ریاستی غیر انسانی و بلوچ کش پالیسیاں بلوچستان میں کشمکش کو مزید ایندهن بخش رہی ہیں۔ این ڈی پی

98

نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے مرکزی ترجمان نے بلوچستان میں جاری حالیہ انسانی حقوق کی شدید پامالیوں پر شدید رد عمل کا اظہار کیا جنہوں نےبلوچستان میں بے چینی اور عدم تحفظ کی فضاء کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ بلوچستان میں سیاسی کارکنوں ، طلبا، ادیب سمیت مختلف طبقہ فکر کے لوگوں کو فورتھ شیڈول میں شامل کرنے کا عمل ایک منظم سازش کا حصہ ہے، جس کا مقصد سیاسی بیداری کو دبانا اور عوامی تحریکوں کو کچلنا ہے۔ سیاسی کارکنان کو جبری گمشدہ کرنا، انہیں ہراساں کرنے سمیت ان کے خلاف مقدمات قائم کیے جا رہے ہیں، جس سے بلوچستان میں خوف اور جبر کا ماحول پیدا ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ، سیکورٹی اداروں کو غیر متناسب اختیارات دینا اور ان کی جانب سے بے جا طاقت کا استعمال ایک تشویشناک صورتحال اختیار کر چکا ہے۔ حالیہ دنوں قلات کے علاقے میں سیکورٹی فورسز نے ایک گھر سے دو بھائیوں کو اٹھا کر بعد میں قتل کرنا بھی انہی خونی پالیسیوں کا شاخسانہ ہے.
بلوچستان میں روزانہ کی بنیاد پر مختلف علاقوں میں سیکورٹی فورسز کی جانب سے مسلسل چھاپے مارے جاتے ہیں، عام لوگوں کو بلا جواز حراست میں لیا جاتا ہے، اور انہیں غیر قانونی طور پر حراستی مراکز میں رکھا جاتا ہے۔ ان حالات میں ایک ایسا قانون پاس کرنا جو اس غیر قانونی، غیر انسانی اور غیر اخلاقی عمل کو قانونی تحفظ فراہم کرنا ہے۔مزید یہ کہ جبری گمشدگیوں کو قانونی بنانے کا زریعہ ہے جہاں لوگوں کو بغیر کسی قانونی کارروائی کے غائب کیا جا ئےگا، اور ان کے خاندانوں کو کوئی معلومات نہیں دی جا ئےگی۔ اس عمل سے مزید ہزاروں خاندانوں کو درد اور تکلیف میں مبتلا کیا جائےگا۔

ترجمان نے کہا کہ بلوچستان میں جاری اس ظلم و جبر سے طلباء اور تعلیمی ادارے بھی محفوظ نہیں رہے۔ ہاسٹلز پر چھاپے، طلباء کو ہراساں کرنا، اور انہیں جبری طور پر لاپتہ کرنا ایک سنگین انسانی المیہ ہے۔ ان چھاپوں نے بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں خوف و ہراس پھیلایا ہے اور طلباء کو اپنی تعلیم جاری رکھنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بالخصوص بلوچستان یونیوسٹی کے گرلز ہاسٹل میں آدھی رات کو منشیات کے نام پر فورسز کاچھاپہ اور سپاہیوں کوبلا جواز طالبات کے ہاسٹل تلک رسائی دینا انہیں حراساں کرنا کسی صورت جائز نہیں، یہ اقدامات بلوچستان کے معاشرتی اور ثقافتی اقدار کے بھی منافی ہیں جبکہ تعلیمی اداروں پر ریاستی جبر کی یہ روش بلوچستان کے مستقبل کے لیے تباہ کن ہے۔

ترجمان نے اس بات پر بھی زور دیا کہ بلوچستان میں جاری ان مظالم اور زیادتیوں، اور عوام کو ان کے بنیادی انسانی حقوق جو سالوں سے تلف کئے جا رہے ہیں بند نا کیا گیا تو اس کے سنگین نتائج بھگتنے پڑیں گے۔ نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی بین الاقوامی انسانی حقوق کے اداروں سے بھی اپیل کرتی ہے کہ وہ بلوچستان کی اس صورتحال کا نوٹس لیں اور ان خلاف ورزیوں کے خلاف آواز اٹھائیں ۔بیان کے آخر میں ایک مرتبہ پھر واضح کرتے ہیں کہ بلوچستان کے عوام پر ہونے والے مظالم کا سلسلہ فوراً بند کیا جائے، اور انہیں ان کے سیاسی، سماجی اور اقتصادی حقوق دیے جائیں۔