسپی نہیں اسے بلوچستان کے سائل وسائل معدنیات گوادر، ریکوڈک اور سیندک چاہیے-

انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا ہے کہ اگر ریاست معاملات کی سنجیدگی سے حل چاہتا ہے کہ تو بلوچستان کو ایک صوبے تسلیم کرے ابتک تو بلوچستان کو کالونی تصور کیا جاتا رہا ہے اور اسکے بعد جو باتیں ہونگے یا مذاکرات ہونگے وہ پہاڑوں پر بیٹھے بلوچوں سے ہونگے-

اختر مینگل نے مزید کہا ہے کہ بلوچستان میں مسلح مزاحمت ریاستی آپریشنوں اور تشدد کا نتیجہ ہے اگر اسکا حل چاہئے تو مذاکرات مجھ سے اور ماہ رنگ سے نہیں ہوسکتے اسکے لئے ریاست کو پہاڑوں پر لڑنے والے مزاحمت کاروں سے بات کرنی ہوگی جو بلوچستان کی آزادی کی بات کرتے ہیں-