مجھے غلامی کی کوئی شکل قبول نہیں – چیئرمین لال جان بلوچ

464

مجھے غلامی کی کوئی شکل قبول نہیں

تحریر: چیئرمین لال جان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

سردار عطاء اللہ مینگل مثبت سوچ وطن دوست شخصیت کے حامل تھے، سیاست میں آئے تو قبائلی سردار ہونے کے باوجود انہوں نے نیم قبائلی اور نیم سرداری جاگیردارانہ نظام کے خلاف بھر پور جدو جہد کی ، اور قوم پرستی کے حوالے سے بھر پور کردار ادا کیا،

1972 میں جب وہ وزیر اعلیٰ تھے تو انہوں نے بلوچستان اسمبلی میں 21 جون 1972 کے اجلاس میں جو سرداری سسٹم اور اہلیان ریاست کی مراعات کے خاتمے کی قرار داد جمع کرادی، جبکہ دوسری طرف ریاست سرداری سسٹم کو بلوچستان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھنے کا پروپیگنڈہ کرتی رہی ہے، اس قرارداد کی مخالفت وفاقی حکومت اور وفاقی وزیر داخلہ عبد القیوم خان ہدایت پر جام آف لسبیلہ اور چیف آف سراوان نی کی۔

سردار عطاء اللہ مینگل کہتے تھے کہ “سرداری سسٹم نے اپنی عمر پوری کرلی ہے اسے اب ختم ہونا چاہئے، مگر سرکار نے اب بلوچستان میں ایک ہی قبیلے کے اندر دو دو تین تین سردار پیدا کر رکھے ہیں، انہیں بطور کاؤنٹر فورس کے بلوچستان کے حقیقی سیاسی قوتوں کے سامنے کھڑا کر دیا جاتا ہے اور انہیں مالی مراعات اور سیاسی آکسیجن فراہم کی جاتی ہے”،

سردار عطاء اللہ مینگل نے اپنی سیاسی زندگی کی بڑی بھاری قیمت ادا کی قید و بند کی صعوبتوں کے علاؤہ سردار عطاء اللہ مینگل نے اپنے فرزند ارجمند اسد اللہ مینگل کی قربانی دی جن کے لاش کے بارے میں آج تک معلوم نہ ہوسکا، مگر سردار عطاء اللہ مینگل نے کبھی اس کا تذکرہ نہیں کیا اگر کبھی کسی نے اس واقعہ کا ذکر کر بھی دیا تو سردار صاحب نے کہا کہ “تمام بلوچ نوجوان میرے لئے اسد اللہ مینگل ہیں” ،

سردار عطاء اللہ مینگل کو بلوچ قوم میں انتہائی عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا، ان کا شمار نواب مری** نواب اکبر بگٹی* جیسے ہستیوں کے ساتھ کیا جاتا ہے،جنہوں نے اپنی کردار اور کارناموں کی وجہ سے لچنڈری حیثیت حاصل کی، وہ بلوچستان کے دیگر سرداروں سے مختلف تھے ان کا وسیع مطالعہ تھا اور ان کی پوری زندگی بلوچ قوم کیلئے وقف کی تھی، سردار عطاء اللہ مینگل نے بلوچستان کی سیاست اور دیگر معاملات پر وسیع اثرات ڈالے،

ریاست کی نظر میں وہ ایک سرکش رہنما تھے، جنہوں نے مرکز کے آمرانہ اقدامات کو کبھی تسلیم ہی نہیں کیا انہوں نے 1958 اور 1978 کی مسلح مزاحمتوں میں حصہ لیا،

ایک سوال پر سردار اختر نے کہا کہ ‘میں نے اور میرے بھائی نے انہیں اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی وہ اپنے حالات زندگی کو تحریر کروائیں تاکہ ان کو کتابی شکل دی جاسکے لیکن وہ اس بات کیلئے تیار نہیں ہوئے والد محترم کہتے تھے’ کہ “بائیو گرافی کیلئے سچ لکھنا پڑے گا جبکہ جھوٹ بولنا مجھے نہیں آتا” ۔

نواب اکبر بگٹی اور شہید بالاچ کی شہادت کے بعد اوربعدازاں بلوچستان میں فوجی آپریشنز اور اختر مینگل کی گرفتاری سے ان کے مزاج میں تلخی آتی گئی اور ان کا موقف میڈیا سے لاپتہ ہوگیا، یہاں تک زندگی کی آخری دنوں میں انہوں نے میڈیا سے قطع تعلق کردیا بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ “ہم پاکستان سے ناراض نہیں بلکہ بیزار ہیں”
اسی طرح ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ “مجھے غلامی کی کوئی بھی شکل قبول نہیں” “میں بلوچستان کیلئے لڑ رہا ہوں بلوچستان کی یہ جنگ میرے لئے ایک ایسا فریضہ بن چکی ہے جیسے کسی مسلمان کیلئے نماز چاہے یہ جنگ میں اپنے ہاتھوں سے لڑوں اپنے دل سے یا دماغ سے آپ اس کو غداری کا نام نہیں دے سکتے
لیکن اگر آپ چاہیں تو اسے بغاوت کا نام دے سکتے ہیں
لیکن یہ میرے لئے اعزاز ہے”

بلوچستان کی آزادی ان کے دل ودماغ میں بَس چکی تھی اس نظام سے وہ بیزار تھے، اپنے سیاسی دوست ولی خان کو جب خط لکھتے ہیں تو انہیں بھی اس نظام سے بیزاری پر تلقین کرتے ہیں:
“ولی! مجھ سے آزادی کے مقدس نام کی قسم لے لو، جس کو “پاکستان” کہا جارہا ہے وہ “عظیم تر پنجاب” کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ـ تمہیں باچا خان کی پشتون دوستی کی قسم ، سچ سچ بتاؤ؛ کیا “عظیم تر پنجاب” کے ساتھ ہم لوگوں کا گزارا ممکن ہے؟ ـ کیا اس سے بھی زیادہ تلخ تجربے درکار ہیں؟ ـ ممکن ہے آپ کے ہاں صورت حال اس قدر سنگین نہ ہو لیکن سندھ اور بلوچستان میں جس سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اور جس تیزی سے مقامی آبادی کو اقلیت میں بدلنے کی کارروائیاں کی جا رہی ہیں اس نے ہمارے لئے صرف دو راستے کھلے چھوڑے ہیں ـ یا تو ہم اپنے قومی تشخص سے دست بردار ہوجائیں یا پھر “آزادی یا موت” کو شرط اور شعار بنا کر “عظیم تر پنجاب” سے چھٹکارہ حاصل کرنے کی جدوجہد شروع کردیں”

سردار عطاء اللہ مینگل اکثر مولانا محمد عمر پڑنگ آبادی۔ رحمہ اللہ فاضل دارالعلوم دیوبند کا ایک جملہ دہراتے تھے، کہ “مولانا محمد عمر صاحب نے اپنے صاحب زادے آیت اللہ درانی کو ہدایت کر رکھی تھی کہ میرے مرنے کے بعد تعزیت نہ لینا کیونکہ جو قوم اپنے حقوق اپنے جیسے بندوں سے حاصل نہیں کر سکتا وہ خدا سے میری کیا مغفرت لے سکتا ہے” سردار صاحب اکثر کہتے تھے، کہ ہمارا وطن بلوچستان انتہائی مردم خیز ہے، لیکن کوئی اپنی صلاحیتوں کو وطن کیلئے بروکار لائے۔

وہ کہتے تھے کہ “رقیاتی کام بڑے بڑے پروجیکٹس موٹر ویز ایئر پورٹس صحت اور تعلیم کے بڑے بڑے مراکز پنجاب میں تعمیر ہورہے ہیں، لیکن ایٹمی دھماکے اس کے تباہ کن اثرات بھوک افلاس جہالت بیروزگاری اور پسماندگی فقط بلوچستان کیلئے مختص ہے” ۔

میرے مسجد کے پیش امام نے بتایا کہ جس وقت سردار عطاء اللہ مینگل کا جنازہ وڈھ میں ہورہا تھا اس وقت عوام کا جم غفیر تھا انتہائی زیادہ رش تھا، جس کی وجہ سے وہ جنازہ گاہ سے دور ایک عمارت کی چھت سے جنازہ میں شریک ہونا چارہے تھے دل میں خیال آیا کہ اپنے اساتذہ سے پوچھوں کہ جنازہ گاہ سے دور چھت سے جنازہ میں شرکت کرنا کیسا ہے اس نے اپنے استاذِمکرم استاذ العلماء حضرت مولانا مفتی نعمت اللہ صاحب سے مسئلہ پوچھا استاذ نے کہا کہ کس کا جنازہ ہے کہ اتنا جم غفیر ہے جب پیش امام نے بتایا کہ سردار عطاء اللہ مینگل کا جنازہ ہے وہ استاد غصے سے کہنے لگے کہ اتنی بڑی شخصیت کا جنازہ ہے اور تم ایک عالم دین ہوتے ہوئے جنازہ گاہ سے دور ہو جاؤ فورا جنازہ گاہ کے بیچ پہنچو شاید آپ کی وجہ سے اللہ پاک سردار صاحب کی کامل مغفرت فرمائے۔

سردار اختر مینگل نے بتایا کہ “ہمارا آبائی قبرستان وڈھ شہر کے عقب میں ہے، لیکن والد نے وہاں کے بجائے ‘لوہی’ میں تدفین کی وصیت کرائی جو کہ چند کلو میٹر کے فاصلے پر وڈھ شہر کے مشرق میں واقع ہے،
سردار اختر مینگل نے بتایا کہ اس علاقے کے بارے میں کہا یہ جاتا ہیکہ نوری نصیر خان جب یہاں آتے تھے تو وہ اس علاقے میں اپنا پڑاو ڈالتے تھے۔

سردار عطاء اللہ مینگل نوری نصیر خان سے بے حد متاثر تھے وہ ان کے آئیڈیل تھے، کیونکہ نوری نصیر خان نے نہ صرف بلوچ قبائل کو اکھٹا کیا تھا بلکہ ان کی پہلی کنفیڈرینسی بھی قائم کی،
نوری نصیر خان کا درخت نور بھرا ہو نہ ہو یا آخرت کے فلسفے کو لیکرشفاعت کے لئے کتنی فضیلت رکھتا ہو عطاء اللہ یہ نیت رکھتا تو شاہ نورانی کے پہلو کو اپنے لئے منتخب کرتا قبائلی سردار تھے لوگوں کے عقیدت کا نفسیات لئے پیر و مرشد بنتا اکیلے قبر کو لیکر ہمارے ہاں اسے نیک شگون نہںں مانا جاتا عطاءاللہ الگ تھے، باغی تھے ہر اس قوت کے باغی جو اسے غلام بنانا چاہتا تھے، اپنے اصولوں پر ڈٹے رہنے والا عطاءاللہ جاتے جاتے بھی اپنی نئی روایت بنا گئے مٹی سے عشق ہو اور اسے لُمہ “ماں” مانا جائے، تو اکیلا قبر کیسے بد شگون ہوگا۔
فرانز کافکا تو نہیں تھے مگر عطاءاللہ بھی نقاب پوش نہیں تھے، اپنے اصلی چہرے کے ساتھ تھے، گبرئیل گاریسا کہلائے یا نہیں مگر تنہائی میں مدفن ہوکر تنہاء رہنے اور لڑنے کا سبق دے گۓ، غصیلہ مگر ضرور تھے لیکن وہ اندر کا کرب تھا، جو زبان پر اظہار بن کر شعلہ بنتا چی گویرا نہ کہلائے مگر وطن کی جنگ کو فرض نماز کہہ کر مقدس بنا گئے۔
عطاء اللہ مایوس نہیں ہوسکتے نہ سیاست سےنہ وطن سے نہ جہد سے مقید تھے، بندی بناۓ گۓ تھے، اپنے بے باک کردار کے ہاتھوں ناقابل برداشت تھا کہ غیروں کو بھی اپنوں کو بھی
‏جنہوں نے سرزمین کے لئے اپنی شان و شوکت، رتبہ، سب کچھ قربان کر دیا، ایسی عظیم ہستیاں کبھی نہیں مرتے، کیونکہ ان کے نظریات انہیں زندہ رکھتے ہیں۔ انسانی زندگی کا دورانیہ 70 سے زیادہ سے زیادہ 100 سال تک ہے، لیکن خیالات ہزاروں سال تک زندہ رہتے ہیں۔

::ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے::
::بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا::


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔