سوشلسٹ، لبرلز، سیٹلر ایکٹویسٹ، کنزرویٹو کالونائزر اور بلوچ مقدمہ ۔ چاکر بلوچ

587

سوشلسٹ، لبرلز، سیٹلر ایکٹویسٹ، کنزرویٹو کالونائزر اور بلوچ مقدمہ

تحریر: چاکر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

‏”Every French man in algeria is a colonizer”

فینن نے یہ بات اپنے مشہور کتاب “افتادگان خاک ” میں کی کہ دنیا میں جب بھی قومی تحریکیں ابھری ہیں تو کالونائزر اور مزاحمت کار کی جنگ کا دارومدار قومی طاقت اور راۓ عامہ کو اپنی طرف کرکے جنگ کو حتمی شکل دے کر ایک دوسرے کا کاسہ پلٹنے پرہوتا ہے۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ طاقت کا سر چشمہ عوام ھوتی ہے اور یہی عوامی طاقت تحریک کو دوام بخشنے یا اسکو ختم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

انسرجنسی کا سب سے بڑا فیکٹر اسکا مقصد ہے، اسی مقصد کو بنیاد بنا کر جہدکار اپنے اعمال کو جسٹیفائ کرتے ہیں۔تحریک ایک قوم کو متحرک کرکے اسکو اپنی زمینی حقائق سے آگاہ کرکے انکو قومی منزل کی طرف لے جانے کا نام ہے۔

فینن کے مطابق کالونائزیشن ایک پر تشدد عمل ہے ، اسکی بنیاد تشد پر ہوتی ہے اور اسکو برقرار رکھنے کے سافٹ پالیسیز کا جال بچھایا جاتاہے۔ فینن کا ڈی کالونائزیشن بھی ایک پرتشدد عمل ہے اور غلام کی زندگی قبضہ گیر کی گلے سڑے لاش سے نکلتی ہے ۔تشدد ہی اسے انسانی شرف سے آگاہ کرتی ہے،اسکو دوبارہ انسان بناتی ہے اور اس کو کریٹیویٹی کی طرف لے جاتی ہے۔ فینن کے مطابق تشدد اور ریسزم کالونائزیشن میں ھمیشہ رہنے والے فیکٹر ہیں۔اس کے کالونائزیشن میں کوئ انسانی رویہ سچا نہیں ھوتا سواۓ اس کے جو قبضہ گیریت سے آزاد کرے۔

دنیا کی تحریکوں میں جانے کے بجاۓ بلوچ قومی تحریک پر بات کریں تو ہمارے زمینی حائق ہمارے سامنے آکر ہم سے سوال کرنے لگیں گے کہ تم نے کیا کیا جب مجھے خون سے رنگا جارہا تھا تو ہم تھوڑی دیر تک شرمندہ ھوں گے، پھر وہ احساس مر جاۓ گا۔

آج بلوچ قوم کو ریاستی کالونیل پالیسیوں کا سامنا ہے۔ آج بلوچ قوم کو ہر طرح سے تقسیم کا شکار بنایا گیا ہے۔ آج ہمارے ساحل وسائل پر پنجابی اور ان کے بینفیشریز قابض ہیں۔ بلوچستان کو کاٹ کر سندھ، ایران، افغانستان، پنجاب میں بلوچ اکثریتی علاقوں کوشامل کیا گیا۔ ضیاء کی روس کے خلاف پروکسی جنگ نے لاکھوں پشتونو ں کو بلوچ علاقوں میں آباد کروایا۔ کیا وہ پنجاب میں نہیں رہ سکتے تھے؟ کیا وہ سندھ میں نہیں رہ سکتے تھے؟ اس کا جواب ریاستی کالونیل پالیسی “نیٹیو قوم کو اقلیت” میں بدلنے میں مضمر ہے۔ آج لاکھوں پشتون، ھزارہ بلوچستان میں آباد ہیں۔

لیکن جب بات تحریک کی ہو، جنگ کی ہو، بقا کی ہو تو برز کوہی کے مطابق “جنگ ایک بے رحم عمل ہے ” اور جنرل گیاپ ” جنگ میں لاشوں کو نہیں گِنا جاتا” ان اصولو ں پر عمل پیرا ہونا ہر جہدکار کافرض ہے ۔

فینن کے مطابق” ہر نسل کے پاس ایک مشن ہوتا ہے چاہے وہ اسے پورا کر ے یا اسے دھوکہ دے۔ ” بلوچ قومی تحریک آج ہم تک پہنچی ہے تو اسکے پیچھے ہمارے باپ داداؤں کی لازوال قربانیوں کا ایک سلسلہ ہے جوآ ج ہمارے سامنے “پانچویں انسرجنسی ” کے نام پر ہے۔

یہی فیز ہے کہ جس میں بلوچ قومی تحریک کے اندر تنظیمی سوچ کا تصور اُبھرا اور تنظیم تحریک اور نظریے کو عملی شکل دینے کا کردار ادا کرنے لگے۔اور آج 24سال گزرنے کے بعد بھی نہ صرف جاری ہے بلکہ دن بہ دن اس کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔

ان پر بات کر نے کا اصل مقصد اپنے اصل مدعے کےلیئے ایک فریم بنانا تھا تا کہ مدعے پر سوال اٹھانے والے بلو چ زمینی حقائق کو جان سکیں۔

آج بی ایل اے نے پنجاب سے آنے والے لوگوں کو مارا تو الزام لگایا گیا کہ یہ دہشتگرد ہیں، ان کا مذہب نہیں، ان کو صاف کردیا جانا چاہیے۔ جو کہ بقولِ بی ۔ایل۔اے آرمڑ سروسز سے تعلق رکھتے تھے، اور تحقیق و جانچ کے بعد اُن کے خلاف کاروائی کی گئی۔

سوشلسٹ نظریہ کے ماننے والے بی ایل اے کو دہشتگرد قرار دے رہے ہیں۔ جہاں تک میں نے لینن کو پڑھا ہے وہ تو سامراج کے خلاف تھے، وہ مارکسزم میں قومی سوال کو اول درجے پر رکھتے تھے۔تو پھر عمار بھائ نے کونسی گیتا میں یہ پڑھا کہ بی ایل اے دھشتگرد ہے۔۔ اصل میں سارے پنجابیوں کا بلوچوں کے بار ے میں ایک ہی تصور ہے ، وہ جب بلوچ کو دیکھتے ہیں تو لاشعوری طور پر انکے ذہن میں دہشتگردی کے تصور آنے لگتے ہیں، کوئ بیان کرتا ہے، کوئ نہیں لیکن اندر سے بلوچ کے حوالے سے ایک ہی پیج پر ہیں۔۔ سوشلزم سامراج کے خلاف اُٹھ کھڑے ہونے کا نام ہے نا کہ اسکو ڈیفینڈ کرنے کا۔ اصل مدعا یہ ہے کہ سوشلسٹ ہیں تو کیا پنجابی نہیں؟ سوشلسٹ ہیں تو کیا بلوچ کے خون سے ان کے ہاتھ نہیں رنگے ہو ۓ؟

جی ہیں اور یہی منافق اس ریاست کو قائم رکھنے کےلئے، ان کے نیریٹو کو آگے لیجانے کےلئے لانچ کئے جاتے ہیں تاکہ عوام کو اصل مقصد سے دور رکھا جاۓ۔

مارکس تو سامراج کے خلاف تھا یہ تو مطالعہ پاکستان والی مارکسزم پڑھ کر اے سی کے کمروں میں سرکل کرنے تک محدود ہیں۔۔ انکو پتا ہے کہ انکی اپنی سوسائٹی ایکسٹرمسٹ سے بھری پڑی ہیں اور ان کو کوئ سمجھتا نہیں تو یہ اپنی معاشرے کے بارے میں تھوڑا بلولنے کے ساتھ بلوچ قوم کے مسائل پر بھی تھوڑا بات کرتے ہیں۔ اور بلوچ قوم اپنی غم میں ان کا اصل چہرہ بُھلا کر انکو گلے لگاتی ہے لیکن جب جنگ بڑھتی ہے تو یہ اپنا اصل روپ دھارنا شروع کردیتے ہیں۔!

میں ان سے پوچھنا چاہتاہوں کہ تم کون ھو بی ایل اے کو بتانے والے کہ اسنے کیا کرنا ہے کیا نہیں؟ تم واقعی اگر بلوچ قوم کےلئے ھمدردی رکھتے ہو تو سیدھا مدعے کی بات کرو کہ بلوچوں کو آزاد کرو؟

نہیں کرسکتے؟

کیونکہ تھماری مفادات جڑی ہیں، منافق ہو تم لوگ۔ تم لوگ جانتے ہو کہ یہ آزاد ہوئے تو ھمارا دیوالیہ نکلے گا۔

دوسر ی جلیلہ حیدر صاحبہ! یہ ھزاراہ کمیونٹی سے ہیں، انکو بلوچوں نے مہمان سمجھ کر جگہ دی لیکن یہ تو سیٹلرز بن گئےاور آج انھوں نے اور پشتونو ں نے بلوچوں پر اپنی زمین پر جگہ تنگ کردی۔ان کے مطابق بی ایل دھشتگرد ہے؟ کبھی بلوچ نے کہا تم سیٹلرز ہی ھمارے زمین کے سوداگر ہو؟ تم باہر سے ہوۓ نان بلوچ کمیونٹی بلوچ کا شکر کرو کہ جگہ دی ورنہ پنجابی فوج تھمیں ماردیتی۔ اور آج تم آکے بلوچ قوم کے ھیروز پر لیبل لگاتے ہو کہ یہ دہشتگرد ہیں۔

اب آتے ہیں پنجابی سماج میں، ھر پنجابی اپنے اند ایک فوجی ہے، اس کا پتہ اس وقت چل جاتا ہے جب بلوچ اپنے وت واجہی کےلۓ ہتھیار اٹھاتا ہے۔ فینن کے مطابق لبرل ہو یا ڈیموکریٹ ہو، لیکن کا لونائز ہوتا کالونائز ہی ہے۔اس کی مثال حامد میر، سید مزمل جیسے لوگ ہیں جو سمجھتے ہیں کہ بلوچ کے ساتھ ریفارمسٹ رویہ اپنایا جاۓ۔

بقول فینن “یہ ڈیموکریٹک لبرل قبضہ گیریت کو اوور سمپلیفائ کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس کا حل آزادی نہیں معاشرے کے اندر ریفارم لانا ھوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ جب کالونائزڈ طبقہ اپنے خود مختاری کے لئےتشدد اپناتا ہے تو وہ اسکے خلاف ھونا شروع ہوتے ہیں “

پنجابی کنز ر ویٹو کا رویہ وہی ہے جو فرنسیسوں کا الجزائر کے لوگوں کے ساتھ تھا۔ بلوچ 75 سال سے لاشیں، جیل، اذیتیں، بیماریاں اور جبری گمشدگیوں کے ساتھ شناخت کے بحران کو جھیلتے آرہے ہیں، لیکن انہی پنجابیوں کو فرق تک نہیں پڑا۔ پاکستان کی اسٹرٹیجک لوکیشن بلوچستان کی وجہ سے، کوئل، جپسم، تیل، یورینیم، سوئ گیس سب بلوچ علاقوں کے ہیں لیکن ان کو استعمال کرنے والے پنجابی یا غیر بلوچ سیٹلرز ہیں۔لیکن ان سب کے باوجود بلوچ کے پاس اپنی زمین کے لۓ محبت سے سرشار سینے ہیں، نظریاتی اسلحہ ھے، عشق ھے، ایمان ہے کہ جسکی وجہ سے بلوچ نے کبھی قابض کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کیا۔ آ ج بلوچ قومی تحریک زور پکڑ رہی ہے تو سبکو اپنے اپنے مفادات ڈوبتے دکھائ دے رہے ہیں، تو اسی چکر میں سب یکجا ھو کر بلوچ کے خلاف محاذ ارا ہیں۔ پشتون کہ رہے ہیں کہ بی ایل اے نے دھشتگردی کی،ھزارہ کہہ رہے ہیں کہ یہ انسانیت کے خلاف ہیں، پنجابی تو بلوچ کا اذلی دشمن ہے ۔ لیکن دنیا میں طاقت اہمیت رکھتی ہے، فیصلے طاقتور کرتے ہیں، فیسبکی فلاسفر نہیں۔ آج بلوچ کو یکجا ھو کر کوہ سلیمان سے لے مکران تک ان سب کالونیل محاذوں کو للکارنا ھو گا کہ تھمارے دن تھوڑے ہیں کیونکہ بلوچ اپنی وطن کےلئے جان دیتا بھی ہے اور لیتا بھی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی خواہش مند ہیں، ان کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹورک متفقہ ہے یا اس کے خیالات کی پالیسیوں کا اظہار ہے۔