صحافت پر پابندیاں – ٹی بی پی اداریہ

112

صحافت پر پابندیاں
ٹی بی پی اداریہ

بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ کے پریس کلب کو انتظامیہ کی اجازت کے بغیر سیمینارز اور کانفرنسز کے انعقاد کو روکنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ضلع کوئٹہ کے ڈپٹی کمشنر کی جانب سے جاری کردہ ایک نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ یہ قابل اعتراض قدم “امن و امان کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر” اٹھایا گیا ہے۔ تاہم، ریاستی اداروں نے پہلے بھی پریس کلب کو احکامات دے چکے ہیں کہ وہ پریس کلب کے احاطے میں کچھ پارٹیوں کی میزبانی نہ کریں اور پریس کلب کے سامنے دھرنے کو روکیں۔

بلوچستان میں صحافتی اداروں کو سخت قدغنوں کا سامنا ہے، پچھلے مہینے روزنامہ انتخاب اور آزادی کے اشتہار بند کردئے گئے، انہیں بلوچ مسئلے پر لکھنے پر دھمکیوں کا سامنا ہے۔ بلوچستان کے مزاحمتی سیاست کو کور کرنے پر صحافی عثمان کاکڑ کو ہراساں کرنے کے لئے انکے گھر پر پولیس نے چھاپے مارے اور بارکھان میں سکیورٹی کی ناکامی پر سوال کرنے پر صحافی جبری گمشدہ کئے گئے۔ بلوچ مزاحمتی قوتوں کو کوریج دینے پر کئی صحافی جبری گمشدہ و قتل کیئے جاچکے ہیں اور صحافتی ادارے ریاستی جبر کے سبب سخت مشکلات سے دوچار ہیں، جِس سے اظہار رائے کی آزادی محدود ہوچکی ہے۔

بلوچستان میں دو دہائیوں کے دورانیہ میں بیالیس صحافی قتل ہوچکے ہیں، پریس کلبوں پر بندشیں لگی ہیں اور اخبارات کی اشاعت جبراً بند کئے جاچکے ہیں۔ بین الاقومی صحافیوں کی رسائی بلوچستان میں محدود کردیا گیا ہے اور کئی بلوچ صحافی بلوچستان کے سلگتے مسائل پر لکھنے کی پاداش میں جلاوطن ہونے پر مجبور ہوئے ہیں اور بلوچستان میں موجود صحافی فوج اور انٹیلجس ایجنسیز کی ہراسانی کا سامنا کررہے ہیں۔

رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز کی شائع کردہ ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں پاکستان کی دو درجہ تنزلی ہوئی ہے اور 180 ممالک میں سے پاکستان 152 پر آچکا ہے۔ پریس فریڈم انڈیکس میں کہا گیا کہ پاکستان صحافیوں کے لیے دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ دو ہزار جوبیس کے پہلے چھ مہینوں میں پاکستان میں آٹھ صحافی قتل کئے جاچکے ہیں اور اِن ہلاکتوں میں بااثر سیاستدان اور ریاستی مقتدر ادارے ملوث ہیں.

انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں پریس کلبوں یا میڈیا ہاؤسز کو مظاہرین کے خیالات کو نشر کرنے کے لیے ریاستی منظوری حاصل کرنے کا حکم دینے سے ابھرتے ہوئے آوازوں کو روکنا ممکن نہیں ہے۔ ریاستی اداروں کو اس غیر دانشمندانہ فیصلے کو واپس لینے کی ضرورت ہے اور کوئٹہ پریس کلب اور بلوچستان کے اخبارات کو اظہار آزادی کے آئینی حق کے مطابق چلنے دینا چاہیے۔