خوابوں کی گواہی؛ ماھل کا سرزمین سے داستان عشق ۔ ثناء ثانی

568

خوابوں کی گواہی؛ ماھل کا سرزمین سے داستان عشق

تحریر: ثناء ثانی
دی بلوچستان پوسٹ

رات کی تاریکی گوادر کے نیلگوں آسماں پر چادر کی طرح پھیلی ہوئی تھی۔ ہوا میں ہلکی سی خنکی تھی اور سمندر کی لہرے ساحل پر مدھم شور کرتے ہوئے بار بار واپس جا رہی تھیں، جیسے کوئی پرانا راز سمندر کی گہرائیوں میں دفن ہو اور وہ اسے بیان کرنے کی کوشش کر رہی ہوں۔ آسمان صاف تھا، مگر اس کے گہرائی میں گوادر کا دل بے چین تھا، کیونکہ یہاں گوادر کی دھرتی پر ایک داستان جنم لینے والی تھی، جو صدیوں تک سنائی جاتی رہے گی۔

ماھلو، ایک خاموش طبع لڑکی، سمندر کی لہروں کے روبرو، اس لمحے کو محسوس کر رہی تھی۔ سمندر کی خنکی ہوائیں اپنے لطیف لمس سے اس کی پیشانی کو چھوتی ہوئی گزر رہی تھیں۔ ہوا کی سرگوشیاں اس کے کانوں میں مدھم سی گونج رہی تھیں، جیسے وہ بھی آج کی رات کے راز سے واقف ہوں۔ سمندر کی لہروں کا شور، جو ہمیشہ ماھل کے دل کو سکون دیتا تھا، آج اسے ایک عجیب سی بے چینی کا احساس دلا رہا تھا۔

ماھل کی آنکھیں سمندر کی گہرائیوں میں کچھ ڈھونڈ رہی تھیں، جیسے وہ ان لہروں سے جواب چاہتی ہو۔ گوادر کا سمندر، جو ہمیشہ سکون کا احساس دیتا تھا، آج اسے اپنی لپیٹ میں لے رہا تھا۔ سمندر کی سطح پر ہلکی سی چمک جیسے چاند کی روشنی نے اسے ایک طلسماتی پردہ دیا ہو۔ ہر لہر جو ساحل سے ٹکرا کر واپس جاتی، ایک نئی سرگوشی کے ساتھ ماھل کے دل کی دھڑکن کو تیز کر دیتی۔

سمندر جو بچپن سے ماھلو کا ساتھی رہا تھا، جہاں وہ گھنٹوں بیٹھ کر انقلاب کی داستانیں پڑھتی تھی، شاید ان ہی داستانوں کو پڑھتے ہوئے اُس نے زیلان بننے کا خواب بُنا تھا اور قومی جنگ میں مستقبل کا منظرنامہ اپنے تخیل میں تخلیق کیئے تھے۔ سمندر کی لہروں کا شور تیز ہوتا جا رہا تھا، جیسے وہ ماھل کے اندر اُبلتے ہوئے طوفان کی عکاسی کر رہا ہو۔

سمندر کی پرشور ہواہیں رُخ بدل کر اچانک تیز ہو گئی اور تیز جھونکے ماہل کے بالوں کو ہوا کے دوش آزاد کررہے تھے جیسے ہوا بھی اپنی بے چینی کا اظہار کر رہی ہو۔ ہوا کی سرسراہٹ درختوں کے پتوں کو ہلا رہی تھی، اور دور کہیں چھوٹے چھوٹے جھنڈوں کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں، جو ہوا میں لہرا رہے تھے۔ یہ جھنڈے بلوچستان کے آزادی کے خوابوں کی علامت تھے، جو ان بے ترتیب لہروں اور ہوا کے درمیان پھڑپھڑا رہے تھے۔

ہوا کی سرگوشیاں ماھل کے کانوں میں ایک مقدس پیغام بن کر پہنچ رہی تھیں، جیسے وہ بھی اسے اس راہ پر چلنے کے لیے ہمت دے رہی ہوں۔ اُس نے اپنی آنکھیں بند کیں اور گہری سانس لی، ہوا کا لمس اس کے چہرے کو چھوتا ہوا گزر رہا تھا۔ اس لمحے ہوا اور ماھل باہم ایک ہوگئے تھے، جیسے ہوا بھی اس کی قربانی کا حصہ بننا چاہتی ہو۔

ماھل اپنے منزل کی جانب بڑھنے کے لیے تیار تھی، وہی منزل جہاں تاریخ کا درخشاں باب رقم ہونا تھا۔ وہ منزل جو داستان بنے والا تھا۔ ماھل کو گاڑی کے اندر بیٹھتے ہی وہ سب کچھ یاد آیا جو اس کے بعد بھی رہنے والا تھا۔ گوادر کا ساحل، جہاں بچپن سے وہ کھیلتی رہی تھی۔ وہ چھوٹے چھوٹے قصبے، جہاں کی مٹی زندگی کو ہرارت بخشتی تھی۔ اس کے دل میں ایک عجیب سا سکون تھا، مگر ساتھ ہی ایک اضطراب بھی، جیسے وہ اپنی زمین کی آخری گواہی دینے جا رہی ہو۔

گاڑی کے انجن کی آواز، جو پہلے خاموش تھی، اب ہوا کے شور میں مل گئی۔ ماھل کی گاڑی بیلا جانب رواں تھی۔ راستے میں، سمندر کی لہروں کا شور پیچھے رہ گیا مگر ہوا کی سرگوشیاں اب بھی اس کے ساتھ تھیں۔ گاڑی کا ہر جھٹکا، ہر موڑ، اسے اس لمحے کے قریب لے جا رہا تھا جس کے لیے وہ زندہ رہی تھی۔

بیلا، جو دن کے وقت ایک دہکتا ہوا صحرا تھا، رات کے وقت عجیب سا پراسرار لگ رہا تھا۔ چاند کی ہلکی روشنی ریت کے ذروں کو سنہری رنگ دے رہی تھی، اور ہر طرف ایک گہری خاموشی طاری تھی۔ دور کہیں ہنگول کے پہاڑ اپنے بلند چوٹیوں آسمان کی روبرو بلند کیے کھڑے تھے، جیسے وہ بھی اس قربانی کے لمحے کے گواہ بننے کے لیے تیار ہوں اور ماھل الوداع کر رہی ہوں

ماھل کی گاڑی جب ہنگول کے پہاڑوں اور کنڈ ملیر کے سمندر کے کنارے سے ہوتے ہوئے بیلا پہنچی، تو ہوا نے ایک بار پھر اپنا رخ بدلا، وہ اب تیز اور گرم ہو چکی تھی، جیسے صحرا، سمندر اور پہاڑ بھی اس قربانی کا حصہ بننا چاہتی ہو۔ ہوا کے جھونکے ریت کے ذروں کو اٹھا کر فضا میں بکھیر رہے تھے اور ان ذروں کی چمک چاند کی روشنی میں عجب سا منظر پیش کر رہی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے خود زمین اس عظیم قربانی کے لیے اسے پکار رہی ہو۔

ماھل اپنے پرعزم ساتھیوں کے ساٹھ ایک غیر معمولی عالم میں جمع ہوئی۔ رات کی خاموشی میں اور چاند کی مدھم روشنی نے اُن کے چہروں پر ایک نایاب چمک بکھیر رکھی تھی۔ ہر ستارہ آسمان پر جھلملاتا، گویا وہ اس لمحے کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ان کے گرد دائرہ بنا رہا تھا۔ ہوا کی سرسراہٹ میں ایک سنہری سرگوشی چھپی ہوئی تھی، جیسے کہ رات کی دھیمی گرج ان کی گفتگو سننے موجود ہو۔

ماھل کے تاریخی الفاظ اس کی زبان سے ایسے بہہ رہے تھے جیسے روحانی لگان کے دریا سے نکلتے ہوں۔ اس نے ہر لفظ کو ایک بیدار خواب کی طرح بکھیر دیا، جو سچائی کی جھلکیاں فراہم کرتا۔ “ہماری موجودگی اس لمحے میں ایک معجزہ ہے۔ ہم جو کچھ بھی کر رہے ہیں، وہ محض ایک معرکہ نہیں، بلکہ ایک عشقِ انقلاب کا سفر ہے۔”

“یہ رات، یہ چاند، یہ ستارے، یہ صحرا، یہ پہاڑ، یہ سمندر کی لہریں، اور ہنگول میں کڑی امید کی شہزادی، سب ہماری قربانی کی تصدیق کر رہے ہیں۔ ہر پل کی سنسناہٹ ، ہوا کی سرسراہٹ، ہمارے خوابوں کی گواہی دے رہی ہے۔” ماھل نے اظہار کیا اور اس کی آواز میں ایک جادوئی کیفیت تھی، جو اس لمحے کی تمام گہرائیوں کو محسوس کراتی تھی۔

بیلا کہ ریت سے ڈھکی سرد زمیں ان کے پیروں کو چُھوتی اور ہوا کی نرم لہر ان کے جسموں کو سکون دے رہی تھی۔ ماھل نے دور کہیں اشارہ کیا جیسے وہ اپنے آسمان کے اس پار کہکشاہوں کو کہہ رہی ہو، گویا انہیں دعوت دے رہی ہو کہ وہ بھی اس لمحے کی اہمیت کو محسوس کریں۔ “یہ چاند، یہ تاریکی، یہ سب ہمیں ایک راستہ دکھا رہی ہے کہ ہم ایک معرکہ سرانجام دینا ہے، وہ سب کچھ ایک بڑے مقصد کے تحت ہے، آزادی کا عظیم مقصد، جس کے لئے سروں کا بلیدان دینا ہے “

پھولوں کی نرم خوشبو نے فضا کو معطر کر دیا تھا، جیسے ہر خوشبو ماھل کے باتوں کی تائید کر رہی ہو۔ ماھل نے اپنی بات جاری رکھی، “ہماری قربانی کی حقیقت، ہماری جدوجہد کی شدت، یہ سب ایک عظیم داستان ہے۔ ہماری زمین، ہمارا وطن، یہ سب ہمارے خون میں بسا ہوا ہے۔ ہم اپنی زندگیوں کی قیمت ادا کر رہے ہیں، تاکہ آنے والی نسلیں ایک آزاد اور روشن مستقبل دیکھ سکیں۔”

آسمان پر چمکتے ستارے جیسے ان کی باتوں کی تصدیق کر رہے ہوں، ہر تاریک گوشہ چاند کی روشنی سے منور ہو گیا تھا۔ ہوا کی سرسراہٹ اور چاند کی چمک نے ان کے الفاظ کو ایک طلسماتی کیفیت فراہم کی تھی، جو اس لمحے کی اہمیت کو اور بھی بڑھا رہی تھی۔

چاند کی مدھم سی روشنی ان پر سنہری قوس کی طرح بکھر گئی، اور ہوا کی نرم لہر نے ان کے عزم کو مزید مضبوط کر دیا۔ یہ لمحہ، ایک جادوئی سرگوشی کے ساتھ، ان کی قربانی کی کہانی کا ایک سنہری حصہ بن گیا، جو کبھی بھی وقت کی دھند میں مدھم نہ ہو گا۔

ماھل گاڑی میں محو سفر ہوئیں اور بلوچستان کی سرزمین کے دلکش منظر سے متعارف ہوئی۔ بیلا کے پہاڑ، جو ایک وقت پر سرشار اور پرشکوہ نظر آتے تھے، آج جیسے اُس کے دل کی گہرائیوں میں جھلک رہے تھے۔ پہاڑوں کی اونچائیوں پر چاند کی مدھم روشنی پڑھ رہی تھی لیکن ان میں ایک عجب سی روشنی پھیل رہی تھی، اور ان کی چٹانیں رنگ بدلتی ہوئی سرخ اور سنہری ہو رہی تھیں، جیسے کسی قدیم داستان کی گواہی دینے کے لیے بیدار ہو رہی ہوں۔

انجن کی گرج اور دھواں کی لکیروں اسے ایک لمحے کے لیے گھیرا لیکن اس کی نظریں بلوچستان کی پرپیچ راستوں پر مرکوز تھیں۔ ہوائیں، جو دور سے اسے داستانوں کے گواہی کے لیے بلاتی تھیں، ایک لطیف سرگوشی میں اُس کے گوش گزار ہو رہی تھیں۔ ان کی سرد لہر نے ماحول میں ایک روحانیت کا احساس بیدار کر دیا، جیسے وہ اسے اپنی آخری منزل کی طرف ہدایت دے رہی ہوں۔

اُسے اردگرد کے صحرا کی تبدیلی محسوس ہونے لگی۔ عام طور پر گرم ہوا، آج کچھ عجیب طور پر ٹھنڈی اور سکون دہ محسوس ہو رہی تھی۔ صحرا کی ریت کی نرم لہریں، جو عام طور پر زمین کی شدت کو ظاہر کرتی تھیں، آج نرم و ملائم تھی، جیسے ماھل کے قدموں کی بھاری ذمہ داری کو سہارنے کے لیے تیار ہو۔

ماھل نے سٹیئرنگ کو مضبوطی سے پکڑا اور گاڑی کو آگے بڑھایا۔ ہر موڑ پر، پہاڑوں کی سرخی اور سمندری ہواؤں کی مدھر سرگوشیاں، اُس کی قربانی کی داستان کو اجاگر کر رہی تھیں۔ صحرا کی ٹھنڈی ہوا نے اس کے چہرے کو چھوا، اور جیسے ہر جھونکا اُس کے مقصد کی تصدیق کر رہا ہو۔

گاڑی کے ٹائر سڑک پر سرکنے لگے، اور ہر بریک اور گئر کی تبدیلی کے ساتھ، ماھل نے بلوچستان کے قدرتی مناظر میں مکمل ہم آہنگی محسوس کی۔ بیلا کے پہاڑ، سمندری ہوائیں، اور صحرا کی ٹھنڈی ہوا، اس کے دل کی دھڑکنوں کو نغمہ دیتے ہوئے، اس کے مقصد کی روحانیت کو سچائی کی طرح واضح کر رہے تھے۔

ماھل نے اپنی آنکھوں سے آخری بار نظر ڈالی اور بیلا کے پہاڑوں اور صحرا کی گود میں اپنی آخری قربانی کا عزم باندھتے ہوئے، گاڑی کو پوری قوت کے ساتھ آگے بڑھا دیا۔ ہر لمحہ، ہر گزرگاہ، اُس کی قربانی کے عظیم مقصد کو پورا کرنے کے قریب آ رہی تھی، اور بلوچستان کی سرزمین نے اس کے دل میں ایک ناقابلِ فراموش نقش چھوڑ دیا۔

ماھل نے گاڑی کی رفتار بڑھا دی، فوجی کیمپ کے دروازے اب نظر آنے لگے تھے۔ بیلا کے پہاڑ، جو ہنگول کی وادی میں چپ چاپ کھڑے تھے، ان کی چوٹیاں جنہوں نے صدیوں تک انقلابات دیکھے تھے، آج ایک نئی داستان دیکھنے کے لیے تیار تھے۔

ماھل نے آخری بار گاڑی کے شیشے سے ان پہاڑوں کی طرف دیکھا، جیسے پہاڑ بھی اس سے کچھ کہنا چاہ رہے ہوں لیکن ماھل جانتی تھی کہ اس لمحے کہ جب وہ اپنی جان قربان کرنے جا رہی تھی، یہ لمحہ کے گواہ رہیں گے۔

فوجی کیمپ کے دروازے قریب آ چکے تھے، ماھل نے گاڑی کو پوری قوت سے دروازے سے ٹکرا دیا، اور ایک زوردار دھماکے کے ساتھ سب کچھ بدل گیا۔

آسمان روشنی میں نہا گیا، بارود کی آگ نے رات کی تاریکی کو چیر ڈالا۔ بیلا کے پہاڑوں میں دھماکے کی گونج سنائی دی، اور ریت کا ہر ذرہ اس لمحے کا حصہ بن گیا۔ ہوا کی سرگوشیاں ایک بار پھر تیز ہو گئیں، جیسے وہ ماھل کی روح کو اپنے ساتھ لے کر فضا میں بلند کر رہی ہوں۔

بیلا کی زمین، جو دہائیوں سے خاموش کی گہری نیند میں محو تھا، دھماکے کی گونج سے بیدار ہو گئی تھی مگر اس گونج میں ایک عجیب سی خاموشی تھی، جیسے یہ زمین بھی ایک سکون کے ساتھ ماھل کی قربانی کی گواہ بن چکی ہو۔ ہوا کی سرگوشیاں اب بھی جاری تھیں، مگر ان میں ایک نئی امید تھی، ایک نیا پیغام۔ سمندر کی لہریں، جو گوادر کے کنارے پر شور کر رہی تھیں، اب ماھلو کی قربانی کا داستان سنانے لگیں۔ ہنگول کے پہاڑ آج اس داستان کو اپنے اندر جذب کر چکے تھے۔

ماھل کی قربانی کے بعد سمندر کی لہریں، جو ہمیشہ شور مچاتی تھیں، آج کچھ مختلف تھیں۔ ایسا لگتا تھا کہ ماھل نے ان لہروں سے سمندر کی گیرائیوں میں وہ راز پہنچا لیا ہو۔ گوادر کے نیلے پانیوں کے پار اٹل پہاڑ، جو صدیوں سے اپنی خاموشی میں سربسجود تھے، آج ان کی چوٹیوں پر جیت اور خوشی کی علامت کے طور پر سرمئی آسمان چھائے ہوئے تھے۔ جیسے وہ پہاڑ ماھل کی قربانی کو اپنی زبان میں چیخ چیخ کر سنانا چاہتے ہوں۔

ہنگول کا سحرا، جو اپنی وسعتوں میں ہمیشہ کی خاموشی بکھیرتا تھا، آج پہلی بار بے چین سے لگ رہا تھا۔ ریت کے ذرات ہوا میں اڑ رہے تھے ایسے محسوس ہو رہے تھے جیسے وہ نئے عہد کی امید میں جھوم رہے ہوں۔ ریت کے وہ ذرات، جو کبھی ماھل کے پاؤں کے نیچے دبے تھے، آج خود کو اس کے قدموں کے نشانوں کی تلاش میں بکھرتے جا رہے تھے۔

ہنگول میں امید کی شہزادی خوشی سے جوم رہی تھی۔ اس کے وجود نے اُس کی سرزمین کے باسیوں کے دلوں میں وہ آگ بھڑکائی تھی جو صدیوں کی غلامی نے دبا رکھی تھی۔ یہ امید کی شہزادی اب اپنے خوابوں کی دنیا میں زندہ تھی، جہاں غلامی کی زنجیریں ٹوٹ رہی تھیں، اور ہر آہ و بکا کے بدلے آزادی کی خوشبو اُمڈ رہی تھی۔

گوادر کا سمندر آج کھل کر باتیں کرنے لگا تھا۔ اس نے وہ دن دیکھا تھا جب ماھل نے اپنے لہو سے وطن کی مٹی کو سینچا تھا۔ اُس دن کی یادیں سمندر کی گہرائیوں میں ایسے مدفن تھیں جیسے کوئی قدیم داستان۔ سمندر کہہ رہا تھا کہ “اب یہ زنجیریں ٹوٹیں گی۔” ان لہروں میں وہ طاقت آ چکی تھی جو غلامی کے ہر نشان کو مٹانے کے لیے کافی تھی۔

وہ پہاڑ، جو ہنگول کے آسمان کو چھوتے تھے، آج ان کی خاموشی میں غضب کی بجلیاں کوند رہی تھیں۔ وہ پہاڑ، جنہوں نے صدیوں سے انسانوں کی جدو جہد کو دیکھا، آج ان کے سینوں میں طوفان اٹھ رہے تھے۔ ماھل کا نام ان کی چوٹیوں پر کندہ ہو چکا تھا، اور وہ چیخ رہے تھے، “ہم آزاد ہونگے!” اب ان چوٹیوں پر وہ علم نہیں لہرائے گا جو صدیوں سے غلامی کا نشان تھا۔ اب ان پہاڑوں کی چوٹیاں گواہ تھیں کہ “کوئی ہماری بے حرمتی نہیں کرے گا۔”

ماھل کے قربانی کے بعد، ہر بستی میں ایک نئی امید جاگ اٹھی ہے۔ عورتیں، مرد، بچے—سب ایک نئی جستجو میں مبتلا ہو چکے تھے۔ اب ہر دل اس یقین سے لبریز تھا کہ “ہم آزاد ہونگے، ہمارے پیارے واپس آئیں گے، اور کوئی ماں اپنے بیٹے کے لاپتہ ہونے کی خبر پر بین نہیں کرے گی۔”

ویرانوں میں وہ صدائیں، جو پہلے ماتم کرتی تھیں، اب زندگی کی نوید دے رہی تھیں۔ پہلے جب کبھی ایک مسخ شدہ لاش ملتی تھی، تو دل دہل جاتا تھا، آنکھوں میں آنسو بھر آتے تھے، لیکن اب وہ آنسو خوشیوں کے دریاؤں میں بدلنے کو تھے۔ کیونکہ انہی قربانیوں سے بلوچ زمین پر نئی سورج کو طلوع ہونا ہے۔

ماھل کی قربانی نے بلوچستان کی ہواؤں میں ایک ایسی خوشبو چھوڑ دی ہے، جو کبھی مٹنے والی نہیں ہے۔ یہ خوشبو اُس آزادی کی ہے، جس کا خواب بلوچوں نے صدیوں سے دیکھا ہے۔ اب وہ دن قریب ہے جب کسی باپ کو گمشدگی کی فریاد نہیں سنائی دے گی۔ کوئی ویرانہ کسی کے لاشے کو چھپانے کی گواہی نہیں دے گا۔

ماھل نے وہ چراغ جلا دیا ہے، جو اب کبھی بجھنے والا نہیں ہے۔ وہ چراغ غلامی کے اندھیروں کو ہمیشہ کے لیے مٹا دیگا، اور ہر دل میں آزادی کا دیا روشن کرے گا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی خواہش مند ہیں، ان کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹورک متفقہ ہے یا اس کے خیالات کی پالیسیوں کا اظہار ہے۔