سرگزشتِ ھیروف – برزکوہی

3108

سرگزشتِ ھیروف

تحریر: برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

زمین کی سربلندی اور آزادی جیسے انمول و منفرد حصول کیلئے خود کو قربان کرنے کا عمل انفرادیت کے غیر موثر نقطے کے گرد گھومنے سے ماورا ہوکر اور اجتماعی فلسفے کے بنیادی حس کو چھو کر ابدی بقا کے احساس کے رنگوں میں شامل ہوتی ہے۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جو وجودیت اور انسانی زیست و حیات، بقا و شناخت کے خلاف قفل لگائے ہوئے زنگ زدہ دروازے کو توڑ کر حقیقی زندگی کے تاج کو اپنے نام کرتی ہے۔ غلامی کی زلالت سے ملے فرسودہ و کہنہ ڈسکورس کو ملیا ملیٹ کرنے کیلئے قربانی کی مستحکم و پائیدار نمونے کو پیش کرتے ہوئے زمین کی کوکھ سے نکلے سپوت مرگ و زیست کے تمام تخیلانہ و روایتی ڈوگمازکو اپنے عمل سے نیست و نابود کرتے ہیں، اور ایک نئے تصور و فلسفے کو تاریخ کے ماتھے کا جھومر بناتے ہیں۔ یقیناً آج اگر سارتر زندہ ہوتے تو اپنے پیش کردہ وجودی فلسفے کی عملی نمائش سے حیرت و مسرت کے باہمی احساسات کے لپیٹ میں آ جاتے۔ کیونکہ شناختی بحران اور وجود و بقا کے بنیادی فکر و فلسفے سے سرشار، اور اجتماعیت کی سربلندی و کامیابی کے سامنے کھڑے مخمصے اور تذبذب سے عاری وطن کے فدائی شہزادے و شہزادیاں تاریخ کے پنوں میں سنہرے الفاظ کے ساتھ ہمیشہ کیلئے امر ہو رہے ہیں۔ آپریشن ھیروف کے فدائین کی کہانی انہی نقطوں کے گرد گھوم کر قومی و اجتماعی فکر و دانش کو ایک انمول تحفے سے نوازتی ہے، یعنی اجتماعی شناخت و بقاء کیلئے فناء ہونا اور فناء ہونے کے بعد بقاء کی ابدی روح کو چھونا حقیقی زیست و حیات ہے۔

جب شام کے سائے سرخ و گلابی رنگوں کی باہمی ملاپ کے ساتھ گوادر میں سمندر کے کنارے اپنے پَر کھولتے ہیں تو کوئی بھی زی روح اس دلفریب نظارے کی روحانی و طلسماتی چاہت سے خود کو دُور نہیں رکھ سکتا۔ ساحل کے اوپر آزاد پرندے ایسے معلوم ہوتے ہیں جیسے کسی فنکار نے اپنے شاہکار کو دلکش بنانے کیلئے آسمان کے کینوس پہ رنگوں کے چھینٹے بکھیرے ہیں۔ موجوں کی روانگی خاموشی کی ساکت روح کو سرگم وسُر سے نوازتے ہوئے ایک دوسرے سے گفتگو کرتے ہیں۔ نرم و گیلی ریت پہ اپنے نرم و نازک پاؤں رکھتی ہوئی ماہل، اپنی ہرنی جیسی آنکھوں میں ہزاروں طوفان و خوابوں کا سمندر لیکر اور وطن کی بے سرحد محبت کے ساتھ ساحل کے کنارے بیٹھتی ہے۔ میکسم گورکی کی کتاب “ماں” ہاتھوں میں لیے وہ کتاب کے مرکزی کردار پاول ولاسوف کی ماں کے انمول ومنفرد جدوجہد کو سمجھتے و پرکھتے ہوئے اپنی ہرنی جیسی آنکھوں کو سمندر کی طرف پھیرتی ہے۔ دُور سمندر میں ایک کشتی نمودار ہوتی ہے، جو ساحل کے کنارے سے رفتہ رفتہ نزدیک ہورہا ہوتا ہے۔ کشتی میں سوار بلوچ ماہیگیر کی آنکھوں میں اُداسی و زباں پہ امباء (ماہیگیروں کی گیت) اور دل کی دھڑکن کو سمجھتے ہوئے حوصلوں کی پیکر، شعور کی روح کو چھونے والی ماہل تاریخ کی روانگی میں تبدیلی و تغیر لانے کا سوچ کر اُٹھتی ہے اور بقائے زیست کی تلاش میں چل پڑتی ہے۔ سرزمین کی محبت کے تخیلانہ و روایتی روح کو عمل کا لبادہ پہنانے والی ماہل قربانی کے احساسات دل میں لیے خاموشی کے ساتھ محوِ سفر ہوتی ہے۔ اس سفر کے آخری کنارے تک ماہل کے فکر و فلسفے کو خون سے سیراب کرنے والے سپوت آنے والے نسلوں کی خوشحالی و وطن کی سربلندی کیلئے گامزن رہیں گے۔

حوصلوں کی پیکر، آنکھوں میں طوفان لیے ماہل دو سال قبل بی ایل اے میں شمولیت اختیار کرتی ہے۔ اجتماعی بقاء و شناخت کو زندہ رکھنے کیلئے ایک سال بعد اپنے خدمات مجید برگیڈ کو پیش کرتی ہے۔ رازداری و خامشی کے ساتھ اپنے شعور کو خنجر کی طرح تیز کرتے ہوئے اپنے مشن کا انتظار کرتی ہے۔ بالآخر جب مشن کو سرانجام دینے کیلئے اُس سے رجوع کیا جاتا ہے تو وہ بلوچ مزاحمتی تاریخ میں نیا باب لکھنے کیلئے آپریشنل کمانڈ سے کہتی ہے: “میری خواہش ہے کہ میں اپنے آخری مشن کو سرانجام دینے کیلئے اکیلے نہ جاؤں، بلکہ میں چاہتی ہوں کہ میں ساتھیوں کے شانہ بشانہ چلتے ہوئے اپنے آخری مشن کی تکمیل ممکن بناؤں۔ کیونکہ میں سمجھتی ہوں کہ ہم یہ صلاحیت رکھتے ہیں کہ ساتھیوں کے شانہ بشانہ چلتے ہوئے دشمن کے غرور، وقار، حوصلے اور طاقت کو ملیا ملیٹ کر سکیں۔” لغویات سے پاک اور شعور سے سرشار ان الفاظ کو سمجھنے کیلئے تھیوریٹیکل فریم ورک میں جھانکنے کے بجائے اگر بلوچ قوم کی نفسیات و اجتماعی فکر کو تاریخی تناظر میں دیکھیں تو حقائق آشکار ہونگے۔ بانڑی، گُل بی بی اور ماھی بیبو کی فکر بلوچ سرزمین کی بیٹیوں کے اذہان میں پیوست ہے، جسے کوئی بھی طاقت روک نہیں سکتا۔ حمل جیئند کی مٹی کے وارث نوآبادکار قوتوں کے خلاف نبردآزما ہوکر خود کو وطن کی آزادی و سرخروئی کیلئے قربان کرتے ہیں۔ ماہل کے یہ الفاظ مزاحمتی تحریک کو ایک نئی امنگ، ایک تعمیرِ نو اور ایک نئے راستے سے روشناس کرتے ہیں۔ لیکن الفاظ کو عملی جامہ پہنانے کیلئے شعور کے اعلیٰ سطح تک پہنچنا پڑتا ہے اور مقصد سے حد درجہ واقف ہونا پڑتا ہے۔ روایتی رائے کو بدلنے، جنگی محاذ میں زنگ زدہ دروازے کھولنے، تحریک کے ستونوں کی تعمیرِ نو ممکن بنانے اور جدت کے تزویراتی خصوصیات کو مدِنظر رکھ کر ماہل آپریشن ہیروف میں اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ مشن سرانجام دینے کا خواہاں ہوتی ہے اور کامیابی کے ساتھ اپنا قومی فرض پورا کرتی ہے۔

تاریخ و تحریک سے شغف، قومی تحریک میں تبدیلی کی ضرورت اور تاریخ میں شناختی بحران سے بچنے کی نظیر اُن کے خیالات میں عیاں ہوتی ہے، یعنی جب تنظیمی کوڈ نام کا انتخاب کرنے کی بات آتی ہے، تو وہ کردستان کی آزادی کیلئے مسلح جدوجہد کرنے والی تنظیم کردستان ورکرز پارٹی (PKK) کے فدائی Zeynep Kinaci عرف زیلان کرد کے کوڈ نام زیلان کا انتخاب کرتی ہے۔ کردستان کی آزادی کی تحریک سمیت دیگر مظلوم و محکوم اقوام میں Zeynep Kinaci مزاحمت کی علامت کے طور جانے جاتے ہیں۔ زیلان کُرد، کرد قوم کی آزادی کیلئے ترکش افواج کی سپاہیوں کے خلاف ۳۰ جون ۱۹۹۶ میں فدائی حملہ کرکے ہمیشہ کیلئے امر ہو جاتی ہے۔

کردستان کی مزاحمتی علامت سے واقفیت، بلوچ قومی تحریک کو عالمی سطح پہ موجود دیگر آزادی پسند اقوام خصوصاً کرد اقوام سے آشنا کرنے کیلئے ماہل بلوچ زیلان کرد کے نام کا انتخاب کرتی ہے۔ جب اُن سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ نے اس عرفیت کا انتخاب کیوں کیا ہے تو وہ کہتی ہے: “میں کردستان کی آزادی کی جدوجہد سے منسلک جہدکاروں کو یہ پیغام دینا چاہتی ہوں کہ ہم بھی اُن کی طرح بہادر و نڈر قوم ہیں اور آزادی کیلئے دشمن سے برسرِ پیکار ہیں۔ میں اُن کو اپنے عمل سے بلوچ قومی تحریک کے متعلق آگاہ کرنا چاہتی ہوں۔”یہ الفاظ اُسکی ذہانت، علم و دانش، شعور و آگاہی کو عیاں کرتے ہیں۔ لیکن جب الفاظ عمل کی ڈوری میں پروئے نہیں جاتے تو خود کی تسکین کے علاوہ اجتماعی فکر و میدانِ جنگ کو روشنی کی کرن نہیں بخشتے۔ مشہور برازیلیئن ماہر تعلیم پاؤلو فریرے اپنی کتاب Pedagogy of the Oppressed میں بھی الفاظ و Dialogue کو Praxis (عمل)سے روشناس کرانے کا کہتے ہیں۔ اُن کے بقول، جب تک ادا کیے گئے الفاظ تفتیش و عمل سے منسلک نہیں ہو سکتے، تو انقلاب کا حصول ممکن نہیں ہوتا۔ ماہل اس حقیقت کو سمجھ کر قربانی کے عمل کا دامن تھامتی ہے اور ہمیشہ کیلئے امر ہو جاتی ہے۔

بلوچ قوم کی نفسیات جنگ کے محور ومرکز کے گرد گھومتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ بلوچ قومی تاریخ میں رونما ہونے والے واقعات ہیں، جہاں نوآبادکار کے خلاف جنگ میں شامل ہونے کیلئے وطن کے سپوت ہمیشہ کمر بستہ رہتے تھے۔ ایک اور پہلو جنسی تفریق سے ماورا ہونا ہے۔ پندرویں صدی عیسوی میں دہلی پہ لشکر کشی کے دوران چاکر خان رند کی بہن بانڑی بھی لشکر کے ہمراہ چل نکلتی ہے اور بہادری کے ساتھ دشمن فریق سے نبردآزما ہوتی ہے۔ لیکن بعد میں انگریزوں کے افسر سنڈیمن سے لیکر پنجابی نو آبادکاروں تک Colonial discourse مذہبی اسکولنگ اور بینکنگ نظامِ تعلیم کے ذریعے بلوچ قومی شناخت، اجتماعی نفسیات، ثقافت، اداب و اطوار کر متاثر کرتی ہے۔ فرانز فینن کے بقول نو آبادکار تعلیمی نظام کو ٹریپ ہاؤس کے طور پر استعمال کرتا ہے تاکہ محکوم قوم کے فررزند اپنے حقیقی شناخت و نفسیات سے دور رہ سکیں۔ مذہب کے نقطے کے حوالے سے کینیا کے نامور مصنف و ناول نگار گوگی وَ تیانگو کہتے ہیں کہ نو آبادیاتی نظام کو مستحکم رکھنے اور اپنے استحصالی عزائم میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے نو آبادکار مذہب کو ہتھیار بنا کر محکوم قوم کی بنیادی فکر و فلسفے کو مسخ کرتے ہیں۔ لیکن بلوچ مزاحمتی تحریک سے منسلک نوجوان شعور کے ہتھیار سے لیس ہوکر دشمن کے تمام عزائم کو خاک میں ملارہے ہیں۔ انہی درس گاہوں سے نکلی ہوئی بہادر بلوچ بیٹی ماہل کالونیل ڈسکورس کے دیے ہوئے تحائف کو ٹھکراتی ہے اور بانڑی، گل بی بی، سمو و شاری کے نقشِ قدم پر چل نکلتی ہے۔ وہ یہ ثابت کرتی ہے کہ مزاحمت میں نئی تعمیر و ترمیم اور بلوچ قوم کو Decolonized کرنے کیلئے قربان ہونا قومی قرض و فرض ہے۔

۲۵ اگست کو شام کے وقت ایس ٹی او ایس اور فتح اسکواڈ کے آٹھ سو بہادر سپوت جدید جنگی مہارتوں اور تزویراتی منصوبوں کے ساتھ بلوچستان کے تیرہ اضلاع میں ۴۴ مقامات پہ موجود مختلف ٹارگٹس کی طرف چل پڑتے ہیں۔ جدید جنگی ہتھیاروں سے لیس وطن کے نڈر و حوصلہ مند شہزادے Coordinative حملوں کے ساتھ دشمن کی تزویراتی تنصیبات، ہیڈکوارٹرز، چوکیوں، معدنیات لے جانے والی گاڈیوں، دشمن فوج کے اہلکاروں اور اُس کی پیرا ملٹری کے اسٹیشنز اور چوکیوں پر پے در پے حملے کرتے ہیں۔ شاہراہوں پہ ناکہ بندی کرکے دشمن کے خفیہ اہلکاروں کو ہلاک کرتے ہیں۔ بیک وقت ان حملوں، ناکہ بندیوں اور تزویراتی کاروائیوں کے برعکس دوسری جانب بیلہ کی فضا خاموشی کے ساتھ گہرے سناٹے کی آغوش میں ہوتی ہے۔ انس، چرند و پرند اپنے گھروں اور گھونسلوں میں مقیم ایک نئے فاقہ کشی، حادثات، تذلیل اور غلامانہ زلالت سے بھرے دن کیلئے آرام کی تلاش میں سرگرداں ہوتے ہیں۔ اچانک فضاء کی خاموشی ایک شدید دھماکے سے ٹوٹ جاتی ہے۔ دھماکوں اور فائرنگ کی گھن گرج سے دشمن فوج کے اہلکار سکتے میں پڑتے ہوئے زمین پہ ڈھیر ہوتے ہیں۔ فدائی ماہل چھ سو کلو بارود سے بھری گاڈی دشمن فوج کے کیمپ سے ٹکراتی ہے اور ہمیشہ کیلئے زمین کی مٹی اور ہوا میں ایک لازوال خوشبو کی مانند پیوست ہوکر امر ہو جاتی ہے۔ چند ہی منٹوں میں فدائی رضوان ایک دوسرے سمت میں چار سو کلو بارود سے بھری گاڑی کو دشمن فوج کے کیمپ سے ٹکرا کر اُڑا دیتا ہے اور تاریخ کے پنوں میں سنہرے الفاظ کے ساتھ ابدی شناخت کو یقینی بنا کر امر ہوجاتا ہے۔ حواس باختہ دشمن دفاعی پوزیشن اختیار کرنے کے قابل ہی نہیں ہوپاتا کہ پانچ فدائین دوسرے راستے سے کیمپ کے اندر داخل ہوکر شدید نوعیت کے حملوں کا آغاز کرتے ہیں۔ اور کیمپ کے ایک حصے پر اپنا قبضہ جما لیتے ہیں۔

بیلہ کیمپ پر حملے سے قبل زیست و مرگ کے حقیقی معنوں کی تشخیص کرنے والے سپوت ایک دوسرے سے محو گفتگو ہوتے ہیں۔ پنجگور کے خوبصورت نظاروں، وشکوش پروم کی دلکش و خوشبو بھری ہواؤں، چتکان کی زرخیر مٹی کی رنگینیوں اور انمول و منفرد پہاڑیوں کی بانہوں سے نکلا ہوا شہزادہ فدائی موند بلوچ عرف میرک ماہل سے کہتا ہے کہ: “گودی، آپ لوگ ہم سے پہلے امر ہو جائیں گے، شہید ساتھیوں کے پاس پہنچتے ہی اُن سے کہنا کہ ہم آپ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے دشمن کو کاری ضرب لگا کر جلد آپ سے بغلگیر ہونے کیلئے پہنچیں گے۔ ہمارے استقبال و جشن کی تیاری شروع کردیں۔”

آپریشن ہیروف کی تیاریوں کے دوران مسلسل و طویل سفر میں پانچ گھنٹے پیدل سفر کرنے اور دو دن تک صرف پانچ گھنٹے آرام کرنے کے باوجود ہوش و حواس کی گہرائیوں کے ساتھ ہرنی جیسی آنکھوں میں طوفانی ہواؤں اور سرزمین و قوم سے محبت کے ٹھنڈے و دلفریب موج لیے فدائی ماہل ہونٹوں پہ تبسم اور چہرے پہ خوشی کی نور سے ساتھ فدائی میرک سے کہتی ہے کہ “بس دعا کرنا سنگت، میرے عمل سے کوئی بے گناہ شہید نہ ہو پائے۔” شعور کے ترازو میں تولے گئے الفاظ فدائی ماہل کی علم و دانش، فکر و سوچ کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان الفاظ سے روخ الدین بیبرز کا یہ قول یاد آتا ہے کہ “ایک حقیقی جنگجو اس لیے نہیں لڑتا کہ وہ اپنے سامنے کھڑے لوگوں سے نفرت کرتا ہے، بلکہ اس لیے لڑتا ہے کہ وہ اپنے پیچھے کھڑے لوگوں سے محبت کرتا ہے۔” قابض کے بیانیے، شعور سے عاری نام نہاد تجزیہ نگاروں اور دانشوروں کے لیے ماہل کے یہ الفاظ خاموشی کے لبادے میں گھرا ایک طوفانی پیغام ہے، پیغام محبت کا، امن کا، آزادی کا اور بلوچ قوم کی شناخت و تشخص کا۔

قومی آزادی کے مقصد کے دوران پیش آنے والے تمام درد، تکالیف، مشکلات اور مصیبتوں کے سامنے مضبوط و مستحکم پہاڑوں کی مانند کھڑے فدائین اپنی آنکھوں میں غلامی کی جلن اور سینوں میں قابضین سے نفرت لیے برداشت کی انتہا تک پہنچ کر محو سفر ہوتے ہیں اور ایک پُرکھٹن و طویل مشن کی تیاروں میں جھت جاتے ہیں۔

تیاریوں کے دوران مستونگ میں ٹارگٹ کی جانب گامزن فدائی آصف نیچاری عرف نوید اور فدائی محمد بخش سمالانی عرف خالد دشمن فوج کے گھیرے میں پھنس کر بہادری کے ساتھ لڑتے ہوئے شہید ہوجاتے ہیں۔ مشن کی تکمیل سے پہلے جنگی مہارتوں، حوصلوں، اور قربانی کے فلسفے سے لیس ساتھیوں کا بچھڑنا انتہائی تکلیف دہ امر ہے۔ وہ ساتھی جو مشترکہ طور پر آپریشن کی تیاریوں کے دوران دشمن سے نبردآزما ہونے کیلئے جدید منصوبوں کی تشکیل میں مصروفِ عمل ہوتے ہیں، اُن کیلئے اچانک دو اہم ساتھیوں کا بچھڑنا سینوں میں غم کی آگ جلا دیتی ہے، لیکن جب شعور کی چنگاری دل کے گہرے سمندر میں موج در موج ابُھرتی ہے، تو عمل کا دروازہ کھلتا ہے۔ عمل تمام تکالیف اور مشکلات کو حل کرنے کا ابدی ذریعہ بن کر وطن کے شہزادے اور شہزادیوں کو مقصد کی سربلندی کیلئے کمر بستہ کرتی ہے۔ اسی فکر کے پیشِ نظرمقصد کی اہمیت و افادیت اور جنگی حالات میں رونما ہونے والے تکلیف دہ واقعات کے علم سے واقف فدائی ماہل شائستگی اور حوصلوں کے ساتھ فدائی محمد بخش سمالانی عرف خالد کےبڑے بھائی، فدائی غوث بخش سمالانی عرف طالب کو کہتی ہے: “ہم حالتِ جنگ میں ہیں اور جنگوں میں ایسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ ہمیں ہمت نہیں ہارنا چاہیے بلکہ اپنے مقصد سے پیوست مشن کی طرف توجہ دینا چاہیے۔” فدائی غوث بخش سمالانی یہ الفاظ سُن کر بچھڑے ہوئے ساتھی فدائی آصف اور اپنے بھائی فدائی محمد بخش سمالانی کی قربانی کو دل میں سما کر کہتے ہیں: “گودی، آپ جیسے حوصلہ مند سپوت ہمارے شانہ بشانہ کھڑے ہیں تو ہمت اور حوصلے کے ٹوٹنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔” یہ الفاظ ایک روشن مستقبل کی نوید ہیں؛ یہ الفاظ ہمت، حوصلہ، بہادری، جفاکشی، قربانی اور تنظیمی و قومی مقصد کے منفرد رنگوں کی عکاس ہے؛ یہ الفاظ عمل کے کینوس پہ کھینچے گئے نقوش ہیں، جسے دنیا کی کوئی طاقت مٹا نہیں سکتی۔

آپریشن ہیروف میں شامل جانباز فدائین کی کہانی انمول ومنفرد قربانی کی عکاسی کرتی ہے۔ وطن کی دفاع میں تنظیم سے منسلک ہونے والے میشدار سمالانی ایک جھڑپ کے دوران شہادت کے رتبے پر فائز ہوتے ہیں۔ لیکن سرزمین کی آزادی کے مقصد کا باب یہیں سے ختم نہیں ہوتا بلکہ شہید میشدار سمالانی کی قربانی ایک ناگزیر فکر کی مانند اُس کے دونوں فرزند فدائی غوث بخش سمالانی عرف طالب اور فدائی محمد بخش سمالانی عرف خالد کو اپنے والد کے نقشِ قدم پر چلنے اور بلوچ قوم کی سربلندی کیلئے قربان ہونے پر آمادہ کرتی ہے۔ قومی شعور وسوچ کی یہ روانگی دونوں بھائیوں کو اپنی لپیٹ میں لیکر مقصد کیلئے انتہا تک پہنچاتی ہے۔

مجید برگیڈ کو اپنے خدمات پیش کرنے کے بعد آپریشن ہیروف کی تیاریوں کے دوران دونوں بھائیوں کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ ایک ساتھ اپنے آخری مشن کو سرانجام دیں اور دونوں بھائی ہاتھوں میں ہاتھ لیئے وطن پر ایک ساتھ قربان ہوکر تاریخ کے پنوں میں قربانی کی ایک لازوال باب کا اضافہ کریں۔ وہ مجید برگیڈ کے آپریشنل کمانڈ کے سامنے اپنی اس خواہش کا مقصد بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ “ہم سرزمین کے تمام فرزندوں کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ آزادی کی خاطر قربان ہونے کا عمل لامحدود ہوتا ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے باپ، بیٹے، بھائی، بہن سب کو اپنا اپنا حصہ شامل کرنا پڑتا ہے۔ کیونکہ یہ عظیم مقصد ہر ایک سے یکساں قربانی کی مانگ کرتی ہے۔ فدائی خالد سمالانی مشن کی تکمیل سے پہلے ساتھیوں سے جسمانی طور پر جدا ہوتے ہیں۔ لیکن اس واقعہ سے آپریشن ہیروف کے آپریشنل کمانڈ فدائی طالب سمالانی کے حوصلے پست ہونے کے بجائے مضبوط و مستحکم ہو جاتے ہیں۔ وہ اپنے والد شہید میشدار سمالانی اور بھائی شہید فدائی محمد بخش سمالانی عرف خالد کے نقشِ قدم پر چل کر ہمیشہ کیلئے امر ہو جاتا ہے اور تاریخ کے پنوں میں قربانی کی کہانی کا ایک نیا باب نقش کردیتا ہے۔

جان فوسٹر ڈیلس کہتے ہیں کہ دنیا میں مسلسل امن تب تک ممکن نہیں ہوتا جب تک لوگ بہترین صلاحتیوں کو عملی جامہ نہیں پہناتے۔ امن جنگ کی طرح نظریہ، قربانی اور ایک حقیقی ومتحرک ایمان کی مانگ کرتی ہے۔ ان الفاظ کی عملی تشریح ہمیں مزاحمت کی سرزمین نوشکی سے تعلق رکھنے والے فدائی سنگت طیب عرف لالا کی قربانی کی لازوال کہانی میں ملتی ہے۔ وہ غلامی کی ذلالت، دشمن فوج کی تذلیل، چھاپوں، گرفتاریوں، مسخ شدہ لاشوں، خون آشام عزائم کو دیکھ کر ایف سی کی نوکری چھوڑ کر بیرون ملک چل پڑتے ہیں۔ لیکن مقبوضہ بلوچستان میں دشمن فوج کی جانب سے کیے گئے متشدد سرگرمیوں کی یادیں، اور زمین سے محبت کی چاہت اُس کے ذہن پر گہرے نقوش چھوڑتی ہے۔ عیش و آرام کی زندگی ترک کرکے فدائی طیب ۲۰۲۲ میں بی ایل اے کا حصہ بن کر پہاڑوں کا رخ کرتے ہیں۔ ایک سال بعد مجید برگیڈ میں شمولیت اختیار کرکے صبر و تحمل کے ساتھ اپنے آخری مشن کیلئے ذہنی طور پر پختگی اختیار کرتے ہیں۔ آپریش ہیروف کی تیاریوں کے دوران وہ پرانے واقعات کی یادوں کو ٹٹولتے ہوئے کہتے ہیں کہ “میرے لیے اجتماعی تذلیل، مسخ شدہ لاشوں کے ڈھیر، اغوا کاری، آپریشنز اور غلامانہ طرزِ عمل ناقابلِ برداشت تھے۔ پاکستانی فوج کو ترک کرنے کے بعد بھی یہ واقعات مجھے بیرون ملک آرام و آسائش سے رہنے نہیں دیتے تھے۔ اسی لیے میں نے فیصلہ لیا کہ میں جنگ کا حصہ بن کر اپنے عمل سے ان تکلیف دہ یادوں کو توڑ کر رکھ دوں گا اور مادر وطن کے کام آونگا۔” اجتماعی شناخت کے بحران کو بچانے، قومی پرچم کو فضاء میں لہرانے اور فتح کو یقینی بنانے کے عمل میں اپنا بیش بہا حصہ دینے والے طیب ہمیشہ کیلئے ایک ایسی کہانی نقش کرکے جسمانی طور پر جدا ہو چکے ہیں جس سے آنے والی نسلیں مستفید ہونگے۔

ایک جانب ماہل دشمن کے دل پر کاری ضرب لگا کر جنگ کا آغاز کرتی ہے، وہیں مقصد کے ساتھ لپٹا ہوا فدائی رضوان عرف حمل حرکت میں آجاتا ہے۔ اس کا ہر قدم ایک خاموش عہد ہوتا ہے، ہر سانس اس کی زمین سے ایک اٹوٹ وعدہ ہوتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ دشمن کی نگاہیں تیز ہیں، آگے کا راستہ خطرے سے دوچار ہے، پھر بھی وہ بے صبری سے آگے بڑھتا ہے۔ اس کا جسم مزید اس کا اپنا نہیں ہوتا، بلکہ اسکا جسم اب عزم کے مصلوب میں ایک ہتھیار بن جاتا ہے۔ اپنے دل کی ہر دھڑکن کے ساتھ، وہ اپنے آپ کو اس مقصد کے لیے پیش کرتا ہے، اور دشمن کے کیمپ کے دوسری جانب ایک دھماکہ ہوتا ہے اور رضوان، اس غلامی کے طوفان میں ایک قلیل انگارا بن جاتا ہے، جو اس کے پیچھے رہنے والوں کے لیے راستہ روشن کرنے کے لیے مشعل راہ بن جاتا ہے۔

دیارِ شہید سفرخان زہری اور ہمارے ٹِک تیر ضیا عرف دلجان کی ڈگار زہری کے دو انمول نگینے، اور شہید فدائی حافظ زیشان کے کزن فدائی جنید زہری عرف کامی اور فدائی فضل گل زہری عرف شاہویز بھی ھیروف فدائین کاروان کا حصہ ہوتے ہیں۔

اپنے مشترکہ جائے پیدائش زہری کی خاموش آغوش میں ایک ہی مٹی کے دو بیٹے کامی اور شاہویز ایک ایسے سفر پر روانہ ہوتے ہیں، جہاں سے وہ جانتے تھے کہ وہ کبھی واپس نہیں آئیں گے۔ خون میں جکڑے ہوئے، ہواؤں سے جو اُن کے گاؤں میں بہتی تھی، اور ایک ایسی سرزمین سے محبت جس کے دل کی دھڑکن اُن کے اپنے اندر گونجتی تھی، وہ ایک آخری مشن میں رشتہ دار روح بن جاتے ہیں۔ جیسے ہی جنگ کے سیاہ بادل جمع ہوتے ہیں، اُن کی ہمت جڑواں ستاروں کی طرح چمکتے ہوئے، اتھاہ گہرائیوں کے خلاف ڈٹ جاتی ہے۔ کندھے سے کندھا ملا کر، وہ دونوں دشمن کا سامنا کرتے ہیں، اور اپنی جانوں کا نذرانہ اپنے پیچھے چھوڑ جانے والوں کے لیے امن و آزادی کے پختہ وعدے میں پیش کرتے ہیں۔ ان کی قربانی ایک چیخ نہیں تھی بلکہ ایک سرگوشی تھی، جو ان کے آبائی گاوں زہری کی ہواوں کی سرسراہٹ میں ہمیشہ سنائی دیگی۔

دورانِ ناکہ بندی مستونگ کے علاقے کھڈکوچہ میں فتح اسکواڈ کے جانباز سپاہی سنگت شفقت وطن کی دفاع میں شہادت کے رتبےپر فائز ہوجاتے ہیں۔ کئی جنگی معرکوں میں اپنے خدمات پیش کرنے والے جنگجو شفقت وطن کے لہلہاتے فصلوں، دل کو لبھانے والے پہاڑوں، وادیوں، جنگل و بیابانوں اور سب سے بڑھ کر اس سرزمین پہ رہنے والی قوم کی خاطر تمام خواہشات کو ترک کرکے تا ابد زندہ رہنے کا نمونہ پیش کرتے ہیں۔ آج ناگ کی مٹی نازاں ہے اور واشک کی ہوا میں فخر کی خوشبو محسوس کی جاسکتی ہے؛ ناگاہو کے مظبوط و مستحکم پہاڑ اپنے جنگجو کی یاد میں ستاروں سے گفتگو کرتے ہیں؛ چشمے اور ندیاں شہید شفقت کی مسکراہٹوں سے بھری کہانیوں کی مٹھاس کو یاد کرتے ہوئے گہرے سکوت کو توڑ کر ایک دوسرے سے ہم کلام ہوتے ہیں۔ درخت اپنے سائے میں سونے والے فرزندِ وطن کی خوشبو کو محسوس کرتے ہوئے ہوا کے ساتھ رقص کرتے ہیں۔ یقیناً تاریخ میں بلوچ قوم کی بہادری، جفاکشی، قربانی اور حوصلے کے قصے دنیا کے مظلوم و محکوم قوموں کیلئے مشعلِ راہ ہوں گے۔

مسلسل ۲۰ گھنٹے تک بیلہ کیمپ پہ قبضہ جمانے اور دشمن فوج کے ۶۸ اہلکاروں کو ہلاک کرنے کے بعد جانباز فدائین ہمیشہ کیلئے امر ہو جاتے ہیں۔ اور بارہ گھنٹوں تک بلوچستان کے مختلف شاہراہوں اور سڑکوں پہ ناکہ بندی جاری رکھنے کے بعد ایلیٹ یونٹ فتح اسکواڈ اور اسپیشل ٹیکٹیکل آپریشن اسکواڈ کے سپاہی دشمن فوج کے اہلکاروں، خفیہ کارندوں، تزویراتی تنصیبات، فوج کے ہمکار پولیس و لیویز اسٹیشنوں پر کامیاب حملوں کے بعد محفوظ مقامات کی جانب گامزن ہوتے ہیں۔ دشمن کے ۱۳۰ اہلکاروں کو مجموعی طور پر ہلاک کرنے کے بعد آپریشن ہیروف اپنے اختتام کو پہنچتا ہے۔ لیکن یہ آپریشن بلوچ قومی تحریک میں ایک سنہرے باب کا اضافہ کرتے ہوئے امید و اُمنگ سے بھرے ایک نئے مرحلے کی نوید پیش کرتی ہے۔ بلوچستان پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کا یہ مرحلہ آنے والے مرحلوں کی شدت اور جدت کا ایک نمونہ ہے۔

جنگ کی شدت شاید شہادت میں اضافے کا باعث بنے، لیکن منزلِ آزادی کی جانب نزدیکی کا موجب بن کر بلوچ قوم کی خوشحالی اور خوشنودی کو ممکن بناتی ہے۔ سُست روی سے دشمن سے نبردآزما تو ہوا جا سکتا ہے، لیکن جنگ کا یہ وطیرہ طوالت کا شکار ہوکر منزل کو پرے کردیتا ہے۔ اسی نقطے کو رابرٹ ٹیبر اپنی کتاب War of the Flea میں بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جنگ کی شدت کنوینشنل وارفئیر کی جانب گامزن ہونے کا پہلا مرحلہ ہوتا ہے، جس میں مخالف فریق کیلئے دفاعی پویشن اختیار کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچتا۔ اور جب مخالف فریق دفاعی پوزیشن اختیار کرتا ہے تو جدید جنگی مہارتوں اور حکمت عملیوں سے لیس گوریلا جنگجو اپنے منزلِ مقصود کے قریب پہنچ جاتے ہیں۔ وہ عوامی حمایت و تعاون کے ساتھ مخالف فریق کی نفسیات پہ حاوی ہوتے ہیں۔ اس طرح گوریلا جنگجو فتح کے ثمرات سے مستفید ہوتے ہیں: کیونکہ جنگ کا آخری مرحلہ حوصلوں اور نفسیات کی طاقت پہ مبنی جنگ ہوتی ہے، ایک فریق کے حوصلے پست ہو کر دوسرے کی کامیابی کو یقینی بناتے ہیں۔

آپریشن ہیروف جدید جنگی مہارتوں، حکمت عملیوں اور offensive فوجی مہم کا ایک ایسا نمونہ ہے، جس کی نظیر جدید بلوچ مزاحمتی تحریک میں نہیں ملتی۔ سخت ڈسپلن، coordination, تزویراتی منصوبے اور فیصلہ کن اقدامات تنظیم کی طاقت کی ایک انمول جھلک ہیں۔ بقولِ سن زو جنگیں ہتھیاروں سے نہیں بلکہ موثر حکمت عملیوں، ڈسپلنڈ کمانڈنگ، بروقت فیصلوں، باریک بینی پہ مبنی حملوں اور رازداری کے ساتھ لڑ کر جیتی جاتی ہیں۔ دشمن کو جب کاری ضرب سے دوچار کرنا ہو تو وہاں حملہ کرو، جہاں حملے کا گماں تک نہ ہو۔ اسی نقطے کو مزید واضح کرتے ہوئے رابرٹ ٹیبر لکھتے ہیں کہ گوریلا جنگوں میں جہاں مخالف فریق کو جب طاقت کے معاملے میں برتری حاصل ہو تو گوریلا جنگجووں کیلئے بہترمنیجمنٹ، شعور سے لیس قیادت، لچکداری و ہنر حتمی کامیابی کی ضمانت دیتے ہیں۔ آپریشن ہیروف ان الفاظ کی عملی تشریح کی ایک جھلک ہے، جو موجودہ تحریک آزادی میں ایک نئے مرحلے کا اضافہ کرتا ہے۔

آپریشن ہیروف انتہا نہیں بلکہ ابتدا ہے، ایک شدید نوعیت کے مرحلے کی شروعات کا پہلا نمونہ ہے۔ یہ آپریشن دشمن کے سامنے موثر طاقت کی ایک جھلک ہے؛ جدت و شدت کا ایک ایسا مظاہرہ جو تسلسل کی ڈوری پکڑ کر قابض دشمن کے حوصلے کو ملیا ملیٹ کرے گی۔ اس طوفان کے پیچھے دشمن کے قبضے اور اُس کے ہمکار سامراجی عزائم کی تخت و تاج کو الٹنے اور قومی شناخت و بقا کی سربلندی کو ممکن بنانے کیلئے ایک سنگین نوعیت کا سیلاب آگ و شعلے کی مانند بھڑک اُٹھنے کیلئے تیار ہے۔ قابض اور اُس کے ہمراہ استحصالی قوتوں کیلئے آج بھی راہِ فراریت کے دروازے کھلے ہیں۔ اگر وہ اپنے عزائم پہ جمے رہتے ہیں اور تشدد کے عمل کو مزید بڑھاوا دیتے ہیں تو وطن کی دفاع میں اجتماعی فکر و فلسفے کی ہتھیار سے لیس اور جدید جنگی مہارتوں سے سرشار وطن کے سپوت بروقت حملہ کرنے کیلئے ملیں گے۔ وہ ایک نئی صبح کی نوید لیکر دشمن کے قبضے کی سیاہ رات کو قصہ پارینہ بنا کر تاریخ کے پنوں میں منفرد مقام حاصل کرنے کیلئے آخری وقت تک برسرِ پیکار رہیں گے۔ یقیناً حتمی کامیابی ہماری ہوگی۔

آپریشن ھیروف کے شروع ہونے سے چند گھنٹے قبل، تمام فدائین بیٹھے آپس میں گپ شپ لگارہے ہوتے ہیں، اور فدائی جنید زہری کے اس سوال کا جواب اپنی طرح دے رہے ہوتے ہیں کہ “تمہارے لیئے زندگی کیا ہے؟” آخر میں فدائی گودی ماہل بلوچ کہتی ہے کہ “اس سے پہلے کی زندگی، زندگی نہیں تھی، میری تو زندگی آج شروع ہونے والی ہے۔” پھر کچھ توقف کے بعد ماہل بولتی ہے “میں چاہتی ہوں کہ میرا آخری کھانا، میری پسندیدہ بریانی ہو، جو میں اپنے ہاتھوں سے بناکر اپنے تمام فدائین ساتھیوں کو بھی کھلاوں۔” اسکے بعد ماہل مسکراتے ہوئے اٹھ کر بریانی بنانے لگتی ہے، اور تمام فدائین بریانی بنانے میں ماہل کا مدد کرتے ہیں۔ پھر سب ہنستے و بات کرتے ہوئے، اپنی زندگی کا آخری کھانا، ماہل کی بریانی کھاکر، مشن پر نکلنے کی تیاریوں میں لگ جاتے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی خواہش مند ہیں، ان کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹورک متفقہ ہے یا اس کے خیالات کی پالیسیوں کا اظہار ہے۔