شہیدِ جاوِداں، جاوید جان – فرید مینگل

224

شہیدِ جاوِداں، جاوید جان

تحریر: فرید مینگل

دی بلوچستان پوسٹ

میں مقروض ہوں وطن کے ہر اس شہید کا جس نے وطن کی خاطر زندگی وار دی۔ مجھ پر اس ٹپکتے پاک پوتر لہو کے ایک ایک قطرے کا قرض باقی ہے جسے دشمن نے وطن کی راہ میں ہمارے ساتھیوں کے بدن سے بہایا ہے، مجھے اور آپ کو ہر اس زخم، اذیت، توہین و ذلت کا گہرا مگر روح تڑپانے والا احساس زندہ رکھنا ہے جو ہم سب نے ہمارے آباو اجداد نے دوست، سنگت اور سکھی سہیلی، سجن محبوب نے ان مسلط کالونیئل حکمرانوں کے ہاتھوں دیکھا اور سہا ہے۔

مجھے جہاں اپنے بخت پر ناز ہے کہ میں بکاؤ اور فریبی جم گھٹوں سے بچ بچا کر اصول پسند نظریاتی و قوم دوست وطن پرستوں کی سنگت میں رہا ہوں تو وہیں پر مجھے اپنی اُس بدبختی پر دکھ ہے کہ مجھ سے میرا ہر قریبی ساتھی ایک ایک کرکے دشمن چھین رہا ہے، انہیں وطن بدر کر رہا ہے کہیں انہیں پابند سلاسل رکھ رہا ہے کہیں انہیں حادثوں میں مار رہا ہے تو کہیں ان کی مسخ شدہ لاش پھینک کر میرا اور میرے ایمان کا کَڑا امتحان لے رہا ہے۔

میرے نزدیک سب سے بڑی اذیت یہ ہے کہ تمہاری مرضی کے بِنا کوئی اصول، کوئی قانون، کوئی طرزِ زندگی تم پر مسلط کیا جائے اور تم اسی کو لے کر برسوں تک زندگی کو گھسیٹ گھسیٹ کر جھیلتے رہو۔ اور مجھ جیسے لوگ یہی اذیت سہتے سہتے گِدھ کی طرح منتظر ہوتے ہیں کہ سانسوں کی روانگی کب ٹوٹ جائے۔ ہم ہی میں سے ایک قسم ایسی ہے جو اپنی سانسیں، دھن دولت، ٹھیکہ کمیشن کے نام کر کے سانسیں بتا کر وجودی بحران سے نکلنے کی ناکام کوشش کر رہی ہوتی ہے، وہیں پھر ایک حلقہ اُن سر پِھروں کا آتا ہے جو زندگی کو اپنے طرز سے جیتے ہیں، ہماری طرح ان کی پیدائش بھلے ان کی مرضی کے بر خلاف ہو مگر وہ مسلط زندگی پر خود مسلط ہو کر اسے اپنی مرضی سے گزار دیتے ہیں۔ انہیں سرکار و سردار کی ناراضگی کا خوف نہیں ہوتا، بے دولت ہونے کی دولت انہیں کھائے نہیں جاتی، وہ ہماری طرح زندگی کو جھیلتے نہیں بلکہ وجودی مقصد دے کر زندگی کو فخریہ جی لیتے ہیں اور پھر وہ لوگ سردار عطااللہ خان مینگل، شہید حاجی عبدالرحمٰن دینارزئی، شہید حاکم علی شہول اور شہید زندہ و جاوِداں جاوید جان لہڑی کہلاتے ہیں۔

تمام شہیدوں کا رنج و غم دکھ، درد سہا ہے مگر شہید جاوید کا درد و غم بے پایاں ہے۔ اس کے متعلق اس کے حوالے سے میرا دماغ آج بھی شَل ہے، وہ اس لیے کہ شہید کے ارمان ہزار ہیں۔ شہید جاویداں نے آنکھیں کھول کر جب چلنا سیکھا تو وہ مادر علمی بی ایس او کی آغوش میں چلا گیا اور پھر وہ وہیں کا رہا۔ اس نے زند و مرگ اس مشعل والے سرخ بیرک اور وطن بلوچستان کے نام کردی تھی۔ پھر کیا ہونا تھا، سب سے پہلے تو عزیز و اقارب نے لاتعلقی کا اعلان کیا اور بے رخی و بے حسی کی داستانیں رقم کیں، دشمن نے گھات لگا کر گھیراؤ کیا، قریب ایک سال کےلیے اسے عقوبت خانوں میں دشمن نے لاپتہ کرکے رکھا اور انسانیت سوز سزائیں دیں۔ وہاں سے جب شہید جاوید نکلا تو ایک نیم مردہ انسان تھا، وہ فقط سانسیں گِن رہا تھا۔ مگر اس نے پھر بھی زندگی کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے اسے پھر بھی اپنی مرضی سے جینے کی تمنا کیے رکھا اور پھر جیا بھی بھرپور عزت کے ساتھ شرف کے ساتھ بہادری و دلیری، دلبری و سوبری کے ساتھ جیا۔

شہید جاوید جان کے درد و ارمان اس لیے زیادہ ہیں کہ اس نے ایک عام “غلام” بلوچ کو درپیش وہ تمام مسائل جھیلے جو زندگی کو اذیت ناک بنا کر اسے زندگی بیزار کردیتے ہیں۔ اس نے ماموں کا قتل دیکھا، دوسرے ماموں کی جبری اغواکاری دیکھی جو ہنوز لاپتہ ہے، ڈیتھ اسکواڈی کارندوں کے ہاتھوں شہید ہدایت اللہ لہڑی کو شہید ہوتے دیکھا اور کاندھا دیا ،خود گمشدہ ہو کر اذیت سہی۔ اپنوں کی بیزاری و بے رخی اور بے حسی دیکھی، دوستوں کا اغوا ہونا قتل ہونا اور مسخ شدہ لاش بننا دیکھا، محبوبہ کی موت دیکھی، غربت دیکھی، زندگی بھر کی در بہ دری دیکھی، رات کی نیند کےلیے آنکھوں کا سوجھنا دیکھا، ہمسایہ برادروں کی مخبری و دشمنی دیکھی، تین بار کے قاتلانہ حملے دیکھے، درویشؔ کے چہرہ کو چھلنی و لہولہان دیکھنے سمیت ہر وہ اذیت و درد دیکھا اور سہا جو میں اور آپ گمان کر سکتے سوچ سکتے ہیں، اور میرے شہید نے وہ بھی سہا جو میں اور آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔ اور پھر درد و اذیت سہتے سہتے زندگی کو اپنی مرضی سے سرخ آنکھیں دکھاتے دکھاتے آخرکار پچھلے سال اسی ماہ ستمبر کے 4 تاریخ کو ریاستی پشت پناہی میں چلنے والے ڈیتھ اسکواڈ کے کارندوں نے بزدلی سے چُھپ کر انہیں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنا کر شہید کر دیا۔

جانتے ہو اذیت کیا ہوتی ہے؟ تمہارے جسم کا کوئی بھی عضو کاٹ کر پھینک دیا جائے اور پھر بھی تم ہوش و حواس میں رہ کر تکلیف برداشت کرتے رہو یہ ہوتی ہے اذیت، اور شہید جاوید کے متعلق میں یہی کہوں گا کہ میرے جسم کا ایک عضو کاٹ کر پھینک دیا گیا اور اب وہ اذیت مستقل ہے۔ میں آج بھی درویشؔ کا سامنا نہیں کر پاتا، میں ان بہنوں کے سامنے آج بھی نہیں جا پاتا جن کےلیے جاوید زندگی بھر ایک ارمان رہا، شاید ایسی رات کبھی گزری ہو کہ ان بہنوں اور اس ماں نے شہید جاوید کی زندگی میں سکون سے گزاری ہو کیونکہ شہید جاویداں ہمیشہ دشمن کی نظر میں تھا۔ یہ سب اذیتیں مل کر جسم و جان اور عقل کو شل کرکے روح کو بھسم کر جلا دیتی ہیں اور پھر میں یہ سوچ کر زندگی کو آگے کی جانب گھسیٹتا ہوں کہ میرے ان شہیدوں کا بدلہ ہوگا، اور وہ بدلہ مکمل انقلاب کے ذریعے آزادی، انصاف اور برابری پر مبنی ایک بلوچ سماج کی تشکیل سے پورا ہوگا۔ وہ خواب جو شہید جاویداں سمیت ہر شہید نے دیکھا تھا ہر جہد کار نے دیکھا ہے وہ پورا ہوگا، تب شاید اذیت کم ہوگی، تب شاید درد و رنج سے چھٹکارا ہوگا، تب ہمارا انتقام و بدلہ پورا ہوگا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی خواہش مند ہیں، ان کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹورک متفقہ ہے یا اس کے خیالات کی پالیسیوں کا اظہار ہے۔