ریاستی ردعمل – ٹی بی پی اداریہ

289

ریاستی ردعمل – ٹی بی پی اداریہ

بلوچستان میں جب بھی آزادی کے لئے برسرپیکار مسلح تنظیمیں پاکستان کے عسکری یا اقتصادی اہداف پر حملہ کرتے ہیں، پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے ادارے ردعمل میں جبری گمشدہ افراد کو جعلی پولیس مقابلوں میں ماروائے عدالت قتل کرکے انہیں جنگجو قرار دیتے ہیں۔ بلوچستان میں کئی واقعات ہوچکے ہیں جب ریاستی اداروں نے پہلے سے زیر حراست افراد، جنہیں عدالتوں میں بھی پیش کیا جاچکا ہوتا ہے، انہیں فرضی پولیس ؤ فوج کے مقابلوں میں قتل کر دیا جاتا ہے۔

چھبیس آگست کی رات بلوچ لبریشن آرمی کے آپریشن ھیروف کے ردعمل میں ریاستی اداروں نے حسب دستور پہلے سے جبری گمشدہ افراد کو بلوچ جنگجو قرار دے کر ماروائے عدالت قتل کردیا اور خضدار اور حب کے مختلف علاقوں میں لاشیں ویرانوں میں پھینک دیں۔ نو جبری گمشدہ افراد کو قتل کیا گیا ہے جِن میں چار افراد فیاض جتک، نعیم احمد، سعید میرا جی اور نثار احمد کے نام سے شناخت ہوئے ہیں ، جِنکے کیسز وائس آف بلوچ مسنگ پرسنز کے پاس جمع ہیں اور پولیس کو بھی اِن لوگوں کی جبری گمشدگی کے متعلق اطلاع دی گئی تھی۔

پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر داخلہ محسن نقوی کا کہنا کہ “بلوچستان کا مسئلہ ایک ایس ایچ او کی مار ہے” سے واضح ہوتا ہے کہ ریاستی مقتدر قوتوں کے ترجمانی کرنے والے سیاستدان بلوچستان کے معروضی حقائق سے نابلد ہیں اور پاکستان کے مقتدر قوتیں آپریشن ھیروف کے بعد بھی بلوچ مسئلے کو سنجیدہ لینے کے بجائے انہی پالیسیوں کو دھرا رہے ہیں جِن کے وجہ سے بلوچستان آج ریاستی اداروں کے لئے ایک سُلگتا لاوا بن چکا ہے۔

جبری گمشدہ افراد کو قتل کرنے سے بلوچ انسرجنسی کا خاتمہ ممکن نہیں ہے لیکن اِن پالیسیوں سے بلوچ قوم اور ریاست پاکستان کے درمیان دوریاں مزید بڑھیں گی۔ جب پرُامن سیاست پر قدغن ہوگی، سیاسی رہنما غدار قرار دیے جائیں گے اور جبری گمشدہ افراد کے ماروائے عدالت قتل کرنا جاری رہے گا تو بلوچ نوجوانوں کے پاس مسلح مزاحمت کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچے گا۔

پاکستان کے سیاستدان دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ بلوچ مسئلے کو مزاکرات کے زریعے حل کرنے کے قائل ہیں لیکن حل کی جانب پیش قدمی کے آثار نہیں ہیں اور بلوچستان میں ریاست کی پالیسیوں سے جنم لیتے صورتحال سے واضح ہیکہ بلوچ نوجوانوں میں مسلح جدوجہد کے ذریعے پاکستان سے آزادی کا تصور مزید پروان چڑھ رہا ہے، جس کے سبب مستقل میں جَنگ آزادی میں بلوچ نوجوانوں کی شمولیت بڑھے گی اور جنگ میں تیزی آئے گی۔