خفیہ ادارے چھاپے مار کر ہمارے دو سینیٹرز کو استعفے دینے کیلئے مجبور کررہے ہیں ۔ ایڈوکیٹ ساجد ترین

321

بلوچستان نیشنل پارٹی کے قائم مقام صدر ساجد ترین ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ سردار اختر جان مینگل کا قومی اسمبلی سے استعفے کے بعد حکومت اور اس کے خفیہ ادارے ہمارے دو سینیٹرز کے گھروں پر اور زمینوں پر چھاپے ماررہے ہیں تاکہ انہیں دباو میں لا کر مستعفی ہونے پر مجبور کیا جائے اگر اسٹیبلشمنٹ کا یہی رویہ رہا کہ وہ بی این پی کو دیوار سے لگانے کی کوشش کرے گی تو ہمارے دو سینیٹرز کے مستعفی ہونے کے حوالے سے جمعے کو ہونے والے پارٹی کے سینٹرل کمیٹی کے اجلاس میں فیصلہ کرنے پر مجبور ہوجائیں گے حکومت ایک آئینی پیکج خفیہ طور پر لا رہی ہے جس کے لیے صدر اور وزیر اعظم مختلف سیاسی لیڈر شپ کے گھروں پر رات کے تاریکی میں جا کر انہیں منانے کی کوشش کررہی ہے اگر حکومت مخلص ہے تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ تین چار ماہ قبل اس آئینی پیکج کو عوام کے سامنے لایا جائے تاکہ اس پر تمام سیاسی جماعتوں کے ڈبیٹ کے بعد خامیاں نکال کر اس پر عوام کی رائے لی جانی چاہیے لیکن حکومت اس سے خفیہ طور پر لانے کی کوشش کررہی ہے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے کوئٹہ پریس کلب میں ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا اس موقع پر بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنما غلام نبی مری موسی بلوچ اور دیگر رہنما بھی موجود تھے۔

ساجد ترین ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ پاکستان کے اسٹیبلشمنٹ ایسے لوگوں کو پارلیمنٹ میں دیکھنا چاہتی ہے جو خاموش ہو بلوچستان نیشنل پارٹی ایک رجسٹرڈ سیاسی جماعت ہے ہم حکومت کے ہر اس غلط فیصلے اور اقدام کی مخالفت کریں گے جو ہمارے عوام کے خلاف ہو ہم نے ہمیشہ پر امن سیاست کی ہے ہمارے پارٹی کے سابق جنرل سیکرٹری حبیب جالب بلوچ سمیت دیگر رہنماوں کو شہید کیا گیا لیکن ہم نے پر امن سیاست کا سلسلہ جاری رکھا، سننے میں آرہا ہے کہ حکومت ایک خفیہ آئینی پیکج ملک میں معاشی صورتحال پر لانے کی کوشش کررہا ہے ہم اس طرح کے خفیہ آئینی پیکج کی مذمت کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے خاتون سینیٹر نسیمہ احسان اور قاسم رونجو کو سٹیبلشمنٹ کی جانب سے دھمکیاں دی جارہی ہے ان کے گھروں اور زمینوں پر چھاپے مارے جارہے ہیں اگر یہی دھمکیوں کا سلسلہ جاری رہا تو ہم اپنے سینٹرل کمیٹی کے اجلاس میں اس پر غور کریں گے۔

ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ہمارے پارٹی اور بلوچستان کے ہزاروں لوگوں کا نام فور شیڈول میں ڈال دیا گیا ہے تاکہ خواتین کے نام بھی شامل ہے اس سے حکمرانوں کی ذہنیت کا اندازہ لگایاجاسکتا ہے۔