شہدائے راجی مچی اور بلوچ مزاحمت: ایک لازوال داستان – لطیف بلوچ

266

شہدائے راجی مچی اور بلوچ مزاحمت: ایک لازوال داستان

تحریر: لطیف بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

شہید وہ عظیم شخصیت ہوتی ہے جو اپنے وطن، شناخت اور بقاء کے لیے ہر ممکن قربانی دینے کو تیار رہتی ہے۔ وہ اپنی قوم کی آزادی اور خودمختاری کی حفاظت کے لیے دشمن کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہوتا ہے اور مزاحمت کی راہ اختیار کرتا ہے۔ شہید کی قربانی اس بات کا ثبوت ہوتی ہے کہ قوموں کی عزت اور بقاء صرف الفاظ یا دعوؤں سے نہیں، بلکہ قربانیوں سے قائم ہوتی ہے۔ بلوچ راجی مچی کے شہداء نے اپنی جانیں قربان کر کے ایسی ہی ایک داستان رقم کی ہے، جو آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ بن چکی ہے۔

مزاحمت کی علامت شہید اپنی جان دے کر اس عزم کو تقویت دیتا ہے کہ حق و انصاف کی راہ میں کبھی ہار نہیں مانی جائے گی۔ ان کا خون آزادی کی شمع کو ہمیشہ کے لیے روشن کرتا ہے تاکہ آنے والی نسلیں ایک آزاد اور خودمختار فضا میں سانس لے سکیں۔ عظیم انقلابی لیڈر چی گویرا کا قول ہے کہ “بغاوت اس وقت جنم لیتی ہے جب ظلم برداشت سے باہر ہو جائے، اور یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب لوگ اپنی بقا کی خاطر لڑنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔” چی گویرا کے اس قول میں مزاحمت کی وہ حقیقت چھپی ہے جو راجی مچی کے شہداء کی قربانیوں میں بھی جھلکتی ہے۔

البرٹ کامیو، ایک اور اہم مغربی مفکر، شہادت کو بغاوت کی علامت سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک شہید وہ شخص ہے جو دنیا کی بے معنویت کے باوجود ایک اصول یا مقصد کے لیے اپنی زندگی قربان کرتا ہے۔ کامیو کے مطابق، “شہادت وہ آخری عمل ہے جو انسان کو اس کی اپنی زندگی کی حقیقت کا سامنا کرنے پر مجبور کرتا ہے۔” بلوچ شہداء نے بھی اپنی قربانیوں سے یہ ثابت کیا کہ حق و سچ کی جدوجہد بے معنی نہیں، بلکہ اس میں زندگی کی اصل حقیقت چھپی ہے۔

راجی مچی کے شہداء: قربانیوں کی عظیم داستان بلوچ راجی مچی کے شہداء، جن میں شہید حکمت بلوچ، شہید حمدان بلوچ، شہید نصیر بلوچ، اور شہید اصغر بلوچ شامل ہیں، نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر قبضہ گیر ریاست کی بلوچ کش پالیسیوں، خاص طور پر بلوچ نسل کشی اور جبری گمشدگیوں کے خلاف ایک مضبوط پیغام دیا۔ انہوں نے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے کارواں کا حصہ بن کر یہ ثابت کیا کہ قومیں مرنے سے نہیں، بلکہ اپنے اصولوں اور جدوجہد سے دستبردار ہونے پر ختم ہوتی ہیں۔

شہید نصیر بلوچ 27 جولائی کو تلار کے مقام پر جام شہادت نوش کیا، شہید اصغر بلوچ 28 جولائی کو گوادر میں شہید ہوئے، اور شہید حمدان 2 اگست کو نوشکی میں فورسز کی جانب سے دھرنے پر حملے کے دوران فائرنگ سے شہادت کے رتبے پر فائز ہوگئے۔ حکمت اللہ، جو اس واقعے میں شدید زخمی ہوئے تھے، زخمیوں کی تاب نہ لاتے ہوئے 13 ستمبر کو شہادت کے مرتبے پر فائز ہوگئے۔ ان عظیم شہداء کی قربانیاں بلوچ قوم کے لیے لازوال مثالیں ہیں، جو اس بات کی گواہ ہیں کہ قوم کی آزادی اور بقاء کے لیے اپنی جانیں قربان کرنے والے ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔

شہید حکمت بلوچ، شہید حمدان بلوچ، شہید اصغر بلوچ اور شہید نصیر بلوچ کی عظیم قربانی بلوچ قوم کو یہ درس دیتی ہیں کہ قومی آزادی اور خودمختاری کی جدوجہد میں ہر قسم کی مشکلات کا سامنا کیا جائے گا، اور اس راہ پر چلنے والے ہر قربانی کو برداشت کرنے کے لیے تیار رہیں گے۔ ان کی شہادت نے یہ واضح کیا کہ قومی تشخص اور خودمختاری کی حفاظت کے لیے ہر قسم کی قربانی دینا ضروری ہے۔ ان کی قربانیوں نے بلوچ قوم کو یہ سکھایا کہ مزاحمت کبھی ختم نہیں ہوتی، بلکہ ہر شہادت قوم کی جدوجہد کو مزید تقویت بخشتی ہے۔

عزم اور جدوجہد کی بنیاد شہیدوں کی قربانیاں کسی بھی قوم کے لیے مشعل راہ بن جاتی ہیں۔ ان کی یاد دلوں میں ہمیشہ زندہ رہتی ہے اور قوم کے عزم کو تازہ کرتی ہے۔ آج بھی، شہید حکمت بلوچ، شہید نصیر بلوچ، شہید اصغر بلوچ اور حمدان بلوچ کی قربانی بلوچ قوم کے لیے ایک مثال ہیں۔ ان کی یاد میں ہمیں یہ عزم کرنا چاہیے کہ ہم اپنے اصولوں اور جدوجہد سے کبھی دستبردار نہیں ہوں گے۔ ہر قربانی کے عوض ہم آزادی کی راہ پر مضبوطی کے ساتھ قدم بڑھاتے رہیں گے۔

شاعر فیض احمد فیض نے کہا تھا:

“یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر،
وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں۔”

یہ اشعار ان قوموں کی عکاسی کرتے ہیں جو ظلم و جبر کے اندھیروں میں آزادی کی صبح کے منتظر ہیں۔ شہداء کی قربانیاں اس انتظار کو جلا بخشتی ہیں اور قوم کو یہ احساس دلاتی ہیں کہ آزادی کے لیے ہر قیمت ادا کرنی ہوگی۔

راجی مچی کا اجتماع اور ریاستی جبر راجی مچی کا اعلان بلوچ یکجہتی کمیٹی نے 28 جولائی کو گوادر میں کیا تھا۔ یہ اجتماع بلوچ نسل کشی، جبری گمشدگیوں، اور سی پیک کے نام پر بلوچ قوم کے استحصال کے خلاف منعقد کیا جا رہا تھا۔ تاہم، ریاست نے اس اجتماع کو روکنے کے لیے طاقت کا بھرپور استعمال کیا۔ پورے بلوچستان میں سڑکوں کو فورسز نے بلاک کر دیا، قافلوں کو روکا گیا، اور ان پر تشدد کیا گیا۔ فورسز کی فائرنگ سے چار نوجوانوں نے شہادت پائی، اور کئی زخمی ہوئے۔ کئی دنوں تک گوادر کا محاصرہ کیا گیا، اور کھانے پینے کی اشیاء پر بھی پابندی لگائی گئی۔

یہ مظالم ایک بار پھر اس حقیقت کو ظاہر کرتے ہیں کہ جب قومیں اپنے حقوق کی آواز بلند کرتی ہیں، تو ریاستیں جبر اور ظلم کا سہارا لیتی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود، بلوچ قوم کی جدوجہد کبھی ختم نہیں ہو سکتی۔ شہیدوں کا خون ایک زندہ مثال ہے کہ مظلوم قومیں کبھی بھی اپنے حق سے دستبردار نہیں ہوتیں، بلکہ ہر ظلم کے بعد مزید طاقت اور عزم کے ساتھ اٹھ کھڑی ہوتی ہیں۔

شہدائے راجی مچی کی قربانیاں ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ آزادی کی راہ میں ہر قدم مشکل ہوگا، لیکن اگر قوم اپنے اصولوں پر ڈٹ جائے تو کامیابی یقینی ہے۔ شہید حکمت بلوچ، شہید حمدان بلوچ، شہید نصیر بلوچ، اور شہید اصغر بلوچ کی یاد میں ہمیں اپنی جدوجہد کو جاری رکھنا ہوگا تاکہ ان کی قربانیاں رائیگاں نہ جائیں۔ سرخ سلام ان شہداء کو، جنہوں نے اپنی جانیں دے کر قوم کے لیے ایک زندہ مثال قائم کی۔

رہبر ماہ رنگ بلوچ نے اپنی تقریر میں واضح طور پر کہا کہ بلوچ قوم جذباتی نہیں بلکہ نظریاتی بنیادوں پر قائم ایک قوم ہے۔ انہوں نے شہداء کی قربانیوں کو ہمیشہ یاد رکھنے اور ان کے مشن کو ہر قیمت پر پایہ تکمیل تک پہنچانے کا عزم دہرایا۔ انہوں نے کہا کہ بلوچ قوم اپنی سرزمین کی آزادی، بلوچ نسل کشی، اور جبری گمشدگیوں کے خلاف جدوجہد سے کبھی پیچھے نہیں ہٹے گی اور ہر طرح کے ظلم، جبر، اور استحصال کے خلاف آخری دم تک اپنی جدوجہد جاری رکھے گی۔ ماہ رنگ بلوچ کے مطابق، شہداء کی قربانیاں نہ صرف بلوچ قوم کی تاریخ کا حصہ ہیں، بلکہ ان کا مشن اور قومی حقوق کی اس جدوجہد کو ہر حال میں کامیابی تک پہنچانا ہے۔

یہ وہ عزم ہے جو ہر آزادی پسند قوم کے دلوں میں گونجتا ہے، اور راجی مچی کے شہداء نے اس عزم کو اپنے خون سے ایک زندہ حقیقت میں تبدیل کر دیا ہے۔ ان کی قربانیاں بلوچ قوم کے لیے نہ صرف مشعل راہ ہیں بلکہ یہ یاد دہانی بھی ہیں کہ بلوچ نسل کشی، اور جبری گمشدگیوں کے خلاف جدوجہد جاری رہے گی، لیکن اگر قومیں اپنے اصولوں پر قائم رہیں اور اپنے شہیدوں کی قربانیوں کو مشعلِ راہ بنا لیں تو فتح ان کا مقدر ہوتی ہے۔

راجی مچی کے شہداء نے اپنی جانیں قربان کر کے یہ ثابت کیا کہ ظلم اور جبر سے آزادی حاصل کرنا ہر مظلوم قوم کا حق ہے۔ ان کی شہادتیں ہمیں اس بات کی ترغیب دیتی ہیں کہ ہم اپنے مشن سے کبھی پیچھے نہ ہٹیں اور ہر قیمت پر آزادی، بلوچ نسل کشی، اور جبری گمشدگیوں کے خلاف اپنی جدوجہد کو جاری رکھیں۔ سرخ سلام ان عظیم شہداء کو، جنہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے اپنی قوم کو ایک زندہ مثال عطا کی۔

جیسا کہ معروف مفکر نلسن منڈیلا نے کہا تھا: “آزادی کی جدوجہد وہ قوسِ قزح ہے جس کے ہر رنگ میں مزاحمت اور قربانی کی داستان چھپی ہوتی ہے، اور اس کے بغیر کوئی قوم اپنے مکمل حق کو حاصل نہیں کر سکتی۔” یہ قول بلوچ قوم کی قربانیوں کی عظمت اور جدوجہد کی سچائی کی بہترین عکاسی کرتا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ : اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی ماننے والوں کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹ ورک متفقہ یا ان کے خیالات کے بارے میں پالیسیوں کا اظہار ہے۔